|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بہاولپور|
پروگریسو یوتھ الائنس کے زیراہتمام 17 جون بروز ہفتہ بہاولپور میں ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا۔ سکول مجموعی طور پر دو سیشنز پر مشتمل تھا۔ پہلے سیشن کا موضوع ’’مارکسزم کیا ہے؟‘‘ تھا۔ اس سیشن کو راول اسد نے چئیر کیا اور لیڈآف آصف لاشاری نے دی۔ موضوع پر بات کرتے ہوئے آصف لاشاری نے کہا کہ دو دہائیوں پر مشتمل مارکسزم کو مردہ قرار دینے کا بورژوا پروپیگنڈہ اپنی موت آپ مر چکا ہے اوراب بورژوازی کے سنجیدہ ماہرین مارکس کو درست قرار دے رہے ہیں۔ دنیا بھر میں مارکسزم کے نظریات کی پیاس میں اضافہ ہوا اور بہت بڑی تعداد میں نوجوان مارکسی نظریات کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ کارل مارکس کی وفات کے 130 سال بعدمارکس بھوت بن کر سرمایہ داری پر منڈلا رہا ہے۔ طبقاتی جدوجہد کے خاتمے کے نعرے لگانے والے اب پوری دنیا میں محنت کش طبقے کا تحرک دیکھ کر منہ چھپانے پر مجبور ہیں۔
آصف نے کہا کہ مارکسزم کوتین بنیادی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جو کہ جدلیاتی انداز میں باہم مربوط ہیں جو مارکسی معیشت، جدلیاتی مادیت اور تاریخی مادیت ہیں۔ مارکسی معیشت درا صل مارکسی فلسفے جدلیاتی مادیت کا معیشت پر اطلاق ہے۔ مارکس نے اپنی کتاب داس کیپیٹل میں جدلیاتی فلسفے کا اطلاق کرتے ہوئے سرمایہ داری کا تجزیہ کیا اور سرمایہ داری کے طریقہ کار، اس میں چھپے محنت کے استحصال، نظریۂ قدر میں محنت کے کردار اور سرمایہ دارانہ نظام کے خمیر میں موجود تضادات کو واضح کیا۔ مارکس نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں سرمایہ داری کے ارتقاء، دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکازاور غربت اور امارت کے مابین خلیج، قدر زائد اور زائد پیداوار کے بحران کی جو پیش گوئی کی تھی وہ آج حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی ہے۔ مارکسزم کا دوسرا اہم جزو اس کا فلسفہ جدلیاتی مادیت ہے۔ آصف نے دو فلسفیانہ کیمپوں، عینیت پرستی اور مادیت پسندی کا مختصر تعارف پیش کیا اور رسمی منطق اور جدلیاتی منطق کے مابین فرق کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ رسمی منطق محدود پیمانے کے مظاہر کے لیے تو قابل استعمال ہے مگر فطرت، انسانی معاشرے و سوچ میں موجود پیچیدہ مظاہر کا درست تجزیہ کرنے سے قاصرہے کیونکہ یہ چیزوں کو ساکت و جامدحالت اور باہمی ربط کے بغیر دیکھتی ہے۔ یہ مظاہر کو ان کی حرکت میں نہیں بلکہ کاٹ کر جامد حالت میں دیکھتی ہے اس لیے محدود ہے جب کہ جدلیاتی منطق چیزوں کو ان کی حرکت اور تعلق میں دیکھنا سکھاتی ہے۔ جدلیات کو ہیگل نے پہلی دفعہ جامع اور مربوط انداز میں پیش کیا مگر چونکہ ہیگل عینیت پرست تھا اس لیے ہمیں وہاں جدلیات اپنی پراسرار شکل یا خیال کی حرکت کی صورت میں دکھائی دیتی ہے۔ مارکس نے جدلیات کو مادی انداز میں اس کی اصل شکل میں بحال کیا اور جدلیاتی مادیت کا فلسفہ اخذ کیا۔ جدلیاتی مادیت کے اصول مارکس کی ذہنی اختراع نہیں تھے بلکہ مارکس اور اینگلز نے انہیں فطرت و انسانی سماج کے اندر سے اخذ کیا۔ اس کے بعد آصف نے جدلیاتی مادیت کے اصولوں، مقدار کی معیاری میں تبدیلی، ضدین کے اتفاق و انضمام اور نفی کی نفی کو مختصر انداز میں بیان کیا۔ اس کے بعد آصف نے تاریخی مادیت پر روشنی ڈالی۔
آصف کا کہنا تھا کہ تاریخ کے حوالے سے مابعدالطبیعاتی نظریے ہمیں ہر جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں کچھ نظریات تاریخ کو اندھا دھند تاریخی قوتوں کا حامل کہتے اور انسان کو محض کٹھ پتلی سمجھتے ہیں اور تاریخ میں انسان کے کردار کی مکمل نفی کرتے ہیں اور کچھ نظریات ایسے ہیں جو انسانوں کو مکمل خود مختار اور معروضی عوامل کو نظر انداز کرتے ہیں۔ مارکس اور اینگلز نے تاریخ کے ان تمام تصورات کو رد کیا اور تاریخ کا مادی تصور پیش کیا۔ مارکس اور اینگلز نے پہلی دفعہ دکھایا کہ تاریخ صرف بادشاہوں اور بڑے بڑے ناموں اور حاکموں کے قصے کہانیوں کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں عام محنت کرنے والے انسانوں کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ محنت کرنے والے طبقات ذرائع پیداوار کو ترقی دیتے ہوئے انسانیت کو آگے کی طرف لانے کی طرف اہم کردارادا کرتے رہے ہیں۔ مارکس اور اینگلز نے تاریخ میں انسان کے کردار کو مانتے ہوئے اور معروضی عوامل کی درست نشاندہی کرتے ہوئے تاریخ کا درست مادی تصور دیا۔ انسانی تاریخ کو قدیم کمیونزم، غلام داری، جاگیرداری اور سرمایہ دارانہ سماجوں میں تقسیم کیاجاتا ہے۔ قدیم کمیونزم میں انسان لاکھوں سال تک ایک غیر طبقاتی معاشرے میں رہا ہے۔ ایسا اس وقت کے انسانوں کے اخلاق برتری کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی وجوہات اس وقت کے ذرائع پیداور کی سطح اور اس سے برآمد ہونے والے پیداواری رشتے تھے۔
اس کے بعد آصف نے قدیم کمیونزم سے غلام داری کے جنم اور طبقات کے پیدا ہونے پر بات کی اور اس میں ذرائع پیداوار کی ترقی کے کردار، اوزار پیداوار کے کردار اور دوسرے مادی عوامل پر بات کی۔ آصف کا کہنا تھا کہ تاریخی مادیت ہمیں تاریخ کو اس کے تسلسل اور ایک نظام کے اندر سے دوسرے نظام کے پیدا ہونے کو اس کے درست ربط کے اندر اور اس میں موجود عوامل کو دیکھنا سکھاتی ہے۔ تاریخ مادیت ہمیں بتاتی ہے کہ کوئی بھی سماجی نظام ازلی اور ابدی نہیں بلکہ انسانی تاریخ میں انسان مختلف سماجوں میں رہا ہے جب تک کوئی نظام ذرائع پیداوار کو ترقی دینے کا اہل ہوتاہے تو ہمیں سماج عمومی طور پر ترقی میں نظرآتا ہے مگر جب کوئی نظام ذرائع پیداوار کو مزید ترقی دینے کا اہل نہیں رہتا تواسے اکھاڑ پھینک کر اور اس کی جگہ نیا نظام لا کر ہی انسان تاریخ کو آگے بڑھاتا آیا ہے۔ آج سرمایہ دار ی اپنی تاریخی عمرپوری کر چکی ہے اور ذرائع پیداوار کو مزید ترقی دینے کی اہل نہیں رہی اور پوری دنیا میں بربادی کی صورت میں اس کا اظہار کر رہی ہے۔ آج ضرورت اس نظام کو اکھاڑ کر اس کی جگہ سوشلزم کو تعمیر کرنے کی ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں انسان آج اس اہل ہوا ہے کہ وہ شعوری طور ایک غیر طبقاتی معاشرہ قائم کر سکے اور انسان پر سے انسان کے استحصال کا خاتمہ کر سکے۔ لیڈ آف کے بعد کامریڈ عادل راؤ نے بات کرتے ہوئے کہاپوری انسانی تاریخ ہمیں دکھاتی ہے کہ تبدیلی ہی دنیا میں پائی جانے والے مستقل چیز ہے اور انسانی سماج ہمیشہ تبدیل ہوتا آیا ہے اور قنوطی دانشوروں کے برعکس انسانی تاریخ کا یہ سفر ہمیشہ ترقی کی جانب رہا ہے اور انسان ذرائع پیداوار کو ترقی دیتے ہوئے فطرت پر قابو پاتے ہوئے آگے کی جانب اپنا سفر جاری رکھا ہے اور انسانیت کا یہ سفر آگے بھی ترقی کی طرف جاری رہے گا اور اس کرۂ ارض پر سوشلزم تعمیر کر کے انسان فطرت کو مسخر کرنے کا آغاز کرے گا۔ آخر میں کامریڈ آفتاب نے سوالات کی روشنی میں پہلے سیشن کا سم اپ کیا۔
دوسرے سیشن کا ایجنڈا عالمی تناظر تھا اور جس پر لیڈ آف فضیل اصغر کی تھی۔ ٖ فضیل نے اپنی لیڈ آف میں سرمایہ داری کے بحران، عالمی معیشت میں سست روی، گلوبلائزیشن مخالف تحفظاتی اقدامات اور عالمی سیاست اور عالمی تعلقات میں حالیہ تبدیلیوں پر بات رکھی۔ فضیل اصغر نے امریکہ، فرانس اور برطانیہ میں ہونے والے حالیہ الیکشن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ہر جگہ دائیں اور بائیں جانب پولرائزیشن کا عمل دکھائی دیتا ہے اور ہر جگہ ہمیں پرانا سیاسی ڈھانچہ ختم ہوتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ برطانیہ کے الیکشن نے یہ ثابت کیا کہ نہ صرف یہ کہ بائیں بازو کے پروگرام پر انتخابات میں حصہ لیا جاسکتا ہے بلکہ درست پروگرام پر عمل پیر ہوکر کامیابی بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد فضیل نے مشرق وسطی پر تفصیل سے بات رکھی اور عالمی طاقتوں کے توازن اور عالمی تعلقات میں ہونے والی تبدیلیوں کی وضاحت بھی کی۔ فضیل نے سعودی معیشت کے بحران، سعودیہ کے قطر اور ایران کے ساتھ تنازع اور سعودی معیشت کے بحران کے سعودی عرب میں محنت کرنے والے محنت کشوں پر اثرات پر بھی تفصیل سے بات رکھی۔ لیڈ آف کے بعد راول اسد نے بحث کو آگے بڑھایا اور آخر میں کامریڈ آفتاب نے سوالات کی روشنی میں سیشن کا سم ا پ کیا۔ انٹرنیشنل گا کر سکول کا اختتام کیا گیا۔