|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|
آج ہم تعلیمی بجٹ کی صورتحال دیکھیں تو وہ 59 ارب روپے ہے جو کہ گزشتہ سال کے تعلیمی بجٹ کی نسبت آدھا ہے، اور چند ماہ پہلے یہ خبر آئی تھی کہ گورنمنٹ نے وی سیز (VCs) کو کہا ہے کہ خود چندہ اکٹھا کر کہ یونیورسٹیاں چلائیں، اور ہمیں ایچ ای سی کے سکالرشپس کا بھی خاتمہ ہوتا ہوا نظر آتا ہے، اور فیسوں میں دگنا اضافے کی خبر بھی ہمیں ملتی ہے۔ اب تمام خبروں کو پہلے تو سنجیدہ نہیں لیا گیا لیکن آج ہم دیکھیں تو خبر آئی ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کی فیسوں میں 10-15 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔اب پہلے جن ڈیپارتمنٹس کی فیسیں 30,000 تھیں، آنے والے نئے سیشن کے لیے ان میں اضافہ کر دیا جائے گا۔اب محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے ہر طالب کی پہلی ترجیح تو یہ ہی ہوتی ہے کہ اس کا گورنمنٹ کے ادارے میں داخلہ ہو جائے تا کہ اس کے گھر والے آسانی سے تعلیم کا خرچ اٹھا سکیں۔ لیکن آگے یہ حالات بھی تبدیل ہونے جارہے ہیں۔ایک عام طالب علم کی پہنچ سے تعلیم دور جاتی جارہی ہے۔ ابھی تو 10-15 فیصد اضافہ ہوا ہے آگے جس طرح کے حالات نظر آرہے ہیں یہ فیسیں سمیسٹر با سمیسٹر بڑھنے کی طرف جائیں گیں۔ سمیسٹر کی فیسوں کے علاوہ ہاسٹل ڈیوز، میس ڈیوز، ایگزیمنیشن فی، بھی بڑھنے کی جانب جائے گی۔پہلے یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد ایک طالب علم کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ کسی طرح سکالرشپ حاصل کر لے تاکہ تعلیمی اخراجات کا بوجھ ہلکا ہو۔ لیکن اب تو ایچ ای سی نے سکالرشپس کو بھی مکمل طور پر بین کردیا ہے۔ آخر میں یہ ناممکن ہوجائے گا کہ عام طلبہ تعلیم کی رسائی حاصل کر سکیں۔
اب جو طلبہ یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں ان سے بھی پیسے بٹورنے کے لیے مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں۔ جان بوجھ کر کوٹے پر آئے طلبہ پر سپلیاں لگا دی جاتی ہیں اور پھر کچھ ڈیپارٹمنٹس میں سپلی کلیرنس کی فیس میں ڈبل سے بھی زیادہ اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ایک پیپر کی کلیرنس کی فیس جو کہ 1000 روپے تھی، وہ اچانک سے بڑھ کر 10,000 ہو گئی ہے۔ تو گھر والے پھر یہی کہتے ہیں کہ تعلیم چھوڑو اور گھر جا کر بیٹھو۔
اب یونیورسٹی میں داخلے دیکھے جائیں تو تمام داخلے میرٹ کی بنیاد پر نہیں ہوتے اب ایک ڈپارٹمنٹ میں غیر نصابی سرگرمیوں کی سیٹیں، ٹیچرز سن ڈاٹر کی سیٹیں، سپورٹس کی سیٹیں وغیرہ یہ سب ایک سیشن کا حصہ ہوتی ہیں اور اوپن میرٹ کے بچوں کو چھوڑ کر ان کو ترجیح دی جاتی ہے اور انہیں یونیورسٹی میں سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ سب سے پہلے تو ان تمام کوٹوں کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ ان تمام کوٹوں کی وجہ سے عام طلبہ کا حق مارا جاتا ہے۔ دوسری جانب میرٹ پر دیکھیں تو 0.5 کی وجہ سے ایک طالب علم کا داخلہ رہ جاتا ہے، اس کے سپنے ایک منٹ میں بکھر کر رہ جاتے ہیں اور دوسری جانب چند طلبہ آرام سے کوٹے پر داخلہ لے رہے ہوتے ہیں۔
اب ہم پیجاب یونیورسٹی کے اندر اندر رہتے ہوئے دیکھیں تو یہاں پر مختلف ڈگریوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ جن میں ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرامز شامل تھے۔ مستقبل میں اسی طرح کئی ڈگریوں پر پابندی لگے گی۔ اسی طرح سیٹوں میں بھی کمی کی جارہی ہے۔ ہاسٹلوں کو دیکھیں تو پنجاب یونیورسٹی میں 49000 طلبہ کیلئے صرف اور صرف 28ہاسٹل ہیں جبکہ یونیورسٹی کی کافی زمین خالی پڑی ہے اور یونیورسٹی میں میرج ہال کھولے جارہے ہیں۔
عجیب!
