|رپورٹ: پروگریسیو یوتھ الائنس، پشاور|
طلبہ تحریک کو حقیقی نظریاتی بنیادیں فراہم کرنے اور پشاور کے طلبہ کو درست پروگرام اور لائحہ عمل پر منظم کرنے کے لئے پروگریسیو یوتھ الائنس کے بینر تلے 5دسمبر کو پشاور پریس کلب میں کو ’’FeesMust End‘‘ یوتھ کنونشن کا انعقاد کیا گیا۔ پشاور یونیورسٹی، جو کہ خیبرپختونخوا کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے، میں پاکستان کے دیگر تعلیمی اداروں کی طرح معمول کے مطابق اس سال بھی تعلیمی فیسوں میں دس فیصد اضافہ کیا جا چکا ہے لیکن حقیقت میں یہ اضافہ دس فیصد سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ جو کہ ایک طرف اگر اوسط آمدنی والے خاندان سے تعلق رکھنے والے طلبہ اور ان کے ماں باپ کے کندھوں پر ایک ناقابل برداشت معاشی بوجھ بنا ہوا ہے تو دوسری طرف ان کی زندگیوں کے اندر اس ظلم اور جبرکے خلاف ایک غم اور غصہ بھی موجود ہے جسکا اظہار بار بار یونیورسٹی کے اندر سٹوڈنٹس کے چھوٹے بڑے احتجاجوں اور مظاہروں کی شکل میں ہوتا آرہا ہے۔ محنت کشوں کے بچوں کے لئے تو تعلیم کے دروازے ویسے ہی بند کردئیے گئے ہیں۔ قا ئداعظم یونیورسٹی کے اندر چلنے والی کامیاب طلبہ تحریک کے ساتھ پاکستان کے باقی تعلیمی اداروں کی طرح پشاور یونیورسٹی میں بھی احتجاجوں، مظاہروں اور طلبہ حقوق کے حوالے سے بحث مباحثوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جس دوران پروگریسیو یوتھ الائنس کے سرگرم کارکنان نے طلبہ کے ساتھ ان کے حقوق کی حقیقی لڑائی لڑنے کے لئے ایک متبادل کے طور پر ایک منظم، نظریاتی، اور روایتی سیاسی پارٹیوں اور تنظیموں کے اثر سے آزاد سٹوڈنٹ فرنٹ کی ضرورت پر ایک بحث کا آغاز کیا جو کہ طلبہ کے حقوق کی حقیقی نمائندگی کر سکے۔
اس سلسلے کے ایک کڑی کے طور پر اس بحث کو عملی میدان میں اتارنے کیلئے پروگریسیو یوتھ الائنس نے پشاور پریس کلب میں ایک یوتھ کنونشن کا انعقاد کیا۔ اس پروگرام میں زیادہ سے زیادہ طلبہ کی شرکت کو یقینی بنانے کے لئے 20نومبر سے پشاور یونیورسٹی میں باقاعدہ کیمپین کا سلسلہ شروع ہوا جس دوران طلبہ کی ایک بڑی تعداد سے رابطے ہوئے۔ کیمپین کے لئے لگائے گئے پہلے ہی کیمپ میں طلبہ کی جانب سے زبردست رسپانس ملا جس نے پروگریسیو یوتھ الائنس کے کارکنان کے حوصلے مزید بلند کردئیے۔ کیمپین کے دوران بحث میں آنے والے طلبہ نے پروگریسیو یوتھ الائنس کے ’’FeesMustEnd‘‘ کے نعرے کو بہت پسند کیا اور اس کے ساتھ ساتھ طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے روایتی طلبہ تنظیموں سے بیزاری کا بھی اظہار کیا۔ کنونشن کے انعقاد کو یقینی بنانے کے راستے میں مالی مشکلات بھی حائل تھیں۔ ایسے میں کسی ’صاحب ثروت‘ یاکسی بڑے سیاسی لیڈر سے بھیک مانگنے کی بجائے مگر پروگریسیو یوتھ الائنس کے کارکنان نے اپنے پروگرام اور نعروں کی بنیاد پر یونیورسٹی کے طلبہ سے ہی چندہ اکٹھا کیا۔ کیمپین کے دوران طلبہ کو کنونشن کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ ان سے فنڈ اپیل بھی کی گئی اور طلبہ کے دئیے گئے سو سو پچاس پچاس روپوں سے ہی کنونشن کا انعقاد ممکن ہوسکا۔ یہ ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جن کے نزدیک کسی بڑی ’شخصیت یا پارٹی‘ کی پشت پناہی اور مدد کے بغیر سیاست کرنا ناممکن ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ اس بات بھی اظہار ہے کہ آج اگر کوئی حقیقی متبادل موجود ہو تو عام طلبہ بھی سیاست میں دلچسپی لیتے ہیں۔
