|رپورٹ: یونائیٹڈ سٹوڈنٹس فیڈریشن|
30 اکتوبر 2019ء کو شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی کے طلبہ نے اپنے مطالبات (نیچے درج ہیں) کیلئے احتجاج کیا۔ طلبہ کے احتجاج کے دوران ہی یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے پولیس کے ذریعے شدید لاٹھی چارج اور شیلنگ کرائی گئی۔
ان مسائل کی حل کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ نے گزشتہ ماہ طلبہ کے احتجاج کرنے پر یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ انکے مطالبات کو پورا کرے گی۔ پر ہمشیہ کی طرح انتظامیہ نے مسائل کو حل نہیں کیا، جس کے سبب جب طلبہ نے تنگ آ کر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا تو یونیورسٹی انتظامیہ نے مسائل کو حل کرنے کی کوشش یا طلبہ سے بات کرنے کی بجائے ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی ملی بھگت سے طلبہ پر جابرانہ تشدد کرایا۔ لاٹھی چارج اور شیلنگ اس قدر شدید تھی کہ درسگاہ ایک میدان جنگ دکھ رہی تھی۔
اس تشدد کی زد میں آکر چھ طلبا و طالبات زخمی ہوئے۔ ایک طالب علم کی حالت تشویش ناک صورت اختیار کر گئی جس کے سبب اس کو حیدرآباد منتقل کیا گیا۔ احتجاجی قیادت سے تعلق رکھنے والے کامریڈ عاقب نقوی نے طالب علموں کے سامنے موقف رکھتے ہوئے کہا کہ طلبہ پر جابرانہ تشدد اس حکمران طبقے کے گھناؤنے چہرے کو بے نقاب کرتا ہے۔ اس تشدد سے یہ صاف ظاہر ہوگیا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ اور یہاں کا حکمران طبقہ اب تشدد کے ذریعے فیسوں کو بڑھا کر محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ سے تعلیم چھننا چاہتا ہے۔ اس واقعے نے ایک بار پھر طلبہ یونین کی ضرورت اور اہمیت کو واضح کیا ہے۔ جو ان اداروں میں طلبہ نمائندگی کی حقیقی ضامن ہوگی اور طلبہ دشمن فیصلوں پر ضرب بھی۔ میں اس احتجاج کی نسبت سے تمام طلبہ سے اپیل کرتا ہوں کہ اب ملک گیر منظم تحریک بنا کر اپنے حقوق کے لیے مزاحمت کی جائے۔
بالآخر جب لاٹھی چارج اور شیلنگ سے بھی طلبہ کو انکے جائز حقوق مانگنے سے پیچھے نہ ہٹایا جا سکا اور طلبہ کے اندر اس واقعہ کے بعد غم و غصہ میں اضافے کو دیکھ کر یونیورسٹی انتظامیہ نے فورا گھٹنے ٹیک لیے اور تمام مطالبات کو تسلیم کیا اور انکو حل کرانے کی یقین دہانی کرائی۔ اسی طرح یہ بھی کہا گیا کہ واقعہ کے تمام ذمہ داران کے خلاف فوری کاروائی کی جائے گی۔ یہ یقینا طلبہ کی بہت بڑی جیت ہے۔ ایسی جیت جو انہیں اور ان جیسے کئی اور طلبہ کو اس بات کا احساس دلائے گی کہ آج صرف مزاحمت کے ذریعے ہی اپنے جائز حقوق حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ یہاں کے حکمران طبقے نے آج اس بات کا فیصلہ کر لیا ہے کہ معاشی بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش عوام پر ڈالنا ہے۔صحت اور تعلیم پر کاروبار کرنا ہے اور غریب کے منہ سے نوالہ، بدن سے کپڑا، سر سے چھت اور غریب کے بچوں سے تعلیم چھین لینی ہے۔
دوستو! اگر حکمران طبقہ آج نام نہاد ’آئین و قانون‘ کو بھی ایک طرف رکھ کر کھلے جبر کے ذریعے ہم سے تعلیم چھین رہا ہے تو جواب میں ہمیں بھی آج جدوجہد کے ذریعے اس سے اپنے جائز حقوق چھیننے ہوں گے۔
حق مانگنا توہین ہے، حق چھین لیا جائے!
مطالبات
1۔ ایک سپلی پر ٹرم بیک(یعنی ایک سمیسٹر کے پیپر کو رد کرنا) کو ختم کیا جائے۔
2۔ فائنل ائیر کے طلبہ کو پاکستان کا ٹوور کرایا جائے جو دیگر تمام یونیورسٹیوں میں کرایا جاتا ہے۔
3۔ دیگر اداروں کے طلبہ کو یونیورسٹی میں داخلے کی اجازت دی جائے (طلبہ کو صرف اس شرط پر غیر حاضر لکھا جائے جب وہ کلاس نہ لیں)۔
4۔ غریب طلبہ کو مدد کرنے کے لیے طلبہ سوسائٹی بنانے کی اجازت دی جائے۔
5۔ہر مسئلے پر دیگر دفاتر کی جگہ ڈپارمنٹ میں ہی مسائل کے حل کے لیے سہولت مہیا کی جائے۔
6۔ فیسوں کو کم کر کے اس سطح پر لایا جائے جس سے محنت کش طبقے کے طلبہ بھی پڑھ سکیں۔
7۔ فیس میں اضافہ فی الفور واپس لیا جائے۔
8۔ ڈپارمنٹس میں صاف پانی کی سہولت دی جائے۔
9۔ لیپ ٹاپ کی تقسیم شفاف طریقے سے کی جائے۔
10۔ کریڈٹ آورز ایچ ای سی کی پولیسی کے مطابق رکھے جائیں۔
11۔ لائبریری اور ڈسکشن کے لیے تقریبا 8 مزید کمرے فراہم کیے جائیں۔
12۔ غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے وقت دیا جائے۔
13۔ گرلز اور بوائز ہاسٹلوں میں بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔
Pingback: Progressive Youth Alliance – بولان میڈیکل کالج اور قوم پرستی کا المیہ