پشاور: یونیورسٹی فیسوں میں اضافے کیخلاف طلبہ کا احتجاج

|رپورٹ: خالد مندوخیل|

یونیورسٹی فیسوں میں اضافے، تعلیمی اداروں کی نجکاری اور ہر قسم کے تعلیمی جبر اور مہنگائی کے خلاف 11اکتوبر کو پشاور یونیورسٹی کے طلبہ نے ملاکنڈ سٹوڈنٹس سو سائٹی کی کال پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس دوران طلبہ نے فیسوں میں اضافے اور یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ طلبہ کا کہنا تھا کہ آئے روز فیسوں میں ہونے والا یہ اضافہ غریب طلبہ پر تعلیم کے دروازے بند کرتا جارہا ہے۔ تعلیم جو بنیادی حق ہے، اس کو کاروبار بنا لیا گیا ہے۔ احتجاجی طلبہ کا کہنا تھا کہ ہمارا احتجاج قائد اعظم یونیورسٹی میں جاری طلبہ کی ہڑتال کا ہی تسلسل ہے۔

پشاور یونیورسٹی جو کہنے کو تو ایک سرکاری یونیورسٹی ہے لیکن ہر سال یہاں فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ رولز اینڈ ریگولیشن کے نام پر طلبہ پر جبر کی انتہا کردی گئی ہے۔ سال بھر کی مختلف امتحانی فیسیں بمع ہاسٹل اخراجات کو کل ملا کر اندازہ لگایا جائے تو تعلیم ایک غریب طالبعلم کی دسترس سے باہر ہوچکی ہے۔ ہر سال بڑھتی ہوئی تعلیمی مہنگائی کی حالت یہ ہے کہ سال 2013-17ء کے دوران زیر تعلیم طلبہ نے اپنی پہلے سمسٹر میں 16سے 17ہزار ڈیپارٹمنٹل فیس جمع کرائی تھی۔ جبکہ سال2017میں انہیں اپنے آخری سمسٹر میں 26سے 29 ہزار روپے تک فیس جمع کرانی پڑی اور یہی حالت تمام ڈیپارٹمنٹس میں ہے جہاں تین سے چار ہزا ر تک ٹیوشن فیس میں اورکل ملا کر چار ہزار تک ہاسٹل فیس میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ داخلہ فیس کے نام پر پہلے سمیسٹر میں 8سے 10ہزار روپے تک لیا جاتا ہے اور 8ہزار ہاسٹل میں داخلہ فیس اور سیکورٹی کے نام پر لیا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ہاسٹلوں کا انفرا سٹرکچر تباہ ہو چکاہے اور ہاسٹلوں میں سٹڈی رومز کو کسی کھنڈر سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جہاں کرسی سے لیکر ٹیبل،پنکھے اور صفائی وغیرہ کی حالت تک تمام طلبہ کے سامنے ہے۔ 

مظاہرین نے اپنی تقاریرمیں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ پشاو یونیورسٹی میں جہاں ایک طرف بجٹ خسارے کا خمیازہ طلبہ اور ان کے والدین کو بے تحاشہ فیسوں کی شکل میں بھگتناپڑرہا ہے تو دوسری طرف انتظامیہ نے کلاس رومز میں طلبہ کی تعداد کو کم کرنے کا غیر انسانی اور بد معاش منصوبہ بھی بنا رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے بہت سے طلبہ کو تعلیم سے محروم کر دینے کا امکان نظر آتا ہے۔ چونکہ تعلیمی اداروں کی کمی کے باعث ان کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس تعلیمی جبر اور ظلم کو تسلسل کے ساتھ آگے بڑھاتے ہوئے پشاور یونیورسٹی کی انتظامیہ سال 2017ء میں ایک بار پھرتعلیمی فیسوں میں ناقابل برداشت اضافہ کر چکی ہے۔ بجٹ خسارے کے نام پر عام تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ یونیورسٹی میں دوسرے ترقیاتی کامو ں کے ا خراجات کی وجہ سے خسارہ پورہ نہیں ہو پا رہا اور اس بنیاد پر انتظامیہ خود اس کی ذمہ داری لینے کے بجائے طلبہ اور والدین سے بجٹ خسارہ پورہ کرایا جارہا ہے جو کہ ایک غریب آدمی پر تعلیم کے دروازے بند کرنے کے مترادف ہے۔

