|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس|
مورخہ 23 اور 24 جنوری کو پروگریسو یوتھ الائنس کے زیرِ اہتمام آن لائن نیشنل مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا۔ سکول مجموعی طور پر چار سیشنز پر مشتمل تھا جسے پاکستان کے طول و عرض سے کثیر تعداد میں نوجوانوں اور محنت کشوں نے بذریعہ زوم ایپ جوائن کیا۔
پہلے سیشن کا موضوع ”عالمی و پاکستان تناظر“ تھا جس پر ولید خان نے بات کی، اور چئیر فضیل اصغر نے کیا۔ ولید نے بات کا آغاز سرمایہ دارانہ نظام کی سب سے طاقتور ریاست امریکہ کے اندر بڑھتے بحران سے کیا کہ آج سرمایہ داری کی طاقتور ترین ریاست میں تیسری دنیا کی Banana States والی صورتِ حال منظرِعام پر ہے، تمام سنجیدہ سرمایہ دارانہ دانشور ششدر ہیں، بائیڈن کی فتح کے بعد کہا جا رہا ہے کہ حالات بہتری کی جانب آ جائیں گے مگر یہ خام خیالی کے سوا کچھ نہیں، ولید کا کہنا تھا سرمایہ دارانہ نظام بحران کا شکار ہے، سابقہ ورلڈ آرڈر کا شیرازہ بکھر چکا ہے، برطانیہ کا یورپ سے الگ ہونا اس کا اظہار ہے مگر یورپ سے علیحدگی بذاتِ خود یورپ اور برطانیہ دونوں کو مزید بڑے بحرانات میں دھکیل دے گی، برطانیہ میں امریکہ کی طرح آنے والے عرصے میں سیاسی طور پر مزید پولرائزیشن میں اضافہ نظر آئے گا اور اس کا اظہار یورپی یونین میں بھی بدرجہ اُتم ہو گا، یورپی یونین سرمایہ دارانہ ترقی کے عہد کا اتحاد ہے جو بحران میں اپنے تضادات کے ساتھ ٹوٹ پھوٹ کا عندیہ دے رہا ہے، جس کا اظہار کرونا وبا کے دوران نظر آیا کہ اٹلی جب لاشیں دفنا رہا تھا دیگر یورپی ممالک دور کھڑے تماشبین بنے رہے، یورپ اگلی دہائی میں پیلی واسکٹ، فائیو سٹار تحریک سے کئی گنا بڑی تحریکوں سے جونچتا نظر آئے گا۔
ولید کا مزید کہنا تھا کہ چین کو امریکی سامراج کا متبادل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے مگر آج چین خود زائد پیداوار کے بحران تلے دھنسا ہوا ہے اور اس میں اس سے نکلنے کی سکت تک نہیں، مشرقِ وسطیٰ اس دہائی میں پہلے سے بھی شدید انقلابی تحریکوں کی لپیٹ میں رہے گا، ہندوستان کی صورتِ حال کوئی مختلف نہیں ایسے میں پاکستان کا بحران کم ہونے کی بجائے آج بڑھ رہا ہے اور ریاستِ پاکستان اپنے منطقی انجام تک پہنچ چکی ہے، ولید نے کرونا وبا کے دوران لوٹ مار اور دنیا بھر کے اندر ریاستوں کی حکمران طبقے کی گماشتگی کو ننگا کرتے ہوئے اور اس سب صورتِ حال میں عوامی تحریکوں کے اُبھار کا تناظر دیا۔