ساڑھے تین بجے کنونشن کا آغاز ہوا اور لگ بھگ پچاس کے قریب طلبہ نے اس میں شرکت کی۔ تقریب کا آغاز انقلابی شعروشاعری سے ہوا۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض پشاور یونیورسٹی سے پروگریسیو یوتھ الائنس کے سرگرم کارکن خالد مندوخیل نے ادا کیے۔
خالد مندوخیل نے اس یوتھ کنونشن کی ضرورت، اہمیت اور مقاصد پر تفصیلاً اظہار خیال کیا اور کہاکہ ایک ایسے وقت میں جب ماضی کی ترقی پسند طلبہ تنظیمیں نظریات کو پس پشت ڈال کر ذاتی مفادات کی سیاست کررہی ہیں یہ کنونشن طلبہ سیاست کو نظریاتی بنیادوں پر منظم کرنے اور طلبہ تحریک کو درست پروگرام سے لیس کرنے کی ایک کوشش کا آغاز ہے۔ تقریب کے پہلے مقرر پروگرام کے پہلے مقرر پشاور یونیورسٹی سے پی وائے اے کے سرگرم کارکن اسفندیار تھے۔ اسفندیار نے اپنی تقریر پروگریسیویوتھ الائنس کا مختصر تعارف پیش کیا جس میں طلبہ سیاست اور پی۔وائی۔اے کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے پورے پاکستان اور دنیا کے اندر ایک طلبہ اتحاد کی ضرورت، اہمیت اور جڑت کو واضح کیاگیا۔
کنونشن میں پاکستان کے دیگر تعلیمی اداروں سے بھی پروگریسیو یوتھ الائنس کے ممبرز اور ساتھی شریک ہوئے جس میں اسلام آباد سے قائداعظم یونیورسٹی اور اسلامک یونیورسٹی، ملتان سے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی اور کشمیر سے بھی پروگریسو یوتھ الائنس کے نمائندے موجود تھے۔
اس کے علاوہ شریک طلبہ میں سے پشاور یونیورسٹی سے کامران، باسط خان، موسیٰ خان، زبیر وزیر، قائد اعظم یونیورسٹی سے ماہ بلوص اسد، اسلامک یونیورسٹی سے عمر ریاض، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے فضیل اصغر اور کشمیر سے عبیدزبیر نے پرجوش تقاریر کیں اور ایک جرات، حوصلے اور قوت کے ساتھ طلبہ کی حقوق کی اس لڑائی کو آگے بڑھانے اور اس نئے پیغام کو تمام تر طلبہ اور نوجوانوں تک پہنچانے کا عزم کیاگیا۔ پروگرام کے آخری لمحات میں مالاکنڈ سے صدیق جان نے پی۔وائی۔اے پشاور کی نومنتخب آرگنائزنگ باڈی کا اعلان کیا جس میں صدام وزیر، ستار کاکڑ، شمس الرحمان، محب ناصر اور باسط خان شامل ہیں جنہوں نے پشاور میں پی۔وائی۔اے کے کام کوتمام تر تعلیمی اداروں کے اندر بڑھانے کا عزم کیا۔
اس کے بعد خالد مندوخیل نے پروگریسیویوتھ الائنس کی طرف سے طلبہ مسائل کے حوالے سے درج ذیل قراردادیں پیش کیں جن کو اکثریتی رائے سے منظور کیا گیا:
1۔ تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ ہر طرح کی تعلیمی فیسوں کا خاتمہ کیا جائے اور ہر سطح پر مفت اور معیاری تعلیم فراہم کی جائے۔
2۔ تعلیمی اداروں سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے طلبہ یونین بحال کی جائیں اور تمام تعلیمی اداروں میں فی الفور انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔
3۔ حکومت ہر نوجوان کو روزگارفراہم کرے، یا 15ہزار روپے ماہانہ بیروزگاری الاونس دیا جائے۔
4۔مشال خان کے قاتلوں کو فوری پھانسی کی سزا سنائی جائے۔
تقریب کے آخری مقرر پروگریسیو یوتھ الائنس کے مرکزی آرگنائزر زین العابدین تھے۔ زین نے طلبہ سیاست کے ساتھ ساتھ ملکی اور عالمی سطح کے اوپر ہونے والی سیاسی، معاشی اور سماجی تبدیلیوں اور اس بنیاد پر عالمی سطح پر اور پاکستان میں برپا ہونے والی مزدور اورطلبہ تحریکوں کے امکانات پر روشنی ڈالی۔ اپنی تقریر میں ملکی سطح پر متحد ہونے والی طلبہ اور مزدور دشمن سیاسی پارٹیوں کو ان کے تاریخی پس منظر میں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے ایک حقیقی متبادل کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کیا جو کہ حقیقی بنیادوں پر مزدوروں اور طلبہ کو منظم اور اکٹھا کرتے ہوئے ان کے حقوق کی حقیقی اور نظریاتی نمائندگی کرے اور حتمی فتح تک اس جدوجہد کو جاری رکھتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کریں جو ظلم، جبر اور استحصال سے پاک ایک نئے سماج کی بنیادیں ڈال سکیں۔
