|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بلوچستان|
2 نومبر 2019 ء کو نادر علی آڈیٹوریم، گلستان روڈ کوئٹہ میں پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے ”پاکستان کا معاشی و سیاسی بحران اور اس کے اثرات“ کے عنوان پر ایک سیشن کا انعقاد کیا گیا۔ اس سیشن میں نوجوانوں کی کثیر تعداد شریک تھی جن کی اکثریت کوئٹہ کے مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں سے تھی۔
اس سیشن کو پروگریسو یوتھ الائنس بلوچستان کے صوبائی صدر خالد مندوخیل نے چیئر کیا اور ریڈ ورکرز فرنٹ بلوچستان کے آرگنائزر کریم پرھر نے سیشن کا مختصر تعارف شرکاء کے سامنے رکھا۔
سیشن سے ہزارہ سیاسی کارکنان کے چیئرمین طاہر خان ہزارہ اور عالمی مارکسی رجحان کے مرکزی نمائندہ پارس جان نے خطاب کیا۔
سیشن کا پہلا خطاب طاہر خان ہزارہ نے کیا جنہوں نے ملکی معاشی و سیاسی صورتحال کو تاریخی تناظر سے جوڑتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنے آغاز سے ایک غلام ریاست تھی جس نے برطانوی سامراج کی غلامی سے نکل کر سیدھا امریکی غلامی کا طوق گلے میں ڈالا۔ ا نہوں نے مزید کہا کہ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک کے طور پر معرضِ وجود میں آیا جو ایک جھوٹ سے زیادہ کچھ نہیں بلکہ یہ سامراجی ایجنڈے پر بنائی گئی ایک ریاست ہے۔ طاہر خان ہزارہ نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کا ذمہ دار ملک کے حکمران طبقے کو ٹھہرایا اور کہا کہ ملک کا موجودہ حکمران طبقہ غریب عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔
تاریخی تناظر سے جوڑتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنے آغاز سے ایک غلام ریاست تھی جس نے برطانوی سامراج کی غلامی سے نکل کر سیدھا امریکی غلامی کا طوق گلے میں ڈالا۔ ا نہوں نے مزید کہا کہ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک کے طور پر معرضِ وجود میں آیا جو ایک جھوٹ سے زیادہ کچھ نہیں بلکہ یہ سامراجی ایجنڈے پر بنائی گئی ایک ریاست ہے۔ طاہر خان ہزارہ نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کا ذمہ دار ملک کے حکمران طبقے کو ٹھہرایا اور کہا کہ ملک کا موجودہ حکمران طبقہ غریب عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔
سیشن کا دوسرا خطاب عالمی مارکسی رجحان سے پارس جان نے کیا۔ انہوں نے ملکی معاشی صورتحال پر تفصیلی بحث کی۔ پارس جان نے کہا کہ پاکستان کا موجودہ حکمران طبقہ اپنی عیاشیوں اور منافع کی خاطر آئی ایم ایف کی مزدور دشمن پالیسیوں کو یہاں کے محنت کش طبقے پر لاگو کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں تبدیلی سرکار ”ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے“ کے نام پر تمام سرکاری ادارے جن میں صحت اور تعلیم سر فہرست ہیں، کو بیچ رہی ہے۔ اس نجکاری کے خلاف پنجاب میں گرینڈ ہیلتھ الائنس کی جانب سے احتجاجی تحریک کا آغاز ہوچکا ہے۔ اسی طرح پختونخواہ میں بھی شعبہ صحت کے ملازمین سڑکوں پر ہیں۔ شعبہ صحت کے علاوہ دیگر اداروں کے محنت کش بھی آج نجکاری کے خلاف جدوجہد میں ہیں، مثلا اساتذہ، واپڈا، وغیرہ۔
اسکے علاوہ انہوں نے پاکستان کے زراعت اور صنعتی شعبے کی زوال پذیری پر تفصیل سے بات کی۔ اسی طرح پورے ملک میں رئیل اسٹیٹ اور بینکنگ سیکٹر میں سرمایہ کاری پر بھی بات کی۔ معاشی بحران کے سماج پر پڑنے والے اثرات پر مفصل بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک بھر میں سیاسی پارٹیاں شدید بحران کا شکار ہیں، جو کہ عوام میں اپنی ساکھ مکمل طور پر کھو چکی ہیں۔ اسکے علاوہ انہوں نے موجودہ سیاسی بحران کا ذکر کرتے ہوئے اسلام آباد میں حکمران طبقے کے آپسی تضادات کی بدولت ہونے والے نام نہاد ”آزادی مارچ“ پر روشنی ڈالی۔
بحث کو سمیٹتے ہوئے پارس جان نے عالمی اور ملکی صورتحال اور اس میں بڑھتی ہوئی انقلابی تحریکوں اور انقلابی قیادت کے فقدان اور اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم جس دور میں رہ رہے ہیں اس دور میں انقلابی قیادت کی عدم موجودگی انتشار کے علاوہ اور کوئی راستہ فراہم نہیں کرتی۔
آخر میں سوالات کا سیشن چلا جسکے جوابات پارس جان نے تفصیل سے دیے۔ یوں مری آباد میں پروگریسو یوتھ الائنس کے پہلے کامیاب پروگرام کا اختتام ہوا۔