ملتان: ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان| 

نیشنل مارکسی سکول(کشمیر) کی تیاریوں کے سلسلے میں پروگریسو یوتھ الائنس کے زیر اہتمام 11 اگست 2017ء کو ملتان میں ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا۔ سکول مجموعی طور پر دو سیشنز پر مشتمل تھا۔ پہلا سیشن عالمی تناظر پر تھا جس کو چئیر جئیند بلوچ نے کیا جبکہ لیڈ آف وقاص سیال نے دی۔

عالمی تناظر پر بات کرتے ہوئے وقاص سیال نے کہا کہ آج عالمی سیاست اور سماج میں اس قدر تیز ترین تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں کہ محدود وقت میں تمام واقعات پر تفصیل سے بات کرنا ناممکن ہے۔ ابھی ایک بڑا واقع عالمی میڈیا کی زینت بنا ہوا ہوتا ہے کہ اچانک ایک اور بڑا واقع رونما ہو جاتا ہے۔ اور اسی طرح ان واقعات کا سلسلہ مسلسل رواں دواں ہے۔ آج دنیا کا کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں غیر معمولی واقعات نہ ہو رہے ہوں۔چاہے وہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد پوری دنیا پر امریکی سامراج کے غلبے کا خاتمہ ہو، ڈونلڈ ٹرمپ جیسے پاگل انسان کا امریکہ کا صدر بننا ہو، امریکہ جیسے ملک میں برنی سینڈرز کی صورت میں سوشلزم کی نوجوانوں اور محنت کشوں میں مقبولیت ہو، برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی ہو، برطانیہ میں جیریمی کوربن کی صورت میں سوشلزم کی مقبولیت ہو اور خاص طور پر جیریمی کوربن کی حالیہ الیکشن میں شاندار کارکردگی ہو،یورپی ممالک جیسے سپین ، فرانس، یونان وغیرہ میں درمیانی یا میانہ روی کی سیاست کے خاتمے کیساتھ انتہائی دائیں اور انتہائی بائیں بازو کی سیاست کا ابھار ہو، جرمنی جیسے ملک میں لاکھوں لوگوں کا G20 Summit کے خلاف احتجاج ہویا پھر سعودی عرب کے شاہی خاندان کی ٹوٹ پھوٹ ہو الغرض آج ہمیں دنیا ایک نئے عہد میں داخل ہوتے ہوئے نظر آتی ہے۔ ایک ایسے عہد میں جس میں سکوت، امن اور استحکام کی جگہ تیز ترین تبدیلیاں، شدید سماجی دھماکے اور انتشار نے لے لی ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سرمایہ دارانہ نظام کا شدید ترین بحران ہے ۔جس کا آغاز 2008ء میں ہوا تھا اور جس سے اب تک عالمی معیشت باہر نہیں نکل پائی بلکہ اب تو ایک اور بحران کی پیشن گوئی کی جارہی ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ 2008ء کے معاشی بحران سے بھی بلند پیمانے پر ہو گا۔ لہٰذا اب دنیا اس نئی صورت حال میں ہی رہے گی جس میں شدید سیاسی اور سماجی تبدیلیاں ، احتجاج، ہڑتالیں، انقلابات اور رد انقلابات معمول ہونگے۔ آج کا عہد انقلابیوں سے جرات کا تقاضہ کرتا ہے کہ وہ آگے بڑھ کر محنت کش طبقے کو اس اندھیرے سے نکلنے کی نہ صرف راہ دکھائیں بلکہ جرات کیساتھ محنت کش طبقے کی جدوجہد کو لیڈ کریں اور اس دنیا سے غربت، بے روزگاری، جہالت، دہشت گردی اور قتل و غارت کا خاتمہ ایک سوشلسٹ انقلاب کی صورت میں کریں۔ وقاص کی لیڈ آف کے بعد سوالات اور کنٹریبیوشنز کے سلسلے کا آغاز ہوا ۔ یونس وزیر، روال اسد، نعیم مہار، فضیل اصغر اور ماہ بلوص اسد نے سوالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بحث میں حصہ ملایا ۔ اس کے بعد وقاص سیال نے تمام تر بحث کو سمیٹا۔

