آج صبح پشاور یونیورسٹی کے زرعی انسٹیٹیوٹ پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے نتیجے میں اطلاعات کے مطابق 11افراد جاں بحق ہوئے جن میں 9طلبہ بھی شامل ہیں۔ یہ حملہ ریاستی پشت پناہی کے بغیر ممکن نہیں تھا اور اس وقت ریاست کی ٹوٹ پھوٹ، دھڑے بندیوں اور بوکھلاہٹ کا کھلا ثبوت ہے ۔ یہ درحقیقت ملک بھر میں ابھرتی طلبہ تحریک پر حملہ ہے اور طلبہ میں خوف و ہراس اور دہشت پھیلانے کی کوشش ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس اس حملے کی شدید مذمت کرتا ہے اور طلبہ کو ان حملوں کے خلاف متحرک ہونے کی اپیل کرتا ہے۔ طلبہ اور محنت کش ہی اس دہشت گردی کو شکست دے سکتے ہیں۔
قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبہ کی فیسوں میں اضافے کے خلاف حالیہ کامیاب ہڑتال کے بعد طلبہ تحریک نے ایک معیاری جست لگائی ہے جس کا اظہار ملک بھر میں تعلیم کے اس کاروبار کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہرے ہیں۔ اس ہڑتال میں طلبہ نے میں ایک نئی بحث کا آغاز کیا اور ایک مثال قائم کی کہ حکمرانوں کے ان حملوں کے خلاف نا صرف لڑا جاسکتا ہے بلکہ کامیابی بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد سے حکمرانوں اور ریاستی اداروں کا خوف پہلے سے کئی گنا بڑھ چکا ہے اور وہ کسی بھی طریقے سے طلبہ کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے بلوچ طلبہ پر تشدد کر کے پہلے اس تحریک کو قومی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ اس ہڑتال کے ملک بھر کے طلبہ پر ہونے والے اثرات کو زائل کیا جاسکے مگر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اسی طرح اس سے قبل پنجاب یونیورسٹی میں پشتون کلچر ڈے پر اپنی پالتو دہشت گرد تنظیم اسلامی جمعیت کا حملہ کروایا گیا اور اس کے بعد مشعل خان کا مردان یونیورسٹی میں ریاستی پشت پناہی میں قتل ہمارے سامنے ہے جس پر توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگا کر اپنی پالتو تنظیموں کے ہاتھوں قتل کروایا گیا۔اس میں قوم پرست طلبہ تنظیم پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن بھی شامل تھی۔ مگر اس قتل پر ملک بھر میں طلبہ اور نوجوانوں کے بھرپوررد عمل نے بنیاد پرستوں کی شدید مذمت کی جس کے باعث سرکاری ملاؤں کو بھی نہ چاہتے ہوئے اس قتل کی شدید مذمت کرنا پڑی اور قاتلوں کو وقتی طور پر گرفتار کیا گیا۔
اب چند روز قبل پشاور یونیورسٹی میں متحدہ طلبہ محاذ، جس میں اسلامی جمعیت طلبہ ، انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن اور نام نہاد ’ترقی پسند‘ پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن بھی شامل ہے، کی مدد سے طلبہ تحریک پر نیا حملہ کروایا گیا مگر پشاور یونیورسٹی کے طلبہ نے ہی اس حملے کو ناکام بنا دیا۔ فیسوں میں اضافے، ہاسٹلز اور ٹرانسپورٹ کی کمی اور طلبہ کے دیگر حقیقی مسائل پر متحدہ طلبہ محاذ کا پچھلے تین روز سے دھرنا جاری ہے۔ اس دھرنے کا مقصد صرف اور صرف یونیورسٹی میں ابھرتی حقیقی تحریک کو ریاست اور یونیورسٹی انتظامیہ کی گماشتہ تنظیموں کی مدد سے ہائی جیک کرنا تھا تاکہ اسے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت انتظامیہ سے سودے بازی کر کے زائل کیا جا سکے۔ ریاستی اداروں اور ان کی دلال تنظیموں کا یہ خیال تھا کہ ان حقیقی مسائل پر آواز بلند کر کے عام طلبہ کی حمایت دوبارہ ان تنظیموں کے لیے جیتی جا سکتی ہے جنہیں طلبہ کئی دفعہ رد کر چکے ہیں۔ان طلبہ تنظیموں کی سرپرست پارٹیاں خود حکومت میں شامل ہیں اور تعلیم پر حملے کر رہی ہیں۔ دوسری جانب طلبہ کی آواز کو بھی حقیقی نمائندگی سے روکنے کے لیے اپنی گماشتہ تنظیموں کو استعمال کیا جاتا ہے۔مگر یہ ان کی خام خیالی ثابت ہوئی ہے۔ طلبہ کی ایک بھاری اکثریت نے اس دھرنے کا حصہ نہ بن کر بلند شعوری معیار کا ثبوت دیا اور اس ریاستی حملے کو مکمل طور پر ناکام بنادیا۔ ریاستی پشت پناہی، بھاری انوسٹمنٹ اور میڈیا کیمپین کے باوجود چند سو طلبہ ہی پہلے روز اس دھرنے کا حصہ بنے اور بعد میں یہ تعداد بھی گنتی کے چند لوگوں تک محدود ہو کر رہ گئی۔ متحدہ طلبہ محاذ میں اسلامی جمعیت طلبہ، انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن، پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن، پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن اور دیگر تنظیمیں شامل ہیں۔ اگر صرف اس اتحاد میں شامل تنظیموں کے اپنے عہدیداران ہی دھرنے میں شرکت کرتے تو یہ تعداد سینکڑوں سے تجاوز کرسکتی تھی۔ اس حوالے یہ ریاستی حملہ ایک صریح ناکامی سے دوچار ہوا ہے۔طلبہ ان تنظیموں کو یکسر ردکرچکے ہیں کیونکہ وہ ان تنظیموں کا حقیقی مجرمانہ کردار جانتے ہیں۔
آج طلبہ تحریک پر ایک نیا حملہ دہشت گردی کی صورت میں کیا گیا ہے جس کا مقصد خوف و ہراس پھیلانا اور طلبہ کو اپنے مسائل کی جدوجہد سے دور رکھنا ہے۔ حکمران طبقات اور یہ ریاست ہر قیمت پر ابھرتی ہوئی حقیقی طلبہ تحریک کا رستہ روکنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔دہشت گردی اس ریاست کی پالیسی کا حصہ بن چکی ہے اور جب تک یہ ریاست موجود ہے دہشت گردی کا کاروبار جاری رہے گا۔ حکمران طبقات کے مختلف دھڑے آپسی لڑائیوں اور مخالفین کے ساتھ حساب بیباک کرنے کے لئے بھی اس کا خوب استعمال کرتے ہیں۔ ریاست کے ان سٹریٹجک اثاثوں کی آپسی لڑائیوں میں بھی عام لو گ ہی نشانہ بنتے ہیں۔ مگر اس دہشت گردی کا سب سے منظم استعمال مزدوروں اور طلبہ کی تحریکوں کے خلاف کیا جاتا ہے۔ جب بھی حکمران طبقات کے اقتدار کو خطرہ لاحق ہوتا ہے، جب بھی مزدور یا طلبہ ظلم زیادتیوں کے خلاف آواز بلندکرتے ہیں تو ان کو کچلنے کے لیے ریاست پوری طاقت سے حرکت آجاتی ہے۔ کبھی اپنے پالتو زرخرید ملاؤں کا سہار الیا جاتا ہے تو کبھی اس کے خلاف نام نہاد آپریشن اور سکیورٹی کے نام پر فوج ، رینجرز اور پولیس دہشت پھیلاتے ہیں۔ یہ دہشت گرد اس ریاست کی اپنی پیداوار ہیں جن کو حسب ضرورت اور وقت استعمال میں لایا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں کے حوالے سے دیکھا جائے تو طلبہ سیاست پر پچھلی تین دہائیوں سے عائد پابندی کے باوجود جمعیت جیسی غنڈہ گرد تنظیموں کو کھلی چھوٹ حاصل ہے اور جب بھی طلبہ اپنے مسائل کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں تو ان غنڈہ گرد تنظیموں کے حملے کروائے جاتے ہیں۔ اب تو نام نہاد ترقی پسند تنظیم پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن بھی اس لسٹ میں شامل ہوچکی ہے اور یاست کی بی ٹیم کا کردار ادا کررہی ہے۔ ماضی میں ان تنظیموں کو تھوڑی بہت حمایت حاصل تھی مگر آج طلبہ ان تنظیموں سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ ریاست کی بھاری سرمایہ کاری کے باوجود بھی جمعیت کی حمایت میں اضافہ نہیں کیا جاسکا بلکہ خود جماعت اسلامی اپنی حمایت کھو چکی ہے اور اس وقت ہوا میں معلق ہے۔گزشتہ چند ماہ میں جمعیت کو ملک بھر میں ری لانچ کرنے کا منصوبہ بھی بری طرح ناکام ہوا ہے۔ انتہائی مہنگی تشہیری مہم اور مکمل ریاستی پشت پناہی اور غنڈہ گردی کی کھلی اجازت کے باوجود کسی بھی جگہ پر جمعیت اپنی جگہ نہیں بنا سکی۔
