|منجانب: پروگریسو یوتھ الائنس، پشاور|
پشاور یونیورسٹی سنڈیکیٹ کمیٹی نے گذشتہ روز ہونے والے اجلاس کے بعد امسال فیسوں میں ہونے والا 10فیصد اضافہ واپس لے لیا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ یونیورسٹی کی فنانس کمیٹی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے ’نئے رستے‘ تلاش کرے گی۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے اس فیصلے کے بعد متحدہ طلبہ محاذ اس کو اپنی بڑی کامیابی بنا کر پیش کررہا ہے کہ یہ ان کی سخت ’جدوجہد‘ کا نتیجہ ہے اور ان کی محنت رنگ لے آئی ہے۔ لیکن حقیقت میں انتظامیہ اور ان طلبہ تنظیموں کے مابین کوئی اختلاف نہیں بلکہ یہ ہمیشہ سے بقائے باہمی کی بنیاد پر ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے آرہے ہیں۔ یہ کوئی ’بڑی اورحیران‘ کردینے والی خبر ہرگز نہیں کیونکہ ہم پہلے ہی اس منطقی نتیجے کو بیان کرچکے ہیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس نے اس نام نہاد دھرنے کے آغاز سے ہی واضح اور دوٹوک موقف رکھا تھا کہ یہ طلبہ تحریک کو ہائی جیک کرنے کی ریاستی کوشش ہے اور یہ نام نہاد طلبہ تنظیمیں جن میں اسلامی جمعیت طلبہ، انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن اور پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن سرفہرست ہیں، یونیورسٹی انتظامیہ کی آلہ کار ہیں۔
قائد اعظم یونیورسٹی کی کامیاب ہڑتال کے بعد ملک کی قریباً سبھی یونیورسٹیوں میں فیسوں میں اضافے اور دیگر مسائل کے خلاف ایک بحث موجود ہے اور اسی تسلسل میں پشاور یونیورسٹی میں بھی اس دھرنے کے آغاز سے قبل اس بے چینی کا سطح پر اظہار ہونا شروع ہوا اور کئی خودرو احتجاج بھی ہوئے۔ طلبہ میں بھی اس فیصلے کے خلاف شدید غم و غصہ اور بے چینی موجود تھی۔ اس سے پیشتر کہ یہ احتجاج ایک تحریک یا ہڑتال کی صورت اختیار کریں اور معاملات انتظامیہ کے کنٹرول سے باہر ہوں، یونیورسٹی انتظامیہ نے اس کو اپنی نمائندہ تنظیموں کے ذریعے ہائی جیک کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ عمومی موڈ کو بھانپتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ فیسوں میں اضافے کے فیصلے کو برقرار نہیں رکھ سکتی تھی۔ اگر یونیورسٹی انتظامیہ خود ہی اس فیصلے کو واپس لے لیتی تو اس سے طلبہ کے حوصلے مزید بلند ہوتے اور ان کو مزید شکتی ملتی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ملک کے دیگر طلبہ کے لئے بھی مثال بنتی۔ ایسی صورتحال میں یونیورسٹی انتظامیہ نے آزمودہ نسخہ استعمال کرتے ہوئے اس کا کریڈٹ اپنی نمائندہ تنظیموں کے کھاتے میں ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے پیچھے دو بنیادی مقاصد تھے۔ ایک تو یہ کہ ان طلبہ تنظیموں کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کی جاسکے اور دوسرا یہ کہ طلبہ تحریک کو کنٹرول کیا جاسکے۔ ایساکوئی پہلی بار نہیں ہوا۔ محنت کشوں کا اس صورتحال سے اکثر واسطہ پڑتا ہے کہ جب انتظامیہ یہ دیکھتی ہے کہ محنت کش اپنے مطالبات کے لئے متحرک ہو رہے ہیں تو اپنی منظور نظر ٹریڈ یونین قیادت سے ڈیل کرکے انہی مطالبات کے حق میں دو چار احتجاجی مظاہرے کروا کر ان مطالبات کو منظور کرلیا جاتا ہے یوں غدار قیادت پھر سے محنت کشوں پر مسلط کردی جاتی ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے طلبہ کو اس صورتحال کو سمجھنے اور طلبہ میں موجود ان غداروں کو پہچاننے اور ان کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بڑھتے معاشی بحران کے نتیجے میں تعلیمی بجٹ مسلسل کم کیا گیا ہے اور سارا کا سارا بوجھ طلبہ اور ان کے والدین پر ڈالا جارہا ہے۔ ایسے میں اس کے خلاف درست نظریات پر ایک مسلسل انقلابی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ اس نوٹیفیکیشن میں بھی واضح طور پر لکھاگیا ہے کہ یونیورسٹی مالی اخراجات پورا کرنے کے لئے نئے رستے تلاش کرے گی جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ بظاہر تو یہ اضافہ واپس لے لیا گیا ہے مگر کسی نئے طریقے سے اس لوٹ مار کو جاری رکھا جائے گا۔ اس صورتحال میں اس لڑائی کو مفت تعلیم کی لڑائی کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔ پروگریسویوتھ الائنس طلبہ حقوق کی اس لڑائی کو پورے پاکستان میں جاری رکھے ہوئے ہے اور طلبہ تحریک کو نظریاتی بنیادوں پر منظم کرنے کے لئے کوشاں ہے۔