|رپورٹ: ناصرہ وائیں|
گوجرانوالہ میں28جولائی2017ء کو پی وائے اے کے زیر اہتمام ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا۔ سکول میں مجموعی طور پر دو سیشنز تھے؛ ’’داس کیپیٹل کے 150سال‘‘ اور ’’انقلابِ روس‘‘۔
سکول کا پہلا سیشن ’’داس کیپیٹل کے ڈیڑھ سو سال‘‘ پر تھا جس کو چیئر کامریڈ سلمیٰ نے کیا اور اس موضوع پر صبغت وائیں نے لیڈآف دی۔ انہوں نے لیڈ آف کے آغاز میں داس کیپیٹل کا تعارف کروایا جو مارکس نے آج سے ڈیڑھ سو سال قبل لکھی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے مارکس کے میتھڈ پر مختصر اور جامع بات کی۔ انہوں نے ان حالات کا پس منظر بھی بتایا جن کا کارل مارکس کو سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے اس عہد کے برطانیہ عظمیٰ کے معاشی نظام کا بھی جائزہ لیا۔ اور سرمایہ داری کے ارتقائی عمل کا بھی۔ انہوں نے بتایا کہ فرانسز وین نے مارکس کو ’’شاعرِ جدلیات‘‘ کا نام دیا ہے اور وہ اپنی اس تصنیف میں مارکس کو انیسویں صدی کے اذیت زدہ جنات میں سے ایک قرار دیتا ہے، جیسے کہ بیتھوون، گویا، ٹالسٹائی اور دوستووسکی وغیرہ۔ مارکس سرمایہ میں بتاتا ہے کہ کس طرح امیر، امیر سے امیر تر اور غریب، غریب سے غریب تر ہوتے جاتے ہیں۔ مارکس نے سرمایہ دارانہ نظام میں موجود حقیقی مگر پوشیدہ استحصال کو واضح کیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ مارکس کی اس تحریر کے بعد عالمی سطح پر لاتعداد تبدیلیاں آئیں، سرمایہ داری براہ راست نو آبادکارانہ استعماریت سے بالواسطہ استعماریت کی طرف گئی، مالیاتی سرمائے کا کردار بڑھا، اور دنیا کا نقشہ یکسر تبدیل ہو کر رہ گیا لیکن اس کے باوجود مارکس کی تصنیف آج بھی اتنی ہی درست ہے جتنی وہ لکھے جانے کے وقت تھی۔
لیڈ آف کے بعد سوالات کا سیشن ہوا اور اس کے بعد کنٹریبیوشنز آئے۔ ناصرہ وائیں نے بات کو آگے بڑھایا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اب داس کیپٹل کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اگر عالمی تناظر میں سیاست و معیشت کو مد نظر رکھا جائے تو حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ساری دنیا میں لوگ سرمایہ داری کے جبرو استحصال سے نجات کیلئے سوشلزم سے امیدیں وابستہ کئے ہیں اور امریکہ میں برنی سینڈر اور برطانیہ میں جیرمی کوربن کا مظہر اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ ساری دنیا کے لوگ اپنے مسائل کے حل کیلئے سوشلزم پر نظر یں جمائے بیٹھے ہیں اور دن بدن اس کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اور داس کیپیٹل کا اسلوب ذرا مشکل ضرور ہے لیکن وہ اتنی ہی محنت اور عرق ریزی کا متقاضی ہے جتنی کسی بھی علم کو حاصل کرنے میں درکار ہوتی ہے۔ اس کے بعدمشعل وائیں، سلمیٰ، عمران ہاشمی اور راشد خالد نے بات کو آگے بڑھایا۔ جس کے بعد صبغت وائیں نے سوالات کے جواب دیتے ہوئے بحث کو سمیٹا۔
دوسرا سیشن ’’انقلابِ روس‘‘ پر تھا جسے چیئر ابن ثنا نے کیا اور اس موضوع پر لیڈ آف کامریڈ سلمیٰ نے دی۔ انہوں نے لیڈ آف میں ’’انقلاب روس‘‘ پر جامع انداز میں بات چیت کی۔ روس میں زار شاہی کے خلاف مختلف بغاوتوں اور جدوجہدوں کا ذکر کیا۔ مارکسزم کے نظریات کے روس تک پہنچنے اور پرورش پانے پر تفصیل سے بات کی۔ انہوں نے روس میں RSDLPکے قیام اور اس کے ساتھ ساتھ مارکسزم کے نظریات کے ارتقا پر بھی بات رکھی۔ لیڈ آف کے بعد سوالات ہوئے۔ جس کے بعد مختلف کامریڈز نے کنٹریبیوشنز کئے۔ ولید خان نے انقلاب روس کے اثرات پر بات کی کہ کس طرح سویت روس نے ترقی کی اور چند سالوں میں ہی عالمی سطح پر ایک بڑی طاقت کے بطور ابھرا۔ انہوں نے اسٹالنزم کے جرائم کا بھی ذکر کیا جس کی وجہ سے دنیا کے بیشتر انقلابات کامیاب نہیں ہو سکے۔ راشد خالد نے انقلاب کی تاریخ پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ روس میں انقلابیوں کو کن کٹھن مراحل سے گزرنا پڑا۔ روس میں مارکسی لٹریچر پر پابندی تھی جس کی بدولت زیر زمین رہ کر لٹریچر شائع کرنا پڑتا یا بیرون ملک سے غیر قانونی طور پر لٹریچر کا درآمد کیا جاتا۔ انہوں نے بتایا کہ انقلاب کوئی ایک رات کا کھیل نہیں تھا بلکہ اس کے لئے لاکھوں لوگوں نے کئی دہائیوں تک جدوجہد کی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ روسی انقلاب کی قیادت نے محض روس میں انقلاب ہی نہیں کیا بلکہ پوری دنیا کے محنت کشوں کے لئے جدوجہد کی ایک مثال قائم کر دی۔ انہوں نے بتایا کہ اس انقلاب کی قیادت کے پاس پہلے کا کوئی کامیاب تجربہ نہیں تھا لیکن آج ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے سامنے بالشویک انقلاب کی صورت میں محنت کشوں کے انقلاب کا ایک کامیاب تجربہ اور مارکسی قائدین کی بیش بہا تصانیف موجود ہیں جو پاکستان اور عالمی سطح پر ایک مارکسی قیادت کو تراشنے میں انتہائی مددگار ہیں۔