قائد اعظم یونیورسٹی:قومی و لسانی فسادات کی سازش نامنظور، طلبہ اتحاد زندہ باد!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، اسلام آباد|

گزشتہ شب قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پشتون سٹوڈنٹس کونسل اور بلوچ سٹوڈنٹس کونسل کے مابین جھگڑا ہوا۔ جس کے نتیجے میں 40 کے قریب طلبہ زخمی ہو گئے اور 2 کی حالت تشویش ناک ہے اور انہیں حساس میجر سرجریز سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ اس واقعے کے بعد یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت کے لئے بند کر دیا گیا ہے۔

یہ لڑائی پچھلے ایک ہفتے سے چلی آرہی ایک سرد جنگ کا نتیجہ ہے۔ کچھ دن صرف ہٹس پہ بیٹھ کے ایک دوسرے کو گھورنے تک محدود رہی۔ پھر ایک دوسرے کو گالم گلوچ کیا گیا اور چھوٹی موٹی ہاتھا پائی ہوتی رہی۔ اسی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے کل آہنی ہتھیاروں سے حملہ شروع ہوا۔ اس جھگڑے کی کوئی معقول وجہ اب تک سامنے نہیں آسکی۔ اس تمام صورت حال میں یونیورسٹی انتظامیہ خاموش تماشائی بن کے دیکھتی رہی۔ اور اس لڑائی کو رکوانے کیلئے کوئی قدم نہ اٹھایا گیا۔ حتیٰ کہ کیمپس میں رینجرز کو بلا لیا گیا اور یونیورسٹی کو تمام طلبہ کیلئے لا محدود مدت تک بند کر دیا گیا۔ یونیورسٹی کے بند کرنے کے اعلان کے فوراً بعد ہی طلبہ کو یونیورسٹی چھوڑ کر جانے کا آرڈر جاری کر دیا گیا۔ اس طرح عام طلبہ، خاص طور پر طالبات کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ یونیورسٹی انتظامیہ کی نااہلی اور طلبہ دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لہٰذا اس فساد کی ذمہ داری جہاں کونسلوں پر تو براہ راست جاتی ہے وہیں یونیورسٹی انتظامیہ پر بھی جاتی ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ کونسلوں کے ممبران سمیت یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف بھی کاروائی کی جائے۔ اسی طرح یونیورسٹی کی سیکورٹی کا بھی خاتمہ کیا جائے، کیونکہ وہ ماسوائے طلبہ کو ڈرانے دھمکانے کے اور کوئی کام نہیں کرتی۔

اس معاملے پر سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں لڑائی جھگڑے ہوتے کیوں ہیں اور ان کی روک تھام کے لیے انتظامیہ یا ریاست کیوں کوئی کردار ادا نہیں کرتی؟ پاکستان کی تاریخ میں طلبہ نے اپنے حقوق اور سماجی مسائل کے خاتمے کی خاطر تحریکوں اورجدوجہد میں ایک شاندارکردار ادا کیا ہے۔ حکمران طبقے کی طرف سے اس مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے 1980ء کی دہائی میں طلبہ سیاست کو بدنام کرکے طلبہ کے جمہوری حق طلبہ یونین پر پابندی عائد کردی۔ ساتھ ہی جمعیت جیسی طلبہ دشمن تنظیموں سمیت لسانی بنیادوں پر قائم مختلف کونسلوں کو پروان چڑھایا گیا یا چڑھنے دیا گیا۔ جمعیت اور کونسلوں میں بہر حال ایک واضح فرق موجود تھا۔ وہ یہ کہ جمعیت کھلم کھلا بدمعاشی اور غنڈہ گردی کے ذریعے طلبہ میں خوف و ہراس قائم کرتی تھی اور طلبہ اتحاد کو کمزور کو کرتی تھی۔ جبکہ کونسلیں کھلم کھلا تو نہیں بہر حال طلبہ کو لسانی و قومی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا کام ضرور کرتی تھیں۔ جمعیت اور کونسلیں کم و بیش ہر یونیورسٹی میں انتظامیہ کے ایک یا دوسرے دھڑے کے ساتھ منسلک ہوتیں اور انتظامیہ کی اندرونی لڑائیوں میں ایک اوزار کے طور پر خود کو استعمال کراتیں۔ اس طرح جمعیت اور کونسلیں طلبہ اتحاد کو کمزور کرتیں۔