ولید کی مفصل گفتگو کے اختتام پر سوالات کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد دیگر کامریڈز نے بات کی، بلوچستان کے رزاق غورزنگ کا کہنا تھاریاست عوام کو تقسیم کرنے کے لیے فرقہ واریت کو ہوا دے رہی ہے، کراچی سے پارس جان کا کہنا تھا آج گلوبلائزیشن کا سوائے ”گلوبل کرائسز“ کے کوئی مطلب نہیں، جنوبی پنجاب سے منصور ارحم اور پشاور سے خالد مندوخیل نے پاکستان کی اُبھرتی طلبہ تحریک کا تناظر پیش کیا، گوجرانوالہ سے سلمیٰ اور لاہور سے وریشہ نے ملک میں بڑھتی مہنگائی اور ریاست کی IMF کی گماشتگی کے تحت نجکاری کے خلاف تحریک کے تناظر پر بات کی، آدم پال نے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج سرمایہ دارانہ نظام عالمی پیمانے پر صرف غربت، بھوک، ننگ اور بیروزگاری کا سبب بن رہا ہے اور دنیا کے تمام ممالک کے داخلی و خارجی خلفشار میں شدت آ رہی ہے۔
پہلے سیشن کا اختتام کرتے ہوئے ولید کا کہنا تھا آج ہم ایک قبل از انقلابی عہد میں جی رہے، موجودہ نظام ختم ہو رہا ہے جس پر سب بورژوا دانشور فرطِ حیرت میں مبتلا ہیں۔ صرف مارکسی نظریات ہیں جو ہمیں حیرت سے بچاتے ہوئے درست حل کی طرف لے جاتے ہیں اور وہ حل ہے سوشلسٹ انقلاب، جس کے لیے ضروری ہے ایک انقلابی قیادت تعمیر کی جائے۔ پہلے سیشن کے اختتام پر کھانے کا وقفہ ہوا۔
پہلے دن کے کھانے کے وقفے کے بعد دوسرے سیشن کا آغاز ہوا جس کا موضوع مارکس کی شہرہ آفاق کتاب ”اجرتی محنت اور سرمایہ“ تھی۔ اس سیشن کو چئیر فضیل اصغر نے کیا جب کہ بات آفتاب اشرف نے کی۔ آفتاب نے بات کا آغاز اُجرت سے کیا کہ سرمایہ مزدور سے اس کی محنت نہیں بلکہ قوتِ محنت خریدتا ہے جس کی قیمت کا نام اُجرت ہے، اُجرت مزدور کو اس کی تخلیق کردہ دولت سے ادا نہیں کی جاتی بلکہ پہلے سے موجود دولت سے سرمایہ دار ادا کرتا ہے۔ اجرت کا تعین بھی بالکل منڈی کے اصولوں کے تحت مانگ اور رسد کی بنا پر ہوتا ہے مگر آخری تجزیے میں یہ قیمت اس کی حقیقی قدر کے ارد گرد ہی ہوتی ہے جیسے رسد کی قلت اور مانگ کے اضافے سے اشیا کی قیمت بڑھ جاتی ہے تو ایک عرصہ بعد وہی چیز اپنی حقیقی قدر سے کم پر بھی بک رہی ہوتی ہے۔
آفتاب کا کہنا تھا کہ مارکس اس کتاب میں بتاتا ہے کہ اُجرت کا تعین محنت کش کی قوتِ محنت پیدا کرنے پر لاگت کے ذریعے ہوتا ہے سو اجرت دراصل ایک محنت کش کے زندہ رہنے، اس کی قوتِ محنت برقرار رہنے، اس کی نسل کے بڑھنے وغیرہ پر درکار قیمت ہوتی ہے۔ اُجرتی محنت دراصل سرمایہ دارانہ نظام کا ہی لازمہ ہے، آفتاب کا کہنا تھا کہ بورژوا دانشوروں کا کہنا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام جب ترقی میں ہوتا ہے تو اجرتی مزدور کی مانگ بڑھتی ہے جس کی وجہ سے اجرتیں بڑھتی ہیں دراصل یہ بالکل غلط ہے ہاں عددی یا حقیقی اجرت بڑھتی بھی ہے تو بھی ریلیٹیو اجرت گرتی ہے کیونکہ اجرت اور منافعے کا تعلق تناسبِ معکوس میں ہے جس کا نتیجہ محنت کش طبقے کی سماجی گراوٹ اور طبقاتی تفاوت میں ہوتا ہے، اور سرمایہ دار اپنے منافعوں کو بڑھانے کے لیے مشینیں اور تقسیمِ محنت کو اور بڑھاتا ہے جو آخری تجزیے میں سرمائے کے ارتکاز اور زائد پیداوار کے بحران کا کارن بنتا ہے۔