یہی حال ماضی کی ترقی پسندتنظیموں کا ہوا ہے جو آج شدید نظریاتی زوال پذیری کا شکار ہوکر زندہ لاشیں اور بوجھ بن چکی ہیں جس کو قبر میں اتارنے کی ضرورت ہے۔ طلبہ نے بار بار ان تنظیموں کو ریجیکٹ کیا ہے۔ نا صرف ان تنظیموں کو ریجیکٹ کیا ہے بلکہ ان نظریات کو بھی رد کردیاجن پر یہ تنظیمیں استوار تھیں۔ مذہبی تنظیموں سے لے کر قوم پرست اور ماضی کی تمام ترقی پسند اور طلبہ کی روایتی تنظیمیں آج محض غنڈہ گردی، ہاسٹلوں کی الاٹمنٹ میں کمیشنوں، کینٹینوں کے ٹھیکوں، منشیات اور دیگر جرائم کے فروغ کی فروخت تک محدودہیں اور طلبہ کے حقیقی مسائل سے ان کا دور کا بھی تعلق نہیں۔ان تنظیموں میں موجود بزرگ افراد ،جو اپنے آپ کو طلبہ کہنے پر بضد ہیں ،کا حتمی مقصد کسی سیاسی پارٹی میں عہدہ حاصل کر کے لوٹ مار میں اعلیٰ مقام حاصل کرنا ہے۔ اسی باعث طلبہ ان سے شدید نفرت کرتے ہیں اور ایک متبادل پلیٹ فارم کی تلاش میں ہیں جہاں سے وہ اپنے مسائل کے خلاف جدوجہد کرسکیں۔
آرمی پبلک سکول میں معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے بعد ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو جیلوں اور بیرکوں میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ اس سکیورٹی کا مقصد بظاہرآئندہ ایسے واقعات کو روکنا تھا۔ لیکن در حقیقت اس سکیورٹی کو جواز بناتے ہوئے تعلیمی اداروں میں طلبہ پر جبر کی انتہا کردی گئی۔ قدم قدم پر چیک پوسٹیں، مسلح گارڈز، خاردار تاریں اور طلبہ کے اکٹھے ہونے پر پابندی عائد کردی گئی۔ یوں کہیں تو زیادہ مناسب ہوگا کہ طلبہ کے تمام بنیادی حقوق سلب کر کے ان کو قیدی بنا دیاگیا۔ مگر اس ساری سکیورٹی کا مقصد ہر گز طلبہ کی حفاظت نہ تھا اور نہ ہی ان غلیظ حکمرانوں سے اس کی توقع بھی کی جاسکتی ہے۔ اس کا مقصد طلبہ پر جبر میں اضافہ کرنا تھا تاکہ وہ اپنے حقوق کے دفاع اور ریاستی حملوں کے خلاف منظم نہ ہوسکیں۔ اگر سکیورٹی میں اضافے سے طلبہ کی حفاظت مقصود تھا تو آرمی پبلک سکول کے بعد باچا خان یونیورسٹی چارسدہ پر ہونے والا حملہ، پنجاب یونیورسٹی لاہور میں پشتون کلچر ڈے پر جمعیت کا حملہ، مردان یونیورسٹی میں مشال خان کا قتل اور آج کا یہ حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ سب سکیورٹی اقدامات محض ایک ڈھکوسلہ ہیں اور یہ بس طلبہ پر ہی ظلم وجبر کرسکتے ہیں۔ دہشت گرد وں کے خلاف یہ اقدامات مکمل طور پرناکام ثابت ہوئے ہیں۔ آرمی پبلک سکول کے واقعے کے بعدابھرنے والی نفرت اور غم وغصے سے ابھرنے والی تحریک کو زائل کرنے کے لئے تعلیمی اداروں کو ایک مہینے سے سے بھی زائد عرصے کے لیے بندکردیاگیا تاکہ طلبہ کے خودرو احتجاجوں کا رستہ روکا جا سکے۔ مگر اس سب کے باوجود اب پاکستان میں طلبہ تحریک کا راستہ روکا نہیں جا سکتا ۔
