کراچی: ایک روزہ ریجنل مارکسی سکول کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کراچی|


مورخہ 30 دسمبر، بروز ہفتہ پروگریسو یوتھ الائنس، کراچی کے زیرِ اہتمام ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا۔ سکول میں دو سیشن رکھے گئے۔ سکول کا پہلا سیشن جدلیاتی مادیت کے موضوع پر تھا جبکہ دوسرا سیشن ’لینن یا فینن‘(یعنی دنیا کے پہلے مزدور انقلاب کے عظیم مارکسی و مزدور رہنما کامریڈ لینن کا انقلابی طریقہ درست ہے یا فینن کا؟) کے موضوع پر تھا۔

سکول میں چالیس سے زیادہ کامریڈز اور انقلابی نظریات میں دلچسپی رکھنے والے نوجوانوں اور محنت کشوں نے شرکت کی۔ نوجوانوں کا تعلق مختلف علاقوں اور تعلیمی اداروں سے تھا جس میں کراچی یونیورسٹی، وفاقی اردو یونیورسٹی، بلدیہ ٹاؤن، ملیر کے طلبہ سمیت کراچی میں مقیم بیوٹمز یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے اساتذہ اور جنرل ٹائرز، یونس ٹیکسٹائل اور کورنگی انڈسٹریل ایریا کے محنت کش ساتھیوں نے شرکت کی۔
پہلے سیشن کو جلال جان نے چیئر کیا اور ’جدلیاتی مادیت‘ کے موضوع پر آنند پرکاش نے تفصیلی لیڈ آف دیتے ہوئے فلسفہ کا تعارف اور اس کی ضرورت و اہمیت پر بات رکھی۔

اس کے بعد مادیت پسندی اور عینیت پرستی کے مابین فلسفیانہ فرق اور جدلیاتی مادیت کے فلسفے کی تاریخ اور تعریف پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہر مادی چیز مسلسل حرکت اور تغیر میں ہوتی ہے۔ فطرت کی سائنس، انسانی سماج اور فکر کی حرکت کے قوانین کا مطالعہ جدلیات ہے۔
رسمی منطق ایک محدود طریقہ کار ہے جو کسی رجحان کی مکمل تفہیم نہیں دے سکتا کیونکہ یہ اسے مسلسل تبدیلی کے عمل میں نہیں دیکھتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رسمی منطق کو یکسر مسترد کر دیا جائے بلکہ اس کا جدلیات سے وہی تعلق ہے جو عام ریاضی کا اعلیٰ ریاضی سے ہے۔
آنند نے اپنی لیڈ آف میں جدلیات کے تین اہم بنیادی اصولوں کی بھی وضاحت کی۔ لیڈ آف کے بعد جلال جان، ثناء زہری اور پارس جان نے سامعین کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جدلیاتی مادیت کی روشنی میں جواب دیتے ہوئے جدلیاتی مادیت کے فلسفے کو مزید تفصیل سے سمجھایا اور کامریڈ آنند نے سیشن کا سم اپ کیا۔
سکول کا دوسرا سیشن کامریڈ ساجد خان نے چیئر کیا اور عالمی مارکسی رحجان کے رہنما کامریڈ پارس جان نے لیڈ آف دی۔

دوسرے سیشن کا موضوع ’لینن یا فینن‘ تھا یعنی لینن اور فینن کے نظریات اور طریقہئ کار کے فرق اور موجودہ وقت اور حالات میں ان نظریات کی ضرورت پر تفصیلی بات رکھی۔
پارس جان نے فینن کی نظریات اور ان کی مشہور کتاب ’افتادگانِ خاک‘ پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ پارس جان نے نہ صرف ان کی جدوجہد کی تعریف کی بلکہ پسماندہ علاقوں اور مظلوم قومیتوں کے وسیع قدرتی وسائل کو لوٹنے کے لیے سامراجی قوتوں پر تنقید کی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس عہد بہت سی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں اور مظلوم قومیتوں کی آزادی کی جدوجہد کو فروغ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم مسلح جدوجہد کی بجائے مارکسی اور سوشلسٹ طریقہ کار کے ذریعے قومی و ریاستی جبر سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔
پارس جان کی لیڈ آف کے بعد ساجد خان اور ایاز نے پوچھے گئے سوالات کے مارکسی تعلیمات کی روشنی میں جوابات دیے، جس کے بعد پارس جان نے گفتگو کو سمیٹا اور ان الفاظ پر اس سیشن کا اختتام کیا کہ مابعد نوآبادیاتی نظریہ ایک ری ایکشنری نظریہ ہے جو محنت کش طبقے کی مشترکہ جدوجہد کو منقسم کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ استحصال کو جاری رکھنے کا جواز فراہم کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے خلاف ہمیں واضح طور پر مارکسی نظریات ہی نظر آتے ہیں جو سائنسی بنیادوں پر سماج کا تجزیہ کرتے ہوئے مستقبل کا درست تناظر اور سماج کی تبدیلی کا واضح لائحہ عمل فراہم کرتے ہیں۔ آخر میں مزدوروں کا عالمی ترانہ ’انٹرنیشنل‘ گا کر سکول کا اختتام کیا گیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.