پروگریسو یوتھ الائنس کا یوتھ کنونشن 2015ء، طلبہ سیاست کے نئے عہد کا آغاز

| رپورٹ: مرکزی بیورو PYA |

پروگریسو یوتھ الائنس (PYA) کے مرکزی یوتھ کنونشن کا انعقاد ہفتہ 5 دسمبر 2015ء کو باغ جناح اوپن ایئر تھیٹر لاہور میں دن 11 بجے ہوا جس میں ملک بھر سے ترقی پسند طلبہ تنظیموں، علاقائی کونسلز اور مختلف تعلیمی اداروں سے وابستہ پندرہ سو سے زائد نوجوانوں نے شرکت کی۔
PYA National Youth Convention 2015 (3)اس کنونشن کو سوشلسٹ انقلاب کے عظیم شہید چی گویرا کی جدوجہد کے نام کیا گیا تھا۔ اس موقع پر بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (پجار) اور جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (JKNSF) کی قیادت کی طرف سے باقاعدہ طور پر PYA میں شمولیت کا اعلان کیا گیا۔ پنڈال کو سرخ جھنڈوں اور درجنوں بینزر سے سجایا گیا تھا جن پر تعلیم کے بجٹ میں دس گنا اضافے، ہر شہری کو روزگار کی ضمانت، جنسی برابری، طلبہ یونین کی بحالی اور محکوم قومیتوں کے استحصال کی مذمت میں نعرے درج تھے۔ طلبہ کے علاوہ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) میں منظم نوجوان محنت کشوں کی بڑی تعداد نے بھی کنونشن میں شرکت کی۔ سوات، پشاور، مالاکنڈ، راولاکوٹ، مظفر آباد، راولپنڈی، اسلام آباد، فیصل آباد، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، ملتان، بہاولپور، ڈیرہ غازی خان، حیدرآباد، سکھر، دادو اور کراچی سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں سے نوجوانوں کے قافلے طویل سفر طے کر کے کنونشن میں شریک ہوئے۔ اس کے علاوہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فارمن کرسچن کالج، پنجاب یونیورسٹی، یونیورسٹی آف لاہور، یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب اور یو ایم ٹی سمیت لاہور کے بڑے تعلیمی اداروں کے سینکڑوں طلبا و طالبات پنڈال میں موجود تھے۔
PYA National Youth Convention 2015 (6)سٹیج سیکرٹری کے فرائض PYA لاہور کی سرگرم کارکن یاسمین زہرہ نے ادا کئے۔ کنونشن کا باقاعدہ آغاز مرکزی آرگنائزر عمران کامیانہ کی تعارفی تقریر سے ہوا جس میں انہوں نے طلبہ یونین پر پابندی، تعلیم کی کمرشلائزیشن اور فیسوں میں اضافے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں تعلیم کا بجٹ پہلے ہی دنیا میں کم ترین ہے جسے مزید کم کیا جارہا ہے، سارا پیسہ نام نہاد میگا پراجیکٹس پر لٹایا جا رہا ہے، تعلیمی اداروں کی نجکاری کی جارہی ہے جس سے غریبوں کے بچے تعلیم کے حصول سے یکسر محروم ہو جائیں گے، بیروزگاری انتہاؤں کو چھو رہی ہے اور ہر سال 20 لاکھ نوجوان محنت کی منڈی میں داخل ہو رہے ہیں جن کے لئے کوئی نوکریاں نہیں ہیں، ترقی پسند رجحانات ریاستی جبر سے دو چار ہیں جبکہ جمعیت جیسے فاشسٹ گروہ ریاستی سرپرستی میں تعلیمی اداروں پر مسلط ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان بگڑتے ہوئے معاشی اور سماجی حالات میں طلبہ کو انقلابی نظریات پر منظم اور متحرک ہو کر اپنے حقوق چھیننے ہوں گے اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کرنا ہو گی جو اس ذلت اور محرومی کی بنیادی وجہ ہے۔ تعارفی تقریر کے بعد یاسمین زہرہ نے پوری دنیا سے موصول ہونے والے اظہار یکجہتی کے پیغامات پڑھ کر سنائے۔ اس کنونشن کے تناظر میں برطانیہ اور امریکہ سے مارکسسٹ سٹوڈنٹس فیڈریشن، یونان سے Youth Against Capitalism، ڈنمارک سے Revolutionary Socialists، ہندوستان سے ’آل انڈیا سٹوڈنٹس ایسوسی‘ (AISA) اور ہالینڈ، سویڈن، آسٹریا، بیلجیئم، اٹلی، میکسکو اور انڈونیشیا سے بائیں بازو کی مختلف تنظیموں نے PYA سے یکجہتی کے پیغامات ارسال کئے تھے۔

