|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بہاولپور|
پروگریسو یوتھ الائنس بہاولپور کے زیر اہتمام 12جنوری بروز منگل کو ایک روزہ مارکسی سکول منعقد کیا گیا جس میں پندرہ سے زائد طلبہ اور نوجوانوں نے شرکت کی جن میں اکثریت اسلامیہ یو نیورسٹی بہاولپور کے طلبہ کی تھی۔ سکول مجموعی طور پر دو سیشنز پر مشتمل تھا۔ پہلے سیشن کا موضوع ’’سرمائے کا ارتکازکا عمل‘‘ تھا جس کوچیئر حمزہ مشتاق نے کیا اور لیڈ آف معراج ہاشمی نے دی۔
معراج نے لیڈآف کا آغاز کارل مارکس کی شہرہ آفاق کتاب داس کیپٹل کی اہمیت سے کیا اور عہد حاضر میں سرمایہ داری کے نامیاتی بحران کو سمجھنے میں کتاب کی ناگزیرت کو بیان کیا۔ قدیم اشتراکی طرز معیشت پر بات کرتے ہوئے معراج نے غلام داری اور جاگیرداری میں طرز پیداوارکے ارتقا کے عمل کوگہرائی میں بیان کیا۔ جاگیرداری سے سرمایہ داری کے عبوری مرحلے کو بیان کرتے ہوئے کسان مزارع کی محنت کش طبقے میں تبدیلی کے عمل کو یورپ میں سولہویں اور سترہویں صدی میں ہونے والے صنعتی انقلابات کی مثالوں سے سمجھایااور سرمایہ دارانہ طرز پیداوار پر بات کرتے ہوئے ’شے‘ کی خصوصیات کو واضح کیا اور پیداوار میں محنت کے استحصال کو ٹھوس مثالوں سے بیان کیا۔ محنت کے استحصال، جسے مارکس مزدور کی ’غیر اداشدا اجرت‘ کہتا ہے، سے پیدا ہونے والے منافعے کی پھر سے پیداواری عمل سرمایہ کاری کرنا اور اس عمل میں حا صل ہونے والامنافع سرمایہ کہلاتا ہے۔ سرمایہ دار اپنے سرمائے میں اضافے کی لالچ میں محنت کشوں کی ’غیر اداشدہ اجرت ‘(منافعے)کو مسلسل پیداواری عمل میں سرمایہ کار ی کرتا رہتا ہے، جہاں سے دولت کے ارتکاز کا آغاز ہوتا ہے اور یہ عمل آگے چلتے ہوئے اجارہ داریوں کو جنم دینے کا سبب بنتا ہے۔ اسی عمل میں سرمایے کا ارتقاض چندسے چند ہاتھوں میں ہوتا چلا جاتاہے۔ ایک طرف بھوک،ننگ، افلاس، بیروزگاری سماج کی اکثریت میں پھیل جاتی ہے اور دوسری جانب دولت کا ارتکاز چند سے چند ہاتھوں میں ہوتا ہوا نظر آتاہے۔ یہی عمل جب شدت اختیار کرتا ہے تو سرمایہ داری میں زائد پیداوار کا بحران جنم لیتا ہے۔ بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے راول اسد نے قدیم اشتراکی طرزمعیشت پر بات کی۔ اس کے بعد فضیل اصغر نے پہلے سیشن کے سم اپ میں سائنسی طریقہ کارسے سرمائے کے ارتکاز کو سمجھنے کی ضرورت پر زور دیا اور مارکس کی تصانیف کو گہرائی سے پڑھنے کی بات کی۔فضیل نے اپنی بات کا اختتام ہوئے کہا کہ سب بحرانات اور مسائل کا واحد حل سرمایہ داری کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک منصوبہ بند معیشت پر مبنی سوشلسٹ سماج کو تعمیر کرنے کی جدوجہد ہی آج ہمارا کام ہے۔
دوسرے سیشن میں ’’عالمی تناظر‘‘ پر عرفان نے بحث کا آغاز کیا اور راول اسد نے اس سیشن کو چئیر کیا۔ لیڈآف کا آغاز عرفان نے2008ء کے عالمی معا شی بحران سے کیا جس کے اثرات نے دنیا کی بڑی بڑی ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور سرمایہ دارانہ نظام کو جڑوں تک ہلا کر دیا۔ اس بحران کے بعد ایک نئے عہد کا آغاز ہوتا ہوا نظر آتا ہے جو ماضی کے تمام تر ادوار سے یکسر مختلف ہے۔ تیز ترین دیوہیکل واقعات اس عہد کا خاصہ ہیں۔ عرفان نے امریکی سامراج کے تاریخی زوال اور دنیا پر اس کے ہونے والے اثرات پر تفصیل میں بات کی اور امریکہ کی معاشی وعسکری حدود بیان کی۔ چین کے بطور سامراج کے ابھارکی بات کو سرمایہ داری کے بحران سے جوڑتے ہوئے چین کے ایک عالمی سامراج کے طور پر ابھار کو زیر بحث لایا۔ یورپی یونین کے بحران سے لے کربعد از بریگزیٹ کے اثرات پر بات کی۔ برطانیہ میں جیرمی کوربن کی قیادت میں لیبر پارٹی کے ابھار اور اس کے برطانوی سیاست پرہونے والے گہرے اثرات کو واضح کیا۔ اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں داعش کے ’خاتمے‘ کے بعد جنم لینے والی صورت حال اور سعودی، ایرانی و دیگر علاقائی سامراجوں کے آپسی تضادات کو بیان کیا۔ اس کے بعد احسن نے بحث میں حصہ لیا اور کہا کہ آج سے ڈیڑھ سو سال قبل مارکس کی سرمایہ داری کے بحران کی بحثیں آج ہمیں حقیقت میں تبدیل ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہ مارکسزم کی درستگی اور طاقت ہے۔ دنیا کے تمام تر بحرانات سمٹ کر آج میں قیادت کے بحران میں نظر آتے ہیں، جس کی تعمیر آج ہمارسب سے اہم فریصہ ہے۔
اسکول کے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے یاسرارشاد نے کہا کہ آج دنیا بھر میں ہونے والے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنا وقت پورا کر چکا ہے اور اب یہ نظام انسانیت کو مزید آگئے لیے جانے میں مکمل ناکام ہو چکا ہے۔ آنے والے وقت میں بڑے بڑے واقعات جن میں انقلابات،ردانقلابات، خانہ جنگیں ہوتی ہوئی نظر آئیں گی اور اس کے ساتھ ساتھ مارکسی قوتوں میں اضافے کا روشن امکانات ہیں اور ہمیں ان حالات سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اپنی قوتوں میں تیزی سے اضافہ کرنا ہوگا۔