ملتان: خواتین کے عالمی دن پر تقریب کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|

 

پروگریسو یوتھ الائنس(PYA) اور ریڈ ورکرز فرنٹ(RWF) کی جانب سے ملتان میں عورتوں کے عالمی دن کے حوالے سے تقریب منعقد کی گئی۔ اس تقریب میں 25سے زائد افراد نے شرکت کی جن میں بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی اور ایمرسن کالج کے طلبہ کے ساتھ ساتھ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین نے بھی شرکت کی۔ تقریب کی صدارت راول اسد نے کی۔

تقریب کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے اسماء نے اس دن کی تاریخ کے حوالے سے مفصل بات کی۔ اس کے بعد عالمی محنت کش تحریک میں اس دن کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور فروری 1917ء میں پیٹرو گراڈ میں خواتین کی تاریخی ہڑتال پر بات کی اور بتایا کہ کس طرح اس ہڑتال نے روس میں انقلاب کا آغاز کیاجو بالآخر اکتوبر میں اپنے منطقی انجام تک پہنچا۔ اسماء نے روس میں قائم ہونے والی مزدور ریاست میں عورتوں کو ملنے والی آزادی پر بات کی اور بتایا کہ کس طرح اس منصوبہ بند معیشت میں جنسی تفریق کا خاتمہ اور دیگر حاصلات دی گئیں۔

سمیرا یاسین نے خواتین کو درپیش مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں خواتین پر دوہرا استحصال ہوتا ہے۔ ایک طرف اس کو جنسی بنیادوں پر تفریق اور تعصبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو دوسری جانب اگر وہ کہیں کام کرتی ہے تو سرمایہ دار انہ نظام کی وجہ سے اس کی محنت کا استحصال کیا جاتا ہے۔ مزید کہا کہ خواتین کو مردوں کی نسبت کم تنخواہ دی جاتی ہے اور ان سے کام زیادہ لیا جاتا ہے۔ سدرہ نے کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام نے جنسی تفریق کو ختم کرنے کی بجائے اس کو مزید بڑھاوا دیا ہے اور عورت ایک جنس بن کر رہ گئی ہے۔ منڈی میں دوسری اشیا کی طرح اس کی بھی خرید و فروخت ہوتی ہے۔بلکہ قریباً ہر شے کو بیچنے کیلئے عورت کے ہی کپڑے اتروائے جاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس پدر سری سماج میں اس اشتہار کو دیکھیں اور وہ شے زیادہ سے زیادہ بکے۔ مزید برآں انہوں نے سماج میں عورت کے متعلق موجود قیا نوسی تصورات پر روشنی ڈالی اور انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

نعیم مہار نے کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں بھی عورت آزاد نہیں ہوئی بلکہ آج بھی غلام ہے بلکہ دوہرے استحصال کا شکار ہے۔ آج عورت کی آزادی کا سوال بھی سرمایہ داری سے آزادی کیساتھ جڑا ہے یعنی کہ ایک سوشلسٹ انقلاب کیساتھ۔ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی پدر سری سماج اور سرمائے کی حاکمیت دونوں کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ کامریڈ صدف نے صحت کے شعبے میں محنت کش خواتین کی حالت پر بات کی۔

تقریب کے آخری مقرر فضیل اصغر کا کہنا تھا کہ لاکھوں سال انسان ایک غیر طبقاتی سماج میں رہا ہے جہاں مرد اور عورت کے درمیان کسی قسم کا کوئی مقابلہ موجود نہیں تھا۔ زراعت کے آغازکی بدولت جب پیداوار میں اضافہ ہوا اور اس پر ملکیت کا سوال ابھرا تو بالآخر خاندان کا ادارہ بھی وجود میں آیا اور اس طرح پھرطبقاتی سماج کا آغاز ہوا۔ اس طرح لاکھوں سال بعد پہلی بار انسانی سماج جہاں ایک طرف طبقات میں بٹ گیا وہیں دوسری طرف عورت کو تاریخی شکست ہوئی اور اسکا تاریخی مقام اس سے چھن گیا۔ فضیل نے محنت کش خواتین اور حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کے مفادات مابین فرق کو واضح کیا اور ان کے سماجی کردار اور انقلاب میں کردار کو واضح کیا۔ محنت کش طبقے کے اتحاد کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ فیمینزم کے کھوکھلے پن پر مفصل بات کی اور عورت کی آزادی کے سوال کو مارکسی بنیادوں پر ٹھوس انداز میں بیان کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.