اپنی تقاریر میں بلوچستان سے میر ظریف رند (مرکزی آرگنائزر بی ایس او پجار)، کشمیر سے بشارت علی (صدر JKNSF)، پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن (کوئٹہ) کے ولی خان، YFIS ڈیر غازی خان کے شہریار ذوق، پیپلز سٹونٹس فیڈریشن (ملتان) کے نادر گوپانگ، بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان کی طالبہ ماہ بلوص اسد، بیروزگار نوجوان تحریک (دادو) کے رمیز مصرانی، سندھ یونیورسٹی سے ونود کمار، گلگت بلتستان کونسل پنجاب یونیورسٹی کے ہدایت، پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ فائقہ، ویخ زلمیان پختونخواہ کے رہنما سنگین باچا، انقلابی کونسل زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے رہنما عمر رشید، پنجاب کالج کے طالب علم اور PYA بہاولپور کے آرگنائزر فضیل اصغر اور PYA لاہور سے زین العابدین نے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے تعلیم کی نجکاری، ریاستی جبر، محکوم قومیتوں کے استحصال، جنسی تفریق، اسلامی بنیاد پرستی اور طلبہ یونین پر پابندی کی شدید مذمت کرتے ہوئے پروگریسو یوتھ الائنس (PYA) کے مطالبات سے مکمل اتفاق کیا۔ مقررین نے تمام ترقی پسند طلبہ تنظیموں اور رجحانات کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آج سیاست پر حاوی تمام پارٹیوں کا پروگرام سرمایہ داری اور سامراج کی کاسہ لیسی پر مبنی ہے، نوجوانوں کے سلگتے ہوئے مسائل پر اس سیاست میں بات کرنے کو بھی کوئی تیار نہیں ہے، ایسے میں نوجوانوں کو خود آگے بڑھنا ہو گا اور ماضی میں بائیں بازو کی طلبہ سیاست کی درخشاں روایات کو پھر سے زندہ کرنا ہوگا کیونکہ جدوجہد کے سوا حقوق کے حصول کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ طلبہ قیادت اور نوجوانوں نے اس موقع پر عہد کیا کہ PYA کے پلیٹ فارم پر متحد ہو کر پورے ملک میں تعلیم کے بجٹ میں 10 گنا اضافے، طلبہ یونین کی بحالی، مفت تعلیم کی فراہمی، خواتین کے لئے ہر سطح پر مساوی حقوق، محکوم قومیتوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی اور روزگار یا بیروزگاری الاؤنس کے لئے مہم چلائی جائے گی، مرے کالج سیالکوٹ اور گورڈن کالج سمیت کسی تعلیمی ادارے کی نجکاری کسی صورت نہیں ہونے دی جائے گی۔
PYA National Youth Convention 2015 Oath taking ceremonyکنونشن کے آخر میں PYA کی مرکزی قیادت کی سلیٹ پیش کی گئی جس میں فرحان گوہر (چیئرمین)، بشارت علی خان (وائس چیئرمین)، عمران کامیانہ (مرکزی آرگنائزر)، میر ظریف رند (جنرل سیکرٹری)، سنگین باچا (جوائنٹ سیکرٹری)، ونود کمار (انفارمیشن سیکرٹری)، ماہ بلوص اسد (فنانس سیکرٹری)، ولی خان (سیکرٹری پولیٹیکل ایجوکیشن)، نادر گوپانگ (سیکرٹری پبلی کیشنز) اور شاہ جہاں سالف(سیکرٹری کلچر اینڈ آرٹ) شامل ہیں۔ منتخب عہدیداران سے JKNSF کے سابق صدر اور PYA مظفر آباد کے موجودہ آرگنائزر راشد شیخ نے پروگریسو یوتھ الائنس کے سوشلسٹ پروگرام کی تکمیل اور تنظیم کی تعمیر کے لئے سرگرم عمل رہنے کا حلف لیا۔

