کشمیر:مظفرآباد یونیورسٹی میں طلبہ کے پر امن احتجاج پر پولیس کا لاٹھی چارج

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کشمیر|

 

کچھ دن قبل مظفرآباد یونیورسٹی کے طلبہ نے اپنے مطالبات کیلئے یونیورسٹی کے اندر احتجاج کیا۔ طلبہ کے مطالبات مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔ ٹرانسپورٹ کے مسائل کو حل کرنا
2۔ڈیجیٹل چالان جاری کرنا
3۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے طلبہ کے ساتھ تحقیر آمیز رویے کا خاتمہ
4۔ مکمل ایس او پیز کے تحت فزیکل امتحانات کا قیام

احتجاج کو ختم کرنے کیلئے یونیورسٹی انتظامیہ نے ٹال مٹول کا حربہ اپناتے ہوئے جو ہر یونیورسٹی انتظامیہ کا وطیرہ ہے، طلبہ سے وقت مانگ کر ان مطالبات کو پورا کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔ مگر اس پر کسی بھی قسم کے عمل درآمد کے نہ ہونے کی صورت میں وقت پورا ہونے پر میں طلبہ نے ان ہی مطالبات کے گرد آج 15 فروری کو دوبارہ احتجاج کیا۔ اس انتہائی پرامن احتجاج پر یونیورسٹی انتظامیہ کے کہنے پر تینوں کیمپسز میں بھاری تعداد میں پولیس حملہ آور ہوئی۔ یونیورسٹی کے اندر گھس کر طلبہ پر بدترین لاٹھی چارج اور شیلنگ کی گئی جس کی وجہ سے کافی طلبہ زخمی ہوئے اور کافی طلبہ کو گرفتاربھی کیا گیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے اس قابلِ شرم عمل کا جواز یہ بنایا ہے کہ طلبہ آن لائن امتحانات کامطالبہ کر رہے تھے۔ اگر یہ مطالبہ تھا بھی تو پروگریسو یوتھ الائنس اس مطالبے کی مکمل حمایت کرتا ہے مگر طلبہ کا کہنا ہے کہ آن لائن امتحانات کے حوالے سے جھوٹا پروپیگینڈا کیا جارہا ہے۔ ہمارا امتحانات کے حوالے سے یہ مطالبہ تھا کہ اگر فیزکل امتحانات لیے جارہے ہیں تو مکمل ایس او پیز کے تحت لئے جائیں۔ہمارے جو دیگر مطالبات تھے جن میں ٹرانسپورٹ کے مسائل، ڈیجیٹل چالان، اور انتظامیہ کا رویہ ان جائز مطالبات کو پورا کرنے کے بجائے یونیورسٹی انتظامیہ آن لائن امتحانات کا جھوٹا پروپیگینڈا کر رہی ہے۔ ہم اپنے جائز مطالبات حاصل کیے بغیر پیچھے نہیں ہٹیں گے اور نہ لاٹھی اور گولیوں سے ہمیں ڈرا یا جا سکتا ہے۔ ہم دوبارہ منظم ہو کر ان ہی مطالبات کے گرد احتجاج کریں گے۔

دو روز قبل جامعہ میرپور میں بھی احتجاج کے خوف سے یونیورسٹی انتظامیہ نے رات گئے جامعہ میں پولیس گھسا کر طلبہ کو ہراساں کرنے کی کوشش کی لیکن طلبہ نے منظم ہو کر انہیں کچھ دیر بعد جامعہ کے احاطے سے باہر نکال دیا تھا۔اور ایسے ہی کچھ واقعات پورے پاکستان میں ہر تعلیمی ادارے بخصوص یونیورسٹیوں میں دیکھے جاسکتے ہیں جس کی ایک بڑی مثال پنجاب یونیورسٹی میں انتظامیہ کی لاگو کردہ بوگس لڑائیوں کی صورت میں ہر وقت پولیس کا یونیورسٹی می موجود ہونا ہے۔ حالانکہ کے آئین کے مطابق پولیس یونیورسٹی کی حدودد میں داخل نہیں ہوسکتی، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ آئین اور یہ سکیورٹی ادارے عام لوگوں کی حفاظت کیلئے نہیں بلکہ ان کو زدوکوب کرنے کیلئے بنائے گئے ہیں۔

آئے روز تعلیمی اداروں میں طلبہ کو دبانے اور ڈرانے دھمکانے کیلئے انتظامیہ انتہائی اقدام اٹھا رہی ہے جس کی مثال ہمیں آج مظفرآباد میں نظر آتی ہے۔پروگریسو یوتھ الائنس سمجھتا ہے کہ یہ ریاست اور اس کے ادارے عوام کو ان کے بنیادی حقوق دینے میں مکمل ناکام ہو چکے ہیں۔ اس لیے ایسے گھٹیا ہتھکنڈے اپنا کرتما مسائل کو نہ صرف پس ِ پشت ڈالاجا رہا ہے بلکہ انتظامیہ کی طرف سے مکمل ہٹ دھرمی اور سردمہری کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ ایسے میں طلبہ کو  ہر تعلیمی ادارے میں ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد بناتے ہوئے ان تمام حملوں کے خلاف منظم جدوجہد کرنا ہوگی۔ جیسے میر پور یونیورسٹی میں طلبہ نے منظم ہو کر پولیس کو یونیورسٹی سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ یہ طلبہ کی جڑت کی طاقت کی واضح مثال ہے۔ اسی طرح ایک پلیٹ فارم پر منظم ہوتے ہوئے ان تمام تر مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس جامعہ مظفرآباد میں ہونے والے واقع کی بھرپور مذمت کرتا ہے،پروگریسو یوتھ الائنس شروع دن سے طلبہ کی ہر جدوجہد میں ان کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور ان مسائل کے حل تک اس جدوجہد کو جاری رکھتے ہوئے طلبہ کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا۔

طلبہ اتحاد زندہ باد!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.