|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|
ٓ
خواتین کے عالمی دن 2018ء کے موقع پر پروگریسو یوتھ الائنس(PYA) اور ریڈ ورکرز فرنٹ(RWF)کے زیر اہتمام 10مارچ کو کسان ہال لاہور میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں پنجاب یونیورسٹی،انجینئرنگ یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں سے طلبہ اور مختلف اداروں کے محنت کشوں نے شرکت کی۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض رائے اسد نے سرانجام دئیے۔ تقریب کی پہلی مقرر پنجاب یونیورسٹی سے مشعل وائیں تھیں۔
مشعل وائیں نے کہا کہ یہ دن محنت کش خواتین کی جدوجہد کا دن ہے،جب وہ اپنے حقوق کے لیے نکلی تھی اور اپنے مطالبات منوائے۔ آج جو تھوڑی بہت حاصلات خواتین کو میسر نظر آتی ہیں تو یہ انہیں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ اس سماج میں ہر انسان استحصال کا شکار ہے۔ محنت کش دن رات محنت کر کے اس سماج کو چلاتے ہیں لیکن اس کا معاوضہ مالکان اور سرمایہ دار ہڑپ جاتے ہیں۔ تمام لوگ معاشی پریشانیوں میں گھرے ہیں۔ لیکن اس ظلم کو سہنے والوں میں سے خواتین دوہرے جبر کا شکار ہیں۔ پاکستان میں محنت کش خواتین کی حالت زار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان خواتین کے برے حالات کے حساب سے آخری تین ملکوں میںآتا ہے۔ ہر دو گھنٹے میں ایک لڑکی جنسی زیادتی کا نشانہ بنتی ہے۔ اس کے علاوہ فیکٹریوں اور دیگر اداروں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔زیادہ اوقاتِ کار کے بدلے میں مرد محنت کشوں کے مقابلے میں کم سے کم اجرت دی جاتی ہے۔ اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کو انتہائی افسوس ناک رویہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ بہت سی جگہوں پر آج بھی لڑکی کی پیدائش کو ناخوشگوار واقعہ سمجھا جاتاہے۔ اگر والدین کے پاس ایک ہی بچے کی تعلیم کے اخراجات ہیں تو وہ لڑکے کا انتخاب کریں گے۔ لبرلزم اور فیمنزم پر بات کرتے ہوئے مشعل نے کہا کہ یہ لوگ عورت پر جبر کی مادی بنیادوں کو چھیڑے بغیر اسی نظام میں عورت کی آزادی کی بات کرتے ہیں۔ اس کے برعکس مارکسزم ہی ایسا نظریہ ہے جس کے ذریعے عورتوں کے مسائل کی حقیقی وجہ اور ان کے حل کو سمجھا جا سکتا ہے۔اپنی بات کے اختتام میں کہا کہ جب تک یہ نظام اور طبقاتی تقسیم برقرار ہے،تب تک عورتوں کی آزادی ناممکن ہے۔ اس کا نظام کا کاتمہ کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ سماج کی تعمیر سے ہی خواتین کی نجات ممکن ہے۔
اس کے بعد فرحان گوہر نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غم، خوشی، غصہ اور لالچ جیسے احساسات کو دیکھا اور چھوا نہیں جا سکتا لیکن ان کی وجہ مادی ہوتی ہے اور مادی حالات کو دیکھا بھی جا سکتا ہے اور تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سماجی نفسیات، اخلاقیات اور قوانین جن کی وجہ خواتین جس غلیظ رویے کا سامنا کرتی ہیں ان کی بھی مادی وجوہات ہیں اور ان مادی وجوہات کو نجی ملکیت کے خاتمے سے ختم کیا جا سکتا ہے۔
پنجاب یونیوسٹی سے سہیل راٹھور نے کہا کہ مادر سری سماج میں عورت کو مرد سے برتر سمجھا جاتا تھا۔ لیکن نجی ملکیت کے آنے کے بعد مرد کا رتبہ بڑھنا شروع ہوا اور عورت کو کم تر سمجھ کراس کا استحصال کیا جانے لگا۔ اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے خالد وزیر نے پروگریسو یوتھ الائنس کی اس کاوش کو سراہتے ہوئے کہا کہ تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس پر طلبہ اپنے حقیقی مسائل پر بحث کر سکتے ہیں اور حل کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ زین العابدین نے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ بورژوا طبقے کی خواتین کبھی بھی محنت کش طبقے کی حمایت نہیں کر سکتی بلکہ وہ خود ناصرف محکوم طبقے کی خواتین بلکہ مردوں کے استحصال میں شریک ہیں۔
تقریب کے آخری مقرر ریڈ ورکرز فرنٹ سے ولید خان تھے۔ انہوں نے سوویت یونین میں عورتوں کو ملنے والی حاصلات کے بارے میں بتایا کہ کس طرح عورتوں کو گھریلو کام کاج سے آزاد کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ طلاق اور اسقاطِ حمل جیسے حقوق عورتوں کو دیے گئے تھے۔ آج بھی دنیا بھر کی خواتین اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور پوری دنیا تحریکوں کی لپیٹ میں ہے۔ ایسے میں ایک انقلابی پارٹی کی ضرورت ہے تاکہ اس جدوجہد کو طبقاتی تقسیم کے ساتھ جوڑتے ہوئے اس زر کے نظام کا خاتمہ کرکے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ایسا سماج قائم کیا جائے جس میں عورت کو جنس کی بجائے انسان سمجھا جائے اور نسلِ انسانی کو ہر قسم کے استحصال سے نجات دلائی جائے۔
تقریب کا اختتام انٹرنیشنل گا کر کیا گیا۔