آفتاب کی تفصیلی گفتگو کے بعد گوجرانوالہ سے ناصرہ وائیں کا کہنا تھا کہ آج تدریسی مزدوروں کی اجرتیں کام کی تقسیمِ کار کے ذریعے گرائی جا رہی ہیں اور مہارتیں خام ہوتی جا رہی ہیں، برطانیہ سے ارسلان غنی کا کہنا تھا کہ آج نظام زائد پیداوار کے بحران کا شکار ہے کہ پیداواری سرمائے کی نمو گر رہی ہے جو شدید بیروزگاری کاسبب بن رہی ہے۔ بلوچستان سے سالار مری کا کہنا تھا اجرتوں کا تعین چونکہ قوتِ محنت کی پیداوار میں لاگت سے ہوتا ہے اس لیے ہمیں مہارتوں اور غیر مہارت کے کام کا فرق نظر آتا ہے، پشاور سے خالد اور گوجرانوالہ سے صبغت وائیں کا کہنا تھا سرمایہ دار محنت نہیں محنت کی قوت خریدتا ہے اور انہوں نے محنت اور قوتِ محنت کے فرق کو واضح کیا، رائے اسد کا کہنا تھا جدید مشینری کا یہ مطلب نہیں کہ تمام محنت کش مکمل بیروزگار ہو جائیں بلکہ وہ اب کم اجرتوں پہ کام کی طرف جاتے ہیں۔
پہلے روز کے دوسرے سیشن کا اختتام آدم پال نے کیا، آدم کا کہنا تھا مقابلہ بازی کے باعث سرمایہ دار نئی مشینری لاتا ہے، ہونا تو یہ چاہیے اس جدت کے باعث کام کے گھنٹے کم ہوں مگر منافعوں کی بنیاد پہ کھڑا یہ نظام استحصال بڑھاتا ہے جس کا اظہار آج کل آن لائن کام اور gig اکانومی میں واضح ہو رہا ہے۔ اس عمل میں طبقاتی تفاوت آخری حدوں کو پہنچ رہا ہے اور زائد پیداوار کا بحران جنم لے چکا ہے جس کا واحد حل منصوبہ بند معیشت کے سوا کچھ نہیں۔
دوسرے روز کے پہلے سیشن کا موضوع ”ادب اور انقلاب“ تھا، جس پر بات پارس جان نے کی جبکہ اس سیشن کو چئیر رائے اسد نے کیا۔ پارس کا کہنا تھا ہمارے آگے ادب کو بالکل غیر اہم اور ہم سے بیگانہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے درحقیقت ادب سماج اور انسان کا ایک لازمہ ہے۔ ادب انسان کو اس کی روزمرہ غلاظت سے بُلند کرتا ہوا ایک اجتماعی خواب ہے، ادب انسان کی ہم آہنگ زندگی کی ضرورت ہے جو انسان کی حسِ لطافت و جمالیات کو اُجاگر کرتا ہے اور یہ وہ خاصیت ہے جس نے انسان کو حیوان سے ممتاز کیا، پارس کا کہنا تھا کہ حکمران طبقہ اپنے کلچر، اخلاقیات اور قوانین سے اپنے مفادات کے پیشِ نظر خوبصورتی کے غلط تصور محنت کشوں پر تھوپتا ہے اور ان پر موضوعیت اور ظاہریت کا فریب مُسلط کرتا ہے۔ ادب کا کام اس ظاہریت کا پردہ چاک کرنا اور حقیقت کو سامنے لانا ہوتا ہے اور یہ فریضہ حکمران طبقے کے مکمل طور پر ختم سے ہی ممکن ہے۔
پارس کا مزید کہنا تھا کہ حقیقی ادب قابلِ ارطباط ہوتا ہے اور یہ لازمی طور پر کوئی نہ کوئی مطلب رکھتا ہے طبقاتی سماجوں میں چونکہ ثقافت اور دیگر تمام ادارے حکمران طبقے کے زیرِ تسلط رہے تو ادب کا استعمال بھی بطور حکمران طبقے کی لونڈی کے رہا مگر اس سب عہد میں بھی ایک تو وہ بامقصد رہا، دوم وہ اس وقت کے سماجی حالات کا ترجمان رہا، سرمایہ دارانہ نظام نے ادب کو اس کے حقیقی معنوں سے دور اور ادب برائے ادب کی راہ پر ڈالا اور اس کا سماجی رُخ موضوعیت اور انفرادیت کی طرف موڑا اور اس کی کموڈیفیکیشن کر کے بورژوازی کے مفادات کے لیے استعمال کیا مگر حقیقی اور بڑے ادب کا خاصہ یہ ہے کہ وہ سچائی کا پرچار کرے اور سماج کا مکمل عکاس ہو اور ادب اور ادیب اس مقام کو اس وقت تک ہی پہنچ سکتا ہے جب ثقافت، اخلاقیات سب حکمران طبقے کے تسلط سے آزاد ہوں۔