اب یہ کون کھول رہا ہے؟
منافع کس کے پاس جارہا ہے؟
کس کے پیسوں سے کھل رہا ہے؟
اس پر کہیں یونیورسٹی کے اندر بات نہیں کی جاتی۔سالوں سے وہی ڈپارٹمنٹ، وہی ہاسٹل، طلبہ کی سیٹوں میں بھی کٹوتی، سکالرشپس بھی بند، حالات بھی وہی، تو فیسوں میں اضافہ کیوں؟
ٹرانسپورٹ کی بات کی جائے تو بسوں کی انتہائی ناقص صورتحال ہے اور یونیورسٹی میں بیشتر غنڈہ گرد تنظیمیں ہیں جن کے پورے سال آپس کے جھگڑے ایک طرف طلبہ کو الجھائے رکھتے ہیں اور دوسری طرف پوری یونیورسٹی میں خوف پھیلایا ہوتا ہے۔ اب ہمیں پنجاب یونیورسٹی میں بسوں کی ناقص صورتحال پر ایک پر امن ریلی کرنے پر بھی کچھ ایسے ہی حالات نظر آتے ہیں جہاں طلبہ کو قتل کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ طلبہ کو شو کاز نوٹس بھیجے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف طلبہ تیظیموں کا ریلی پر حملہ بھی نظر آتا ہے۔ اس کے پیچھے وجہ یہ ہے کہ طلبہ، جو پہلے ہی ڈرے سہمے ہوتے ہیں وہ مزید ڈر جائیں اور ان کے ساتھ یونیورسٹی میں جو مسئلہ ہو اس پر آواز کیا اٹھانی،بات تک نہ کریں۔
اب فیسوں میں اضافہ کیا گیا ہے تو اس پر ہمیں نہایت خاموش صورتحال نظر آتی ہے۔ لیکن آگے اس سب کے اثرات کیا ہوں گے؟ فیسوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ مختلف سہولیات میں بھی کمی کی جائیں گی۔ بسیں جو کہ ہر آدھے گھنٹے کے بعد ایک روٹ پر چلتی تھیں ان کی ایک گھنٹے بعد کی ڈیوریشن کر دی گئی ہے اور بس کے سٹاپس میں بھی کمی کر دی گئی ہے۔
یونیورسٹی میں بتایا جاتا ہے کہ طلبہ کا سب سے بڑا دشمن یہ غنڈہ گر د تنظیمیں ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے سب سے بڑی دشمن یہ سرمایہ داروں کی ریاست ہے، یہ سرمایہ درانہ نظام ہے جو کہ دو طبقات میں بٹا ہوا ہے اور وہ اس طبقاتی تقسیم کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔ دراصل یہ غنڈہ گرد تنظیمیں انہی کی زیر سایہ پلتی ہیں اور انہی کے کام کرتی ہیں۔
اس وجہ سے تمام فیسوں میں اضافہ کیا جارہا ہے اور آگے پریکٹیکل لائف میں نوکریاں بھی نہیں ہیں اور اس صورت میں ہمیں خودکشیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی جو کہ محنت کش طبقے کے لیے ایک اکلوتی یونیورسٹی تھی اس میں بھی اب ایک محنت کش حالات سے تنگ آکر اپنے بچوں کو تعلیم حاصل نہیں کروا سکتا۔ اب جب فیسوں میں اضافہ کیا گیا ہے تو یونیورسٹی میں چھٹیوں کا اعلان کردیا گیا ہے تاکہ کوئی طالب علم اس مسئلہ پر آواز نہ اٹھا سکے اور جب بھی یونیورسٹی میں ایسا کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو طلبہ تنظیموں کی آپس میں لڑائی کروا دی جاتی ہے تاکہ اصل مدعا پیچھے رہ جائے۔
اب فیسوں میں اضافے کی شروعات ہوگئی ہے تو یہ دن بدن بڑھتی چلی جائے گی۔ اگر ان پر کوئی بھی آواز نہیں اٹھائے گا تو حالات مزید سنگین ہوجائیں گے۔ اس سب کا حل یہی ہے کہ اگر پنجاب یونیورسٹی کے تمام طلبہ جن کی تعداد تقریبا49000 ہے، میں سے آدھے بھی اکٹھے ہوجائیں اور اپنے حق کے لیے لڑیں تو ہمیں کوئی بھی اپنا حق لینے سے نہیں روک سکتا۔ تعلیم تو سب کا حق ہے اور کوئی بھیک نہیں ہے، پروگریسو یوتھ الائنس کا تو یہ مطالبہ ہے کہ ’فیسوں کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے (#FeesMustEnd)‘ تاکہ ہر طالب علم جو چاہتا ہے آسانی سے پڑھ سکے۔ پیسے والوں کی یہ حکومت ایسا خود کبھی نہیں کریگی۔ یہ تب ہی ہوگا جب تمام طلبہ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں گے۔ تب ان حکمرانوں کے تمام پالتو کتے ایک کنکری سے ہی بھاگ جائیں گے۔