پشاور یونیورسٹی میں آج ہونے والے اس حملے کو جواز بناتے ہوئے پورے ملک کے طلبہ پر ظلم و جبر کی مزید انتہا کردی جائے گی ۔ اس حملے کے سب سے بھیانک اثرات طلبہ کو بھگتنے پڑیں گے جن کی زندگیاں حکمرانوں کی تعلیمی دہشت گردی نے پہلے ہی اجیرن بنا دی ہیں۔ پورے ملک میں طلبہ فیسوں میں ہونے والے ہوشربا اضافوں، ہاسٹلز کی کمی، ٹرانسپورٹ کے فقدان، غیر معیاری تعلیم اور جعلی ڈگریوں کے خلاف سراپا احتجا ج ہیں۔ ان مسائل کے خلاف پنپنے والی بے چینی اب سطح پر آکر اپنا اظہار کر رہی ہے۔ ایک طرف جہاں تعلیمی اداروں کو جیلوں میں تبدیل کردیاتھا تو اس کے ساتھ فیسوں میں کئی گنا اضافہ کیا گیا۔ سکولوں اور کالجوں کی بڑے پیمانے پر نجکاری کی گئی۔ ہاسٹلوں کے ڈربے نما کمروں میں کئی کئی طلبہ کو رہنے پر مجبو رکیاگیا۔ معیار تعلیم ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید گرتاگیا۔ پرائیویٹ یونیورسٹیوں اور کالجوں کو لوٹ مار کی کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ کئی کالج ریاستی اداروں کی سرپرستی میں غیر تصدیق شدہ جعلی ڈگریاں دے رہے ہیں۔ ہزاروں طلبہ اس فراڈ کا شکار بن چکے ہیں مگر کوئی ان تعلیمی دکانوں کو پوچھنے والا موجود نہیں۔ اربوں روپیہ ہڑپ کیا جاچکا ہے۔جو یہ انتہائی مہنگیڈگریاں حاصل کرچکے ہیں تو وہ نوکریوں کے لئے دربدر مارے مارے پھر رہے ہیں۔ حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 30فیصد سے زیادہ ہے۔ خود بورژوا اخبارات بار بار ان بیروزگار نوجوانوں کو ٹائم بم سے تشبیہ دے رہے ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔حالیہ عرصے میں طلبہ کے ہونے والے احتجاج اس شدید بے چینی کا واضح اظہار ہیں اور پاکستان میں کسی بھی وقت ملک گیرطلبہ تحریک پھوٹ سکتی ہے۔ایسے میں ریاست کے ان حملوں میں اضافہ ہوگا جس کا مقابلہ طلبہ کو خود اپنے زور بازو پر کرنا ہوگا۔ لینن کے مطابق نوجوان درخت کے پتوں کی مانند ہوتے ہیں۔ سماج میں کسی طوفان کی آمد کا انداز ہ لگانا ہو تو انہی پتوں کی حرکت دیکھ کر اندازہ لگایا جاتا ہے۔پاکستان میں طلبہ تحریک کا ابھار اور ریاست کا شدید خوف اور حملے کسی بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہیں۔
اس لیے طلبہ کو ان حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو منظم کرنا ہوگا۔ نہ صرف ریاست کی پالتو سیاسی پارٹیوں اور انتظامیہ کی پروردہ طلبہ تنظیموں کے حملوں کا بھرپور جواب دینا ہو گا بلکہ ان دہشت گردی کے حملوں کے لیے بھی خود کو تیار کرنا ہو گا۔اس دہشت گردی کا مقابلہ صرف اور صرف طلبہ اور محنت کش ہی کرسکتے ہیں۔ اس دہشت گردی کے خلاف طلبہ کو بڑے پیمانے پر متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔ میڈیا اس حملے کے بعد خوف و ہراس اور مایوسی پھیلانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے گا مگر اس سب کو رد کرکے بڑے پیمانے پر اس دہشت گردی اور اس کی پشت پناہی کرنے والی اس ریاست کے خلاف آواز بلند کرنا اس وقت سب سے اہم ہے۔ سکیورٹی کے نام پر ریاستی حملوں سے قبل ہی ان حملوں کا منہ توڑ جواب دینے کی ضرورت ہے۔ طلبہ کو اپنے اپنے کیمپسز میں اس دہشت گردی کے خلاف متحرک ہونے اور بڑے پیمانے پر احتجاج کر نے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ اسی عمل میں خود کو منظم کرنا ہوگا۔ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سیکیورٹی کی ذمہ داری طلبہ کو اپنے ہاتھ میں لینا ہوگی۔ اس کے لئے طلبہ یونین کی بحالی بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ طلبہ کی جمہوری طور پر منتخب رضاکارانہ کمیٹیاں ہی تعلیمی اداروں کو ان دہشت گردحملوں سے محفوظ بنا سکتی ہیں۔