یہاں ہم کونسلوں کے متعلق ہی بات کرینگے۔ کونسلوں کی بنیاد اگرچہ طلبہ یونین پر پابندی کے بعد اس بات پر پڑی تھی کہ اپنے گھر سے دور کسی علاقے میں جا کر پڑھنے والے ایک ہی قوم کے طلبہ ایک دوسرے کو سہارا دے سکیں۔ تب اس طرح ان کی نظریاتی بنیادیں موجود نہیں تھیں۔ بہر حال وقت کے ساتھ ساتھ مختلف قوم پرست پارٹیوں نے ان کی طاقت کو دیکھتے ہوئے ان سے رابطے قائم کیے اور انہیں اپنے سیاسی مقاصد کیلئے کنٹرول کیا جانے لگا۔ مگر آج سے صورت حال بالکل مختلف شکل اختیار کر چکی ہے۔ آج تمام کونسلیں کھلم کھلا قوم پرستی کے نظریات کا پرچار کرتے دکھائی دیتی ہیں۔ چونکہ قوم پرستی کا نظریہ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کی وجہ سے آج مکمل طور پر رجعتی شکل اختیار کر چکا ہے، لہٰذا اس کا اظہار ان کونسلوں کے اندر بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اسی کا اظہار پھر آج شاونزم کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے، جس میں دوسری قوموں سے نفرت کا عنصر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ لہٰذا قوم پرستی کا رجعتی نظریہ آج جہاں دوسروں سے نفرت سکھا رہا ہے وہیں بھونڈی عملیت پسندی کی وجہ سے بس اپنا فائدہ حاصل کرنے کی سوچ کو بھی تقویت دے رہا ہے۔ اس طرح یہ نظریہ تعلیمی اداروں میں مکمل طور پر طلبہ دشمن شکل اختیار کر لیتا ہے اور طلبہ کو تقسیم کرتا ہے۔ یہاں ہم یہ بات واضح کرناضروری سمجھتے ہیں کہ کونسلوں کی قیادتوں کے برعکس ان سے منسلک عام طلبہ کونسلوں کی قیادتوں اور کردار سے نفرت کرتے ہیں۔ وہ اس سب غلاظت میں شامل نہیں ہوتے بلکہ وہ ملک گیر طلبہ اتحاد کی بنیاد پر جدوجہد کر کے اپنے مسائل حل کروانا چاہتے ہیں۔

آج ملک کے معاشی، سیاسی اور ریاستی بحران کے پیش نظر ان کے طلبہ دشمن اور رجعتی کردار میں شدت آچکی ہے۔ یہ غنڈہ گرد جتھے طلبہ اتحاد کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ چاہے ریاست و انتظامیہ کی دلال تنظیم جمعیت ہو یا کونسلیں عام طلبہ ان سے نفرت کرتے ہیں۔ریاست اور انتظامیہ خود اس طرح کے جتھوں کی پشت پناہی کرتی ہے اور ان کو ختم ہی نہیں کرنا چاہتی۔کیونکہ ان کے ذریعے عام طلبہ کوخوف ہراس میں مبتلا کیا جاتا ہے اور طلبہ کو اپنے حقوق کی جدوجہد سے کوسوں دور دھکیل دیا جاتا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ کونسلوں کا بنیادی مسئلہ ان کے پاس سوشلزم کے نظریے کا نہ ہونا ہے کیونکہ آج صرف سوشلزم ہی وہ واحد نظریہ ہے جو تمام مظلوم قومیتوں، محنت کش طبقے اور سماج کی دیگر مظلوم پرتوں کو متحد کر کے جدوجہد کا رستہ فراہم کرتا ہے۔

پروگریسو یوتھ الائنس کونسلوں کی غنڈہ گردی کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے طلبہ اتحاد کا نعرہ بلند کرتا ہے۔ ہم تمام طلبہ کو رنگ، قوم، نسل، زبان و مذہب سے بالاتر ہوکر ”ایک کا دکھ سب کادکھ“ کی بنیاد پر یکجا ہونے کی اپیل کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بشمول قائد اعظم یونیورسٹی ملک کے طلبہ کو طلبہ یونین کی بحالی کے مطالبے ساتھ ساتھ طلبہ کی اپنی منتخب کمیٹیاں تشکیل دینا ہوں گی۔ ان کمیٹیوں میں کلاس کی سطح تک طلبہ کو منظم کرکے نمائندے منتخب کرنے ہوں گے اور پھر ڈپارٹمنٹ اور یونیورسٹی کی سطح کی منتخب کمیٹی تشکیل دینی ہوگی۔ اسی طرح شہر کے دیگر تعلیمی اداروں میں کمیٹیاں تشکیل کر کے ضلعی اور صوبائی لیول کی منتخب کمیٹیاں بنانی ہو ں گی۔ اور پھرپورے ملک کی کمیٹیوں کوجوڑ کرملک گیر سطح پر طلبہ کو درپیش مسائل اور تمام مسائل کی جڑ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا۔ اسی وجہ سے ہمارا نعرہ صرف یہ ہرگز نہیں ہے کہ ”تمام مظلوم قومیتیں متحد ہو جائیں“، بلکہ ہمارا نعرہ ہے ”تمام مظلوم قومیتوں سمیت سماج کی دیگر مظلوم پرتیں آپس میں طبقاتی اتحاد قائم کریں“۔ کیونکہ صرف طبقاتی اتحاد ہی آج سب کو آپس میں جوڑ سکتا ہے۔

اسی طرح ہی موجودہ نظام میں رہتے ہوئے بھی نہ صرف لڑائی جھگڑوں اور ذاتی مفادات پر مبنی گروپس سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے بلکہ ان کے سبب پیچھے ہٹ جانے والے طلبہ کے حقیقی مسائل یعنی فیسوں میں اضافے، تعلیمی بجٹ میں کٹوتی، بے روزگاری، ہراسمنٹ، طلبہ یونین پر عائد پابندی، نسلی پروفائلنگ، اورہاسٹل، ٹرانسپورٹ و دیگر سہولیات کی قلت جیسے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کی جاسکتی ہے۔

ایک کا دکھ سب کا دکھ!
طلبہ اتحاد۔۔۔ زندہ باد!
رجعتی قوم پرستی مردہ باد۔۔۔ سوشلزم زندہ باد!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.