12اپریل کے پاکستانی ڈان اخبار کے ایک آرٹیکل کے مطابق یونیورسٹی کے ساتھ جڑے سکولوں میں فیسوں کے اضافے کے خلاف عوامی احتجاج کو نظر انداز کیا جا رہاہے اور ساتھ میں پشاور یونیورسٹی سے جڑے کالجوں میں بھی فیسوں میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ وائس چانسلر پشاور یونیورسٹی نے صحافیوں کو بتایا کہ چونکہ یونیورسٹی خسارے میں ہے اس لئے ہمیں ایسا کرنا پڑ رہا ہے اور 27مارچ کوKGسے 10thکلاس تک داخلہ فیس 3000سے 18000بڑھانے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا جس پر والدین اور طلبہ نے شدید احتجاج کیا۔

اس کے علاوہ اگر ایک طرف خیبر پختونخوا حکومت نے تبدیلی کے نام پر لفاظی اور ڈھونگ مچا رکھا ہے تو دوسری طرف یہ خود تعلیمی اداروں کو نجی سرمایہ دار درندوں کے ہاتھوں بیچنے جا رہی ہے جس کا واضح ثبوت حالیہ عرصے میں ہونے والے سکول ٹیچرز کا احتجاج اور کالج کی ٹیچر کی جاری ہڑتال ہے۔ 

پشاور یونیورسٹی کے طلبہ وقتاً فوقتاً اس ظلم اور جبر کے خلاف نکلتے اور احتجاج کرتے رہے ہیں اور اس تعلیمی دہشت گردی اور مہنگائی کے خلاف آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ طلبہ اگر ایک طرف اس جبر اور ظلم سے تنگ آکر ایک مایوسی اور بے راہ روی کا شکار ہیں تو دوسری طرف ان میں اس ظلم کے خلاف سخت نفرت اور غصہ بھی موجود ہے۔ یقیناًطلبہ مفت تعلیم، روزگار اور اچھی صحت چاہتے ہیں لیکن سوال صرف ان کے سامنے یہ ہو تا ہے کہ کیا وہ کسی اس قسم کی تبدیلی کا امکان دیکھتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ ہمیں پچھلے سال 2016ء میں متحدہ طلبہ محاذ پشاور یونیورسٹی سے لگانا چاہئے کہ کچھ ہی دنوں میں 3سے4ہزار طلبہ کیسے اس جبر کے خلاف متحرک ہو گئے تھے۔ ملاکنڈ سوسائٹی کے صدر عصمت شاہ نے پریس کلب کے سامنے صحافیوں سے گفتگوں کرتے ہوئے یہ بات کی کہ ہم پچھلے سال کے طلبہ تحریک اور آج قائد اعظم یونیورسٹی میں جاری احتجاج کا تسلسل ہیں اورہم ان سے اظہار یکجہتی بھی کرتے ہیں ۔

طلبہ ریلی کی شکل میں یونیورسٹی کیمپس سے مارچ کرتے ہوئے یونیورسٹی گیٹ تک پہنچے اور اس تعلیمی جبر اور مہنگائی کے خلاف خوب نعرے بازی کی۔ اس کے بعد ریلی پریس کلب روانہ ہوئی اور وہاں اپنا بھر پور احتجاج ریکارڈ کرایا۔ ملاکنڈ سوسائٹی کے ایک طالبعلم افسر الملک افغان نے طلبہ سے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا صوبہ خاص طور پر پہلے ہی سے دہشت گردی اور بدحالی کا شکار ہے اور جب یہاں کی عوا م اپنی اس کالی تقدیر کو بدلنے کی خاطر تعلیم حاصل کرنے کے لئے قلم اور کاغذ کی تلاش کرتے ہیں تو اس ریاست کی اس قسم کی تعلیمی پالیساں، مہنگائی اور انتظامیہ کی بدمعاشی اس طریقے سے ان کے ہاتھ سے قلم اور کاغذ چھینتے ہیں جس کا حتمی نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ ہم پھر بے روزگاری اور دہشت گردی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ 

مظاہرین نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے فوراً فیسوں میں اضافہ واپس لینے،مفت تعلیم کو آرٹیکل 25Aکے تحت یقینی بنانے ، یونیورسٹی میں مفت ٹرانسپورٹ کی فراہمی اور ہاسٹلوں میں صفائی کے ساتھ ساتھ سٹڈی رومز کی بحالی کے مطالبات کئے اور ساتھ میں ان سب مسائل کے خلاف جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لئے طلبہ یونین کی بحالی کی طرف آگے بڑھنے کے لئے یونیورسٹی کے باقی تمام طلبہ سے اپیل کی کہ اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لئے میدان میں اتر کر ہمیں خود ہی آواز اٹھا تے ہوئے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود ہی کرنا ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.