ان مسائل کے خلاف کسی بھی پارٹی یا ریاستی ادارے سے مدد اور بہتری کی امید بھی نہیں کی جاسکتی۔ اس وقت تمام پارٹیاں اقتدار میں ہیں اور سب کی معاشی پالیسیاں بھی ایک جیسی ہیں۔ ہر پارٹی نجکاری کی حامی ہے اور کوئی پارٹی بھی محنت کشوں اور طلبہ کے مسائل پر بات بھی کرنے کو تیار نہیں۔ مہنگی تعلیم اور بیروزگاری کا خاتمہ ان میں سے کسی بھی ایجنڈا نہیں۔ ان کی سیاست سماج سے بالکل کٹ چکی ہے۔ یہ پارٹیاں کسی اور سیارے کی سیاست کررہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ طلبہ اور محنت کش بھی ان سے لاتعلق نظر آتے ہیں۔ پشاور یونیورسٹی کے اس حالیہ دھرنے کی ہی بات کریں تو جمعیت اور آئی ایس ایف کی مرکزی جماعتوں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی خیبر پختونخوا میں حکومت ہے اور پچھلے چار سال میں کئی ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی نجکاری کی گئی ہے۔ ان کی طلبہ تنظیمیں کس منہ سے اور کس کے خلاف احتجاج کررہی ہیں۔ سارے کا سار ڈرامہ ہے جس کو مکمل ریاستی اور میڈیا کی مدد حاصل ہے۔ ایسے میں طلبہ میں ایک متبادل قیادت اور تنظیم کی ایک شدیدطلب اور پیاس موجود ہے۔
ان سارے حملوں کا مقابلہ ایک انقلابی جدوجہد سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ ریاست کے خلاف ایک ناقابل مصالحت لڑائی کا آغاز کرنا ہوگا۔مگر یہ لڑائی درست نظریات اور پروگرام کے بغیر ہرگز نہیں لڑی جاسکتی۔ آج انسانیت کے پاس سوشلزم کے سوا کوئی راستہ نہیں کیونکہ دوسرا رستہ صرف اور صر ف بربریت کا ہے جس میں یہ حکمران طبقہ اس سماج کو دھکیلنے کی پوری کوشش کررہا ہے۔یہ مارکسزم کے نظریات ہی ہیں جس کی بنیاد پر سرمایہ داری کے اس بحران کا درست تجزیہ کیا جا سکتا ہے اور ایک درست پروگرام پر اس سماج کو بدلنے کی لڑائی لڑی جاسکتی ہے۔ یہ ریاست مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ معاشی بحران کے باعث تعلیم، صحت اور دیگر عوامی فلاح کے اداروں کی نجکاری کرنا اس ریاست کی مجبوری بن چکا ہے۔ اس کے بغیر اپنے منافعے برقراز نہیں رکھے جاسکتے۔ یہ حکمران نہ تعلیم دے سکتے ہیں نہ علاج اور نہ ہی روزگار دینے کی سکت رکھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے طلبہ ان حملوں کا جواب ان مسائل کے خلاف جدوجہد سے دیں۔
پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ اور نوجوانوں کی حقوق کی اسی لڑائی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسی حوالے سے پشاور میں 5دسمبر کو Fees Must Endکنونشن کا انعقاد کیا جارہا ہے تاکہ طلبہ حقوق کی لڑائی کو نہ صرف نظریاتی بنیادوں پر منظم کیا جا سکے بلکہ ملک کے دیگر تعلیمی اداروں کے ترقی پسند طلبہ کے ساتھ جوڑا جا سکے۔ایک ایسے وقت پر جب ہر طرف سے خوف اور مایوسی مسلط کی جائے گی اور بڑے بڑے نام نہاد انقلابی کمروں میں دبک کر بیٹھ جائیں گے وہاں پر طلبہ اس ظلم و بربریت کے خلاف جنگ کا طبل بجائیں گے۔ ان حکمرانوں کے حملوں کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے پروگریسو یوتھ الائنس تمام طلبہ کو اس کنونشن میں جوش و جذبے سے شرکت کی دعوت دیتا ہے۔