نومنتخب چیئرمین فرحان گوہر نے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس کنونشن سے طلبہ سیاست کا نیا باب شروع ہوا ہے، PYA کو ملک کے طول و ارض میں، ہر تعلیمی ادارے میں منظم کیا جائے گا، ہمارے مسائل سانجھے ہیں اور ان مسائل کے خلاف جدوجہد بھی طبقاتی یکجہتی کی بنیاد پر ہی ہو سکتی ہے، اسی جدوجہد کا پیغام PYA کے ذریعے ہر نوجوان تک پہنچایا جائے گا اور ملک گیر مہم کے ذریعے اس نظام کی ذلت، جبر اور استحصال کے خلاف انقلابی تحریک برپا کی جائے گی۔ کنونشن کا باقاعدہ اختتام تمام شرکا نے محنت کشوں کا عالمی ترانہ Internationale گا کر کیا۔

PYA National Youth Convention 2015 (26)کنونشن شام 5 بجے تک جاری رہا ہے۔ اس دوران پر جوش تقاریر اور فلک شگاف انقلابی نعروں سے پنڈال گونجتا رہا۔ لیکن اس کنونشن کا سب سے نمایاں اور خوبصورت پہلو اس کا بلند ترین ثقافتی معیار تھا۔ ایسے ماحول میں جب رائج الوقت میڈیا اور حاوی دانش سماج میں مذہبی جنونیت اور فرقہ وارانہ تعصبات کے پروان چڑھنے کا عندیہ دے رہے ہیں اور اس زوال پذیر نظام کے ہاتھوں انسانی تہذیب ہی جان بلب ہوئے جا رہی ہے، فن اور ادب شدید گراوٹ کا شکار ہیں، وہیں اس کنونشن میں بلند معیار کی موسیقی اور رقص کا مظاہرہ قابلِ ستائش تھا۔ موسیقی کے اٹھارہ آلات پر دسترس رکھنے والے نیاز ہنزئی نے علاقائی دھنیں بجائیں تو نوجوان والہانہ رقص کرنے لگے۔ ڈاکٹر عمر فضلی نے ’’آزادی‘‘ کے عنوان سے لکھا ہوا اپنا گیت اور جان لینن کا مشہور زمانہ گیت Imagine پیش کیا۔ اس کے علاوہ کلاسیکی گائیک ناصر خان نے بڑی خوبصورتی سے فیض احمد فیض کی انقلابی شاعری کو موسیقی میں ڈھال کر خوب داد وصول کی۔ غرضیکہ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ کنونشن نوجوانوں کے لیے محض سیاسی خلا کو ہی پر کرنے کی ایک کوشش نہیں تھی بلکہ انسانی جمالیات کا بہترین نمونہ بھی تھا اور ساتھ ہی اس بات کا اعلان بھی کہ یہ نسل بنیاد پرستی کی دھونس اور غنڈہ گردی سے شکست خوردہ ہونے کی بجائے مزاحمت کرتے ہوئے ایک حقیقی انسانی معاشرے کی تشکیل کر کے ہی دم لے گی۔ سچے جذبوں کی قسم جیت ہماری ہو گی!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.