کوئٹہ: آل بلوچستان میڈیکل طلبہ کی احتجاجی ریلی پر سیکیورٹی اداروں کا ظالمانہ تشدد اور گرفتاریاں!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بلوچستان|

ہفتے کے روز آل بلوچستان میڈیکل طلبہ کی احتجاجی ریلی جو کہ کوئٹہ پریس کلب سے جی پی او چوک تک پُرامن طریقے سے جا رہی تھی مگر حکامِ بالا کے ایماء پر سیکیورٹی اداروں نے اس پُرامن اور پُرجوش ریلی کو ظالمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جس میں نہ صرف طلبا شامل تھے بلکہ طالبات بھی اس تشدد کی زد میں آگئیں۔ لاٹھی چارج اور آنسو گیس شیلنگ سے کئی طلبا اور طالبات زخمی ہوگئے۔ کئی طلبہ کو گرفتار بھی کیا گیا جن کو سول لائن تھانے لے گئے جن میں پی وائی اے کے کامریڈ امیر ایاز بھی شامل تھے۔

ریاستی جبر نے طلبہ کے حوصلوں کو مزید بلند کردیا اور مشتعل طلبہ نے جی پی او چوک پر دھرنا دیا۔ طلبہ نے حکمرانوں اور سیکیورٹی اداروں کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ اس دوران طلبہ کی نمائندہ کمیٹی نے بالا حکام کے ساتھ مذاکرات کیے جن میں وزیر اعلیٰ کیساتھ ملاقات کروانے کی یقین دھانی ، گرفتار طلبہ کی رہائی اور طلبہ پر تشدد کرنیوالے پولیس اہلکاروں کی معطلی شامل ہیں۔اس کے بعد یہ احتجاجی مظاہرین کوئٹہ پریس کلب کے سامنے آکر بیٹھ گئے۔ رات کو گرفتار طلبہ کو بھی رہا کرنا پڑا۔ 

واضح رہے کہ طلبہ کا یہ احتجاج بولان میڈیکل کالج انٹری ٹیسٹ میں کرپشن اور دھاندلی کے خلاف 5فروری کو شروع ہوا تھا جو کہ انتہائی پُرامن طریقے سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جاری تھا مگر حکام بالا کی طرف سے کوئی نوٹس نہ لینے کیوجہ سے طلبہ نے مجبور ہو کر اپنے احتجاج کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے ریلی نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اس احتجاج نے بلوچستان کے اندر طلبہ سیاست میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے جس میں نام نہاد روایتی طلبہ تنظیموں کو طلبہ نے مسترد کردیا کیا جنہوں نے اس احتجاج میں محض علامتی شرکت کی، جو کہ ان طلبہ تنظیموں کی حالتِ زار کا بتا دیتی ہیں جس کے حوالے سے ہم تناظر دے چکے تھے۔ جبکہ دوسری طرف ایک قوم پرست طلبہ تنظیم نے سودے بازی کی، جس کے نتیجے میں چند میڈیکل سیٹوں کے عوض انہوں نے بلوچستان کے طلبہ کے مستقبل کیساتھ کھلواڑ کیا۔ ایک طرف میرٹ میرٹ کی گردان کرتے ہوئے تھکتے نہیں جبکہ دوسری طرف سودے بازی میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ 

اس کے علاوہ طلبہ نے مختلف سیاسی پارٹیوں کی آمد پر اُنہیں تنقید کا نشانہ بنایا، اور واشگاف الفاظ میں یہ نعرے لگاتے تھے کہ یہ پارٹیاں صرف فوٹو سیشن اور اپنی سیاست کی دکان چمکانے کے لیے آتے ہیں۔ کل کی احتجاجی ریلی نے مصنوعی قیادت کو باہر پھینک دیا جسکی مثال ان کی طرف طالبات کے جارحانہ رویے کی صورت میں اُنہیں دیکھنا پڑا، اور اس احتجاج نے اپنے لیے نئی قیادت خود تراش لی۔ یہ احتجاج بلوچستان کے اندر طلبہ سیاست میں ایک نئے باب کا سنجیدہ آغاز ہے۔ پروگریسیو یوتھ الائنس روز اول سے اس شاندار احتجاجی تحریک میں عملی طور پر شامل ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ پر ریاستی غنڈہ گردی کی شدید مذمت کرتا ہے اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ طلبہ کی مانگیں فی الفور پوری کی جائیں۔ اس احتجاج نے ریاست کے مکروہ چہرے کو ننگا کردیا ہے۔ ہر طرح کی قومی، لسانی اور مذہبی تفریقوں اور تعصبات کو رد کرتے ہوئے طبقاتی بنیادوں پر طلبہ اتحاد ہی آگے بڑھنے کا واحد رستہ ہے۔

ریاستی جبر مردہ باد!

طلبہ اتحاد زندہ باد! 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.