دوسرا سیشن ’’روس: انقلاب سے رد انقلاب‘‘ کے موضوع پر تھا۔ اس سیشن کو چیئر معاذ اعظم نے کیا اور لیڈ آف راول اسد نے دی ۔ راول نے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 1917ء میں دنیا میں ایک غیر معمولی واقع وقوع پزیر ہوا تھا جس میں پہلی بار ایک بڑے خطے میں محنت کشوں نے اپنی حکومت قائم کی۔ان محنت کشوں نے جن کو جاہل اور ان پڑھ کہا جاتا ہے۔ اور اس مزدور ریاست نے حیرت انگیز ترقی کر کے دنیا کو دکھایا کہ مزدور سماج کا سب سے ترقی پسند طبقہ ہے اور یہ ثابت کیا کہ منافعوں اور مقابلہ بازی کے بغیر نہ صرف سماج کو چلایا جا سکتا ہے بلکہ حیرت انگیز طور پر سماج کو ترقی دی جا سکتی ہے۔ اسی خوف سے حکمران طبقہ تب بھی روس انقلاب کے خلاف تھا اور آج 100 سال گزر جانے کے بعد بھی اسکے خلاف غلیظ پروپیگنڈا کر رہا ہے۔آج ہمیں اس غلیظ پروپیگنڈے کا کھل کر جواب دینا ہو گا اور نوجوانوں اور محنت کشوں کو روس انقلاب کی حقیقت سے آگاہ کرنا ہوگا۔ اگر روسی سماج کی تاریخ کے حوالے سے بات کی جائے تو روسی سماج ایک انتہائی پسماندہ سماج تھا۔ روسی سماج میں سرمایہ داری کے ساتھ ساتھ نیم جاگیر دارانہ رشتے تھے اور آبادی کی اکثریت مزارعوں اور کسانوں پر مشتمل تھی جبکہ وہاں زار کی بادشاہت تھی۔ روسی سماج میں انتہائی گھٹن کا ماحول تھا۔ انتہائی گھٹن کے ماحول میں بھی روسی سماج میں وقتاً فوقتاً بغاوتیں ہوتی رہیں۔ اور ان بغاوتوں کا کردار اور طریقہ کار بھی مختلف ادوار میں مختلف رہا۔ اسی عمل میں مختلف گروپ ، تنظیمیں اور پارٹیاں بنیں۔ اور اسی طرح ان میں ایک پارٹی روسی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی تھی جس کی بنیاد مارکسزم پر تھی۔ 1903 میں اس پارٹی میں سپلٹ ہوئی اور دو دھڑے وجود میں آئے۔ایک بالشویک اور دوسرا منشویک۔ یہیں سے بالشویک پارٹی کی ابتداء ہوئی جس نے اکتوبر 1917ء میں روس میں انقلاب کیا۔ 

This slideshow requires JavaScript.

روس میں بنیادی طور پر تین انقلابات ہوئے ۔ ایک 1905ء میں اور دو انقلابات 1917ء (فروری اور اکتوبر) میں ہوئے۔ 1917ء اکتوبر کا انقلاب سوشلسٹ انقلاب تھا جس کی قیادت بالشویک پارٹی نے کی تھی۔ اسکے بعد راول نے فروری انقلاب کے کردار پر بات کی اور بھر فروری انقلاب سے لے کر اکتوبر انقلاب تک کے دورانیہ میں ہونے والی سماجی اور سیاسی تبدیلیوں پر بات اور پھر اکتوبر انقلاب کے کردار پر بات کی۔ اسکے بعد راول نے اکتوبر انقلاب کے خلاف اندرونی اور بیرونی (سامراجی) یلغار پر روشنی ڈالی۔ اور سٹالنزم کے ابھار پر بات کی اور یہ بتایا کہ کن مخصوص معروضی حالات میں سٹالنزم کا ابھار ہوا۔اور آخر میں سویت یونین میں ہونے والی حیرت انگیز ترقی کے بارے میں بھی تفصیلاً بات کی اور یہ بتایا کہ ایک مسخ شدہ مزدور ریاست میں بھی اس قدر حیرت انگیز ترقی ہوئی کہ وہ کچھ ہی عرصے میں امریکہ جیسی سپر پاور کے مقابلے میں جا کھڑا ہوا اور اسی دوران جنگ عظیم دوم میں نازی جرمنی کو عبرت ناک شکست بھی دی۔ آج بھی روسی انقلاب ہمارے لیے ایک مشعل راہ ہے۔ 
اسکے بعد سوالات اور کنٹریبیوشنز کا سلسلہ شروع ہوا۔ سوالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اور وقت کی قلت کی وجہ سے صرف نعیم مہراور فضیل اصغر نے ہی اس سیشن میں کنٹریبیوشنز کیں۔کنٹریبیوشنز کے بعد سیشن کا اختتام راول اسد کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.