پارس کی تفصیلی گفتگو کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا، سوالات کے بعد بات کو طول دیتے ہوئے گوجرانوالہ سے صبغت وائیں نے ادب کے تخلیقی ارتقاء کو زیرِ بحث لایا اور شاعری پہ بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ فقط بحروں اور وزنوں تک محدود تخلیق نہیں اور ادب کے لیے بامقصدیت لازمی شرط ہے، برطانیہ سے خدیجہ ارسلان نے سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ادب کو حکمرانوں کی عیاشی بنانے پر تنقید کی، جنوبی پنجاب سے عرفان منصور کا کہنا تھا کہ ادیب کے نظریات کا حامل نہ ہونے کا پسِ جدیدیت کا نظریہ سراسر بکواس ہے۔ لاہور سے مشعل نے ماضی کے بڑے ادب پاروں کی مثالیں دیں کہ وہ کس طرح سماج کے عکاس تھے۔ بلوچستان سے باسط نے کہا کہ سرمایہ داری میں ادب کو موضوعیت اور فارم تک محدود کر دیا گیا۔ آدم پال نے بات کو بڑھاتے ہوئے کہا کہ سرمایہ داری نے ادب کو ایک بکنے والی شے بنا دیا اور مکمل حکمران طبقے کے زیرِ تسلط کیا مگر آج سوشل میڈیا نے اس کو دوبارہ اُبھرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
اس سیشن کا اختتام کرتے ہوئے پارس کا کہنا تھا ہمارے تمام تر خوبصورتی کے معیارات سرمایہ داری کے زیرِ اثر ہیں، آج ثقافت بھی عالمی سامراجی اجارہ داری کے زیرِ اثر ہے اس لیے آج قومی و علاقائی ثقافت کا دفاع بھی فقط اسی صورت میں ممکن ہے کہ عالمی سامراجیت کو اُکھاڑ پھینک کر ایک سوشلسٹ سماج قائم کیا جائے۔
سکول کے چوتھے اور آخری سیشن کا موضوع ایلن ووڈز کی کتاب ”بالشوازم:راہِ انقلاب“ تھی۔جس کو سلمیٰ ناظر نے چیئر کیا جب کہ اس پر تفصیلی گفتگو زین العابدین نے کی۔ زین نے انقلاب کی ضرورت بتاتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کیا کہ انقلاب تاریخ کا انجن ہیں مگر موجودہ عہد میں بھی ماضی کے عہد کی طرح بنا کسی شعوری عنصر کے انقلاب ناممکن ہے اس لیے انقلابی پارٹی کا سوال بہت اہمیت کا حامل ہے اور اس کے لیے مشعلِ راہ بالشویک پارٹی ہے۔ روس کے ایک پسماندہ ترین خطے میں جہاں انفرادی دہشتگردی اور مسلح جدوجہد کا ایک عہد رہا، وہاں فقط دو عشروں میں انقلاب کرنے والی پارٹی کا قیام کیسے عمل میں آیا۔ زین کا کہنا تھا روس میں پلیخانوف کی قیادت میں چند ایک افراد کے گرد مارکسی نظریات پر مشتمل گروپ تخلیق ہوا، اور مختلف گروپس کے گرد RSDLP قائم ہوئی، مگر بہت جلد ہی پارٹی کو سپلٹ کا سامنا ہوا اور لینن کی قیادت میں سخت ڈسپلن اور تقسیمِ کار کے گرد بالشویک پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔
ابتدائی طور پر بالشویک پارٹی میں شدید ترین نظریاتی بحثوں کا اظہار نظر آتا ہے۔ 1905ء میں انقلاب اور اس کی ناکامی کے بعد ردِ انقلاب کا عہد آتا ہے، 1910ء کے بعد دوبارہ عوامی تحریکوں کا اُبھار نظر آتا ہے اور 1912ء میں بالشویک پارٹی مکمل طور پر منشویکوں سے علیحدگی کا اعلان کرتی ہے۔ 1914ء کی عالمی جنگ میں بالشویک پارٹی جنگ کی مخالفت کرتی ہے جبکہ دوسری انٹرنیشنل جنگ کی حمایت کا اعلان کرتی ہے، جس پر بالشویک پارٹی دوسری انٹرنیشنل سے علیحدگی کی طرف بڑھتی ہے اور بالشویک پارٹی کا سفر فروری انقلاب تک آ پہنچتا ہے، فروری انقلاب کے بعد منشویکوں اور دیگر اصلاح پسند حکومت میں آنے کے باوجود عوام کو کچھ دینے سے قاصر رہے۔ اسی عرصے میں بالشویک پارٹی نے سویتوں کو اقتدار کی منتقلی کا مطالبہ کیا اور آخر کار اکتوبر انقلاب میں بالشویک پارٹی انقلاب کو حتمی منزل تک پہنچاتی ہے۔
زین کی تفصیلی گفتگو کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد آفتاب اشرف نے بات کو بڑھاتے ہوئے کہا کہ انقلابی پارٹی کی تعمیر کے لیے ایلن ووڈز کی کتاب ”بالشوازم: راہِ انقلاب“ پڑھنا سب سے ضروری ہے، جنوبی پنجاب سے فرحان کا کہنا تھا پرولتاریہ طبقہ اپنے اندر انقلابی طبقہ ہے جس پر لینن کو مکمل اعتماد تھا، جلال جان کا کراچی سے کہنا تھا کہ بالشویک پارٹی کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ پارٹی کا پیپر پارٹی کی تعمیر کے لیے ناگزیر ہے، بلوچستان سے کریم پرہار نے بات کو آگے بڑھایا کہ بالشویک پارٹی کی تاریخ بتاتی ہے کہ قومی آزادی کی واحد راہ سوشلسٹ انقلاب ہے، لاہور سے ثناء اللہ نے کہا کہ پارٹی افراد کے اکٹھ کا نام نہیں بلکہ سخت گیر کام کی تقسیمِ کار بھی ضروری ہے، شمالی پنجاب سے حیات نے انقلابی پارٹی کے وجود کو محنت کش طبقے کی جدوجہد کی کامیابی کے لیے ضروری قرار دیا، حیدرآباد سے علی عیسیٰ کا کہنا تھا کہ بالشویک پارٹی کی تاریخ پاکستان میں انقلابی پارٹی کے قیام کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
آخری سیشن کے اختتام پر زین کا کہنا تھا کہ بالشویک پارٹی کی تاریخ ہمیں مارکسی نظریات کی اہمیت اور صداقت باور کرواتی ہے، زین کا کہنا تھا دنیا بھر کا حکمران طبقہ لینن اور بالشویک پارٹی سے اس قدر خوفزدہ ہے کہ جھوٹ کے پلندے آج تلک لکھے جا رہے ہیں اس خوف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بالشویک انقلاب تاریخ کا پہلا واقعہ تھا جب نجی ملکیت کا خاتمہ ہوا، اور تاریخ میں پہلی دفعہ محنت کش طبقے کی حاکمیت آئی۔
سکول کے اختتامی الفاظ آدم پال نے ادا کیے کہ اس وقت انسانیت کی بقا کا واحد حل سوشلسٹ سماج کا قیام ہے، سوشلسٹ انقلاب کے لیے ضروری ہے کہ ایک بالشویک طرز کی انقلابی پارٹی تعمیر کی جائے، اور آج ہم پاکستان میں بالشویک پارٹی کے نظریات اور طریقہ کار کے تحت انقلابی پارٹی کی تعمیر کر رہے ہیں، سچے جذبوں کی قسم آخری فتح ہماری ہو گی!