|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|
پروگریسو یوتھ الائنس(PYA) کے زیراہتمام عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالبعلم مشعل خان کے ریاستی پشت پناہی میں بہیمانہ قتل کے خلاف آج مورخہ 16اپریل 2017ء لاہور پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں واپڈا ہائڈرو یونین، پپلا سمیت انجینئرنگ یونیورسٹی، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، یونیورسٹی آف لاہور، رائل کالج اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلبہ نے شرکت کی۔ مظاہرین نے اس انسانیت سوز واقعے کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور ذمہ داران کو پھانسی دینے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ دہشت گردوں کی ریاستی پشت پناہی بند کی جائے۔
مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ اس درندگی میں یونیورسٹی میں موجود پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن، اسلامی جمعیت طلبہ اور تحریک انصاف کے کارکنان نے بھرپور حصہ لیا اور بے گناہ مشعل کے خون سے ہولی کھیلی۔ اس وقت پاکستان میں طلبہ تنظیموں پر پابندی عائد ہے لیکن ریاستی پشت پناہی کے باعث کچھ تنظیموں کو اس پابندی کے باوجود تعلیمی اداروں میں کام کرنے کی کھلی آزادی ہے جن میں اسلامی جمعیت طلبہ سر فہرست ہے۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور سمیت ملک کے مختلف تعلیمی اداروں میں بھی اس غنڈہ گرد تنظیم کو ریاستی پشت پناہی سے طلبہ میں دہشت پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ مشعل کا پولیس اور یونیورسٹی سکیورٹی کی موجودگی میں قتل اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان غنڈوں کو ریاستی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی انتظامیہ بھی اس بہیمانہ قتل میں برابر کی شریک ہے۔ مشعل خان کے قتل کے بعد ایک نوٹس جاری کیا گیا جس میں اس سمیت دو دیگر طلبہ، جن پر بھی بد ترین تشدد کیا گیا، پر توہین مذہب کا الزام لگا کر یونیورسٹی سے نکال دیا گیا اور الزام کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی نامز د کر دی گئی۔اس نوٹس میں تشدد کے واقعے اور اس میں ملوث افراد کے حوالے سے نہ تو کوئی ذکر کیا گیا اور نہ ان پر کسی قسم کا الزام عائد کیا گیا۔ یعنی وہ افراد جن کے بہیمانہ تشدد کی ویڈیوز لاکھوں موبائل فون میں گردش کر رہی ہیں ان پر الزام عائد کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اس سے واضح طور پر نظر آتا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ اس تمام تر کاروائی میں پوری طرح ملوث ہے اور اسے تمام ریاستی اداروں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔
مشعل خان یونیورسٹی انتظامیہ کے جبر و کرپشن اور طلبہ کے مسائل کے خلاف جدوجہد کررہاتھا۔ ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے واضح طور پر فیسوں میں اضافے اور یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف اپنے جدوجہد کا بتایا جس کے باعث وہ ایک خطرہ بن چکا تھا۔حکمران طبقے کے جبر کے خلاف جب بھی کوئی آواز بلند ہوتی ہے ‘ کوئی تحریک ابھرتی ہے اور طلبہ، مزدوروں یا کسانوں کا کوئی بھی حصہ احتجاج کے لیے باہر نکلتا ہے تو وحشی ملاؤں کو ان تحریکوں کو کچلنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پولیس، فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں کے جبر کے ساتھ ساتھ ملاؤں کی وحشت کو بھی ریاست اپنے خلاف ابھرنے والی ہر آواز کو دبانے کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔ مشعل خان کا قتل کوئی پہلا واقعہ نہیں اس پہلے درجنوں ایسے واقعات ہو چکے ہیں جس میں جھوٹے الزامات لگا کر اور افوہیں پھیلا کر ہجوم اکٹھا کیا جاتا ہے اور وہ شخص جس سے کسی جاگیردار، سرمایہ داریا ملا کی ذاتی دشمنی ہوتی ہے یا وہ ریاستی اداروں کے لیے خطرہ بن رہا ہوتا ہے اس کا بہیمانہ قتل کر دیا جاتا ہے۔
ایسے میں اس ملک کے طلبہ کے پاس زندگی گزارنے کا صرف ایک ہی راستہ بچا ہے اور وہ اس سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی محافظ ریاست کیخلاف ناقابل مصالحت جدوجہد کا ہے۔ مظاہرین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ نجکاری، فیسوں میں اضافے، روزگار اور طلبہ یونین کی بحالی کے لئے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ مشعل کا خون ہم سب پر قرض ہے اور اس انسان دشمن سرمایہ دارانہ نظام کو ایک سوشلسٹ انقلاب سے اکھاڑ پھینک کر ہی مشعل کے خون کا بدلہ لیا جاسکتا ہے۔