اس کنونشن کا انعقاد ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب تمام طلبہ تنظیمیں ریاستی ایما پر ابھرتی طلبہ تحریک کو ہائی جیک کرنے کے لئے متحد ہوچکی تھیں اور یہ ایک کھلا راز ہے کہ یہ اتحاد کس کی کوششوں سے ممکن ہوا ہوگا۔ کیا دایاں اور کیا بایاں بازو یہ تفریق ہی مٹ چکی ہے اور اچانک ہی ان سب طلبہ تنظیموں کو طلبہ حقوق یاد آنے لگے اور حتیٰ کہ حکومتی پارٹیوں کے سٹوڈنٹ ونگز کو بھی طلبہ حقوق کے ایسے شدید مروڑ اٹھے کہ بھی اس ’جدوجہد‘ میں کود پڑے ہیں۔ ایسے میں ہواؤں کے رخ کے مقابل جاکر اس کنونشن کو منعقد کرنا ہرگز کوئی آسان کام نہ تھا۔لیکن آج کی یہی ثابت قدمی ہمارے اس موقف کو درست ثابت کرے گی جب کل کو یہ طلبہ تنظیمیں طلبہ کا سودا کریں گی۔ جب ان تنظیموں سے بھی کچھ نہ بن پڑا تو ’سٹریٹجک اثاثوں‘ کا سہارا لے کر طلبہ تحریک پر دہشت گرد حملہ کروایا گیا۔ لے دے کر چند سو طلبہ ہی متحرک ہوسکے جو کہ ان تنظیموں کے اپنے ممبران ہی تھے۔ طلبہ کی اکثریت ان سے لاتعلق دکھائی دیتی ہے اور اب یہ طلبہ کو جاہل اور گنوار کہہ کر اپنی فرسٹریشن کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ زرعی انسٹیٹیوٹ پر حملے کے بعد سے ہی پشاور شہر میں جنگی فضا طاری کردی گئی۔ سارا سارا دن جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹر شہر کے اوپر اڑانیں بھررہے ہیں اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے جنگ چھڑ گئی ہو۔ ان طلبہ تنظیموں کی تو کیا بات کرنی مگر بڑے بڑے انقلابی بھی اس ’جدوجہد‘ کی ناصرف غیر مشروط حمایت کررہے ہیں بلکہ اس ریاستی دھرنے میں عملی طور پر شریک ہیں۔ دائیں اور بائیں بازو کی تفریق ہی بھلا دی گئی۔ ناصرف یہ بلکہ ان طلبہ تنظیموں کی قیادت سے فوری طور پر ان کو روکنے کی اپیلیں کی گئیں۔ بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ وہ اسلامی جمعیت طلبہ پرانی جمعیت تھی اور یہ جمعیت ایک ’ترقی پسند‘ جمعیت ہے۔ ان نام نہاد انقلابیوں نے بھی اس کنونشن کو ناکام بنانے کی بھرپور کوششیں کیں اورطلبہ کو اس کنونشن میں شریک ہونے سے روکنے کے لیے عملی کوششیں کی گئیں۔ سونے پر سہاگہ کنونشن کے دن پریس کلب کی انتظامیہ نے ہال دینے کے حوالے سے حیلے بہانے شروع کردیے حالانکہ کئی روز قبل بکنگ کروائی گئی تھی۔ کنونشن کے لئے 2بجے کا وقت دیا گیا تھامگر عین اسی وقت مزکورہ ہال میں ایک اور پریس کانفرنس شروع کروا دی گئی اور جب پریس کلب کے صدر سے اس بابت بات کی گئی تو اس نے چھٹتے ہی ’معافی‘ مانگ لی۔ لیکن ان سب مشکلات کے باوجود یہ مارکسزم کے درست نظریات اور تناظر کی طاقت ہی تھی جس کی بنیاد پر اس کنونشن کا انعقاد یقینی بنایا گیا اور یہ کنونشن طلبہ تحریک میں ایک نئے باب کی حیثیت رکھتا ہے۔
تقریب کے اختتام پر کنونشن میں شریک تمام ساتھیوں نے پریس کلب کے سامنے فیسوں کے خاتمے اور طلبہ یونین کی بحالی کے لئے احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں مہنگائی، پرائیویٹائزیشن اور غیر معیاری نظام تعلیم کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