’’سی پیک اور پاکستان‘‘ کے عنوان سے دادو میں لیکچر پروگرام کا انعقاد

|رپورٹ: سلیم جمالی| 

پروگریسو یوتھ االائنس کے زیر اہتمام18 فروری بروز اتوار کو ’’سی پیک اور پاکستان‘‘ کے عنوان سے دادو میں ایک لیکچر پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں لیکچرکار خالد جمالی تھے اور چیئر کے فرائض سلیم جمالی نے ادا کئے۔

پروگرام کا آغاز سلیم جمالی نے ساحر لدھیانوی کی نظم سے کیا۔ اس کے بعد خالد نے اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک کے نام سے سب واقف ہیں اور حکومت نے اس کے متعلق اس طرح بیانات دیئے ہیں کہ جیسے اس کے مکمل ہو نے سے شہد اور دودھ کی ندیاں بہیں گی۔ خالد نے کہا کہ حکومت سی پیک کے متعلق بہت جھوٹ بول رہی ہے اور اس منصوبے کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہے۔ اس راہداری کے منصوبے کی سب سیاسی پارٹیاں حمایت کر رہی ہیں۔ پی پی پی اور ن لیگ تو یہاں تک عوام اور محنت کش طبقے کو گمراہ کرنے کے لئے کہے جا رہی ہیں کہ یہ منصوبہ ان حضرات نے بنایا اور اختیار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک کے منصوبے کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں اس سرمایہ داری اور عالمی معاشی، سیاسی اور سماجی صورتحال کا بھی علم ہو۔ خالد نے مختصراً بیسویں صدی کی دو عالمی جنگوں اور 1929ء کے تباہ کن عالمی کساد بازاری کا ذکر کیا اور سرمایہ داری نظام میں آنے والے بحرانوں کی وجوہات اور تاریخ بتائی۔ خالد نے یہ بھی کہا کہ بیسویں صدی میں ان بحرانوں سے کچھ ممالک بچے ہوئے تھے جس میں اس نے سوویت یونین کا نام لیا اور یہ بھی کہا کہ سرمایہ داری نظام کی دوسری عالمی جنگ کے بعد کی بڑی معاشی بحالی سے بھی کچھ ممالک باہر تھے، جن میں مسخ شدہ سوشلزم تھا جس کے لئے اس نے سر فہرست سوویت یونین اور چین 1949ء کے بعد کا نام لیا۔ خالد نے کہا کہ موجودہ عہد میں نہ تو سوویت یونین ہے اور نا ہی وہ پرانا ’’کمیونسٹ‘‘ چین۔ اس نے کہا کہ اب پوری دنیا سرمایہ داری اور اس کی سامراجی گرفت میں ہے۔ اب جب 2008ء کا دوسرا تباہ کن عالمی معاشی بحران آیا ہے تو اس نے اس سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ تک ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس بحران سے کوئی ملک نہیں بچا ہوا۔ اس بحران نے سرمایہ داری نظام کے سب اصولوں کو پاش پاش کر دیا ہے۔ اس نے کہا کہ تب سے عالمی طور پر طاقتور ممالک میں ایک معاشی جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ جس میں یہ ممالک اپنے ملک کے سرمایہ داروں اور ان کے سرمایے کی حفاظت اور اپنے سامراجی کردار کی حفاظت اور بڑھوتری کی کوشش کر رہے ہیں جس میں ہمیں چین تیزی سے بڑھتا نظر آیا تھا۔ عالمی طاقتوں کے مابین تضادات شدت اختیار کررہے ہیں۔ امریکہ اب چینی مصنوعات اپنے ملک میں نہیں چاہتا مگر ان کو روک بھی نہیں پا رہا۔ خالد نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چینی مصنوعات پہ 45فیصد ٹیکس عائد کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ کا چین کے ساتھ 347 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہے۔ اس صورتحال میں چین کو اپنی مصنوعات کے لئے نئی منڈیاں تلاش کرنی پڑ رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے چین نے ایک منصوبہ بنایا ہے جسے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبہ کہا جا رہا ہے۔ سی پیک اس منصوبے کا ایک جزو ہے۔ اس نے کہا کہ اس منصوبے کہ تحت چین اپنی فاضل پیدا وار، فاضل پیداواری صلاحیت اور اپنے ملک کی بیروزگاری کو برآمد کر رہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک سامراجی کردار ادا کر رہا ہے۔ اس نے کہا کہ یہ منصوبہ پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کے لئے معاشی، سماجی اور سیاسی ہر لحاظ سے بہت خطرناک ہے اور جب کہ محنت کش طبقہ پہلے ہی بربریت کی نہج پر پہنچا ہوا ہے۔ خالد نے کہا کہ سرمایہ داری نظام اپنی طبعی زندگی پوری کر چکا ہے اور یہ بحرانی صورتحال اس بات کی غمازی کرتی ہے۔ لیکن کیا ان شدید بحرانوں کی وجہ سے سرمایہ داری نظام خودبخود ٹوٹ کر ختم ہو جائے گی؟ نہیں، ہرگز نہیں! سرمایہ داری نظام کو شعوری جدوجہد سے ختم کر کے ہی نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ 

خالد نے تمام شرکاء کو پروگریسو یوتھ الائنس کے ممبر بن کر اس جدوجہد کو آگے بڑھانے کی دعوت دی۔ اس کے بعد ستار جمالی نے موضوع کے دیگر پہلوؤں پر روشنی ڈالی جس میں اس نے سی پیک کے منصوبے کی تفصیلات فراہم کیں اور انہیں سبز باغ سے تشبیہ دی اور بڑا دھوکہ کہا۔ اس کے بعد شرکاء نے سوالات پوچھے اور خالد نے ان کے جواب دیئے۔ پروگرام کے اختتام پر چند شرکا نے سی پیک پر لکھی ہوئی کتاب ’’سی پیک: ترقی یا سراب‘‘ بھی خریدی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.