کراچی: ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسیو یوتھ الائنس، کراچی|

پروگریسیو یوتھ الائنس(PYA) کراچی کے زیراہتمام مورخہ 14 مئی بروز اتوار2017ء کوایک روزہ مارکسی اسکول کا انعقاد کیا گیا۔ اسکول ارتقاء آفس گلشن اقبال میں منعقد ہوا۔ ایک روزہ اسکول دو سیشن پر مشتمل تھا۔ پہلا سیشن ’’سرمایہ دارانہ بحران کا مارکسی نظریہ(Marxist theory of crisis)‘‘ تھا جبکہ دوسرا سیشن مارکسزم اور آرٹ پر تھا۔ اسکول کا آغاز دن ایک بجے ہوا۔

پہلے سیشن پر کامریڈ فارس نے لیڈ آف دی۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی معاشرے میں اس کا تاریخی پس منظر، معیشت، سیاست، مذہب، روایات، تہذیب و تمدن اور دیگر عناصر کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ تاہم معیشت ہی وہ بنیاد ہوتی ہے جس پر کسی بھی معاشرے کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج اس موضوع پر بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عالمی معیشت کے بحران کو سمجھا جائے اور کسی ایسے حل تک پہنچا جائے جو دنیا کو عدم استحکام، غربت، بدحالی، جنگوں، خانہ جنگیوں اور انتشار سے نجات دلا سکے۔ انہوں نے واضح کیا کہ سرمایہ دارانہ معیشت کے بحران سے نکلنے کے لئے تمام نقطہ نظر اس وجہ سے ناکام ہیں کیوں کہ یہ سرمایہ دارانہ معیشت کے بنیادی تضادات کو دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ صرف مارکسی نظریات ہی سرمایہ دارانہ طبع پیداوار کے بنیادی تضادات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ تمام پیداوار کو حاصل کرنے میں فطرت ماں کاجبکہ انسانی محنت کا کردار باپ کا ہوتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ کسی بھی جنس کی قدر کا تعین اس پر لگی محنت یا محنت کے وقت سے کیا جاسکتا ہے۔ انسانی محنت ہی واحد وہ عامل ہے جو کسی شے کی قدر میں اضافہ کرتی ہے۔ سرمایہ داری میں خام مال، مشینری اور پیداوار کے دیگر ذرائع پرسرمایہ دار طبقے کا قبضہ ہوتا ہے، جبکہ محنت کش طبقہ اپنی قوت محنت سرمایہ دار طبقے کو فروخت کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ پیداوار کے ذرائع پر قبضہ ہونے کی وجہ سے سرمایہ دار طبقے کا کردار حاکم طبقے جبکہ محنت کش طبقے کا کردار اجرتی غلاموں کا ہوتا ہے۔ سرمایہ دار ی میں تمام تر پیداوار منافع حاصل کرنے کے لئے کی جاتی ہے، اور منافع حاصل کرنے کے لئے ایک طرف جدید مشینری کا استعمال بڑھتا ہے تو دوسری طرف اجرت پر کام کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل کمی کی جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک طرف پیداوار حاصل کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے تو دوسری طرف سماج میں قوت خرید سکڑ جاتی ہے۔ یہی سرمایہ داری کا بنیادی بحران ہے۔ جس سے مارکس نے زائد پیداوار کا بحران کہا تھا۔ جبکہ سرمایہ داری سے قبل کے نظاموں میں بحران اپنی بنیاد میں قلت کے بحران ہوتے تھے۔ فارس نے واضح کیا کہ سرمایہ داری اپنی ابتداء میں زائد پیداوار کے بحران کو منڈی میں توسیع کر کے ختم کرتی تھی مگر بیسویں صدی تک سرمایہ داری پوری دنیا کو اپنی منڈی کی لپیٹ میں لاچکی تھی جس کے بعد سرمایہ داری ترقی پسند کردار سے محروم ہو کر سامراجیت کے مرحلے میں داخل ہو گئی۔ بیسویں صدی اس بات کی شاہد ہے کہ سرمایہ داری صرف جنگیں، بحران اور بربادی ہی دے سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج سرمایہ داری اپنی تاریخ کے ایک اور بڑے بحران سے دوچار ہے جو سرمایہ داری کا نامیاتی بحران ہے۔ مارکس کے دور کی نسبت آج سرمایہ دارانہ ستحصال میں مزید شدت آ چکی ہے، غربت اور امارت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ صرف سوشلزم ہی واحد نظریہ ہے جس کے تحت اجتماعی محنت سے حاصل ہونے والی پیداوار کو سماج کی اجتماعی ملکیت میں دیا جا سکتا ہے۔

اس کے بعد سوالات کا سیشن ہوا اور بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے دیگر شرکا نے بحث میں حصہ لیا۔ محمود خان نے بات کرتے ہوئے کہا کہ سرمایہ دار جسے منافع کہتے ہیں وہ مزدوروں کی غیر ادا شدہ اجرت ہے اور سوشلسٹ انقلاب ہی محنت کش طبقے کو ان کا یہ حق دلا سکتا ہے۔ انعم پتافی کا کہنا تھا کہ آج انسانیت کی ترقی کی راہ میں دو بڑی رکاوٹیں ہیں؛ ایک نجی ملکیت اور دوسری