|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بلوچستان|
19 جنوری بروز بدھ کو پروگریسو یوتھ الائنس بلوچستان کی جانب سے ”مارکسزم اور قومی سوال“ کے عنوان پر لورالائی میں شاندار سٹڈی سرکل کا انعقادکیا گیا۔
سٹڈی سرکل میں مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں اور محنت کشوں کے ساتھ ساتھ کافی تعداد میں طالب علموں نے شرکت کی۔ سٹڈی سرکل کا آغاز پی وائی اے کے سرگرم کارکن عمر پشتون نے موضوع کا تعارف سے کیا اور چیئرکے فرائض سرانجام دیے۔ کریم پرھار نے موضوع پر تفصیلی نظر ڈالی اور اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے شدید سردی میں شرکت کرنے والے تمام دوستوں کا شکریہ ادا کیا۔ کریم نے انسانی سماج کی تاریخ اور ارتقائی عمل پر روشنی ڈالی کہ انسانی سماج کوئی جامد اور ساکن شے نہیں ہے اور نہ ہی انسانی تاریخ کسی ایک سیدھی لکیر میں اپنا سفر طے کرتی ہے، بلکہ اس میں عہد بہ عہد مقداری اور معیاری تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہا آج دنیا میں جتنی بھی قومیں آباد ہیں اور جو قومی ریاستیں وجود رکھتی ہیں وہ کوئی ازلی اور ابدی نہیں ہیں۔ بلکہ انکی تاریخ صرف دو سو سال سے ہے۔ جب سرمایہ داری نے ایک قومی منڈی اور قومی معیشت کے تصور کو پروان چڑھایا تو اسکے ساتھ ہی جدید قومی ریاست کا وجود ابھر کر سامنے آیا۔ کریم پرھار نے مزیدبتایا کہ مارکسزم قومی سوال کو ہمیشہ طبقاتی نقطہ نظر اور عالمی محنت کش طبقے کی جڑت کے تابع کرتے ہوئے لازمی معروضی عوامل کی بنیاد پر قوموں کی حق خودارادیت،بشمول حق آزادی کی حمایت کرتا ہے۔ قومی سوال چونکہ بلکل ایک جمہوری سوال ہے اور مارکسزم کا نظریہ انٹرنیشنلزم کا نظریہ ہے اور اسکا مقصد عالمی سوشلسٹ سماج کا قیام ہے۔ مارکسزم تمام مسائل کو سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی حل کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ اسی طرح مارکسزم دیگر جمہوری سوالوں کے ساتھ ساتھ قومی مسئلے کو بھی عالمی محنت کش طبقے کی کامیابی اور جڑت کے ماتحت رکھتا ہے۔ مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی نے ہمیشہ قومی سوال کو ترجیح دیتے ہوئے اسے محنت کش طبقے کی سیاسی اور اقتصادی آزادی سے جوڑتے ہوئے اسے عالمی سوشلسٹ انقلاب کے ماتحت ہی رکھا۔ برصغیر پر بات رکھتے ہوئے کریم نے بتایا کہ برصغیر میں قومی جزبہ اور قوم کی بنیاد پر اپنے آپ کو ایک ہندوستانی تصور کرنا انگریز سامراج کی سامراجی تسلط کے بعد ہی سامنا آیا، اس سے پہلے کسی بھی قسم کی قوم یا قومیت کی بنیاد پر لوگ خود کو نہیں جانتے تھے۔ بلکہ یہاں چھوٹی چھوٹی ریاستیں و رجواڑے ہوا کرتی تھیں اور کسی قبیلے یا علاقے کا سرپنچ انکا سرپرست ہواکرتا تھا۔ اس خطے کی منفرد معاشی اور سماجی بناوٹ کی بنیاد پر مارکس نے یہاں کے نظام کو”ایشیاٹک موڈ آف پروڈکشن“ کا نام دیا تھا۔
کریم پرھار نے ہندوستان پر بات کرتے ہوئے کہا کہ برصغیر میں لوگوں کو ہندوستانی قوم ہونے کی بنیاد پر متحد کرنے میں انگریز سامراج کی یہاں سرمایہ داری کے نتیجے میں ریل کی پٹڑی، بجلی کی تاروں اور دیگر ذرائع آمد و رفت اور پوسٹ کے نتیجے میں یہاں ایک علاقے کے لوگ دوسرے علاقوں سے تعلق میں آتے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ ان میں انگریز سامراج کے ہاتھوں اپنے استحصال کا شعور بھی اجاگر ہوا اور انگریز سامراج نے یہاں پر اپنی حکمرانی جاری رکھنے اور زیادہ آسانی سے استحصال کرنے کے لئے یہاں کے لوگوں کو مزہب اور دیگر قومی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کرتے ہوئے یہاں کے عوام تاریخی سامراجی جبر کے مرتکب ہوئے۔ اس سے پہلے برصغیر میں کسی قسم کی لسانی، مذہبی اور قومی تفریق وجود نہیں رکھتی تھی اور 1864ء میں پہلی دفعہ یہاں پر مذہب کا خانہ بھی انگریز سامراج نے ہی متعارف کروایا۔
مزید اپنی بات رکھتے ہوئے کریم پرھار نے روس میں قومی سوال کے اوپر بات کرتے ہوئے کہا کہ انقلابِ روس سے قبل روس کو مظلوم قومیتوں کا جیل خانہ کہا جاتا تھا لیکن انقلاب کے بعد وہاں پر بالشویک پارٹی نے تمام مظلوم قومیتوں کے حق خودارادیت بشمول حق آزادی کو تسلیم کیا۔ ان کو سویت یونین اور ایک آزاد حیثیت سے رہنے کی آزادی دی جہاں اکثریتی قوموں نے سویت یونین کے ساتھ اتحاد میں رہنے کو ہی ترجیح دی۔کریم نے بتایا کہ آج بھی سرمایہ داری کے زوال کے ساتھ قومی سوال ختم نہیں بلکہ مزید تیز ہونے کی طرف جا رہا ہے۔ جہاں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی (آئرلینڈ، سپین میں کٹلونیا) قومی تحریکیں وقتاً فوقتاً اپنا سر اٹھاتی دیکھائی دے رہی ہیں، وہی تیسری دنیا اور پسماندہ ممالک میں قومی سوال نسبتاً مزید بگڑی ہوئی شکل میں موجود ہے۔ پاکستان میں جہاں محنت کش عوام معاشی غربت اور بے روزگاری کا شکار ہیں وہاں مظلوم قومیتوں کے محنت کش معاشی جبر کے ساتھ ساتھ قومی، مذہبی اور لسانی جبر کا بھی شکار ہیں۔ ان تمام مسائل کا حل اور چھٹکارا محنت کش طبقے اور مظلوم قومیتوں کی جڑت سے ہی ممکن ہے۔
سٹڈی سرکل کو آگے بڑھاتے ہوئے عمر پشتون نے سوالات کا سلسلہ شروع کیا اور دوستوں کی جانب سے کافی سوال بھی ہوئے۔
کریم پرھار کی تفصیلی گفتگو کے بعد پی وائی اے بلوچستان کے مرکزی آرگنائزر فیصل نے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ قومی سوال کو طبقاتی جدوجہد کے ذریعے ہی حال کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے فیصل نے مارکس اور اینگلز کی کئی مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا کہ جہاں آئرلینڈ کی آزادی پر مارکس نے آئرلینڈ کی حق آزادی کو تسلیم کیا۔ وہی مارکس آئرلینڈ اور انگلینڈ کے محنت کش طبقے کی طبقاتی جڑت سے سوشلسٹ حل کی حمایت کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مارکس اور اینگلز کے بعد لینن نے انتہائی سنجیدگی سے قومی سوال کو ترجیح دی ہے اور لینن یہ واضح موقف اختیار کرتا ہے کہ مارکسزم قومی سوال کو تسلیم کرتے ہوئے قوموں کی حق خودارادیت اور حق آزادی کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور عملی طور پر جدوجہد کی بھی حمایت کرتا ہے، لیکن دوسری طرف لینن قوم پرستی کے ناصرف خلاف تھا بلکہ وہ قوم پرستی کا دشمن تھا اور قوم پرستی کو ایک زہر کے طور پر سمجھتا تھا جو تمام قوموں کے محنت کشوں کو قومیت کی بنیاد پر تقسیم کرتا ہے۔ فیصل نے مزید یہ کہا کہ مارکس وادی قومی سوال کو ہمیشہ عالمی سوشلسٹ انقلاب کی بڑھوتری اور محنت کش طبقے کی جڑت کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں اور اگر کوئی مارکس وادیوں سے قوم پرستی کے کسی مخصوص طریقہ کار پر لڑنے اور حمایت کی اپیل کرتے ہیں تو یہ واضح ہے کہ مارکسزم اور قوم پرستی دو الگ بلکہ متضاد نظریات ہیں۔ جن میں کھبی مصلحت نہیں ہو سکتی۔ مارکس وادی بجائے اس کے کہ کسی گروہ کے مزاج اور مرضی کے مطابق مظلوم قوموں کی لڑائی لڑے وہ اپنے طریقہ کار اور مارکسی نظریات کی بنیاد پر انکی آزادی کی لڑائی لڑتے ہیں۔
سٹڈی سرکل کے اختتام پر کریم نے موجود دوستوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ مارکسزم قوموں پر ہر قسم کے قومی، مذہبی اور لسانی جبر کی مخالفت کرتا ہے اور انہیں یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی مادری زبان میں تعلیمی اور سماجی امور سرانجام دیں۔ دنیا بھر سمیت پاکستان میں قومی مسئلے کا حل موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں ممکن نہیں ہے اور سرمایہ دارانہ نظام آج خودناگزیر معاشی زوال کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔ آج کے تمام تر مسائل کی بنیاد ہی نجی ملکیت اور قومی ریاستوں کی تنگ حدود میں پیوست ہیں۔ لہذا مظلوم قومیتوں کا اپنے قومی جبر سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا واحد راستہ ملک میں موجود تمام قوموں اور محنت کشوں سے اتحاد میں آتے ہوئے ایک سوشلسٹ فیڈریشن میں ہی ممکن ہے۔
تمام شرکاء نے پی وائی اے کی انتک انقلابی جدوجہد کو سراہا اور آئندہ تمام سٹڈی سرکلز میں شرکت یقینی بنانے کا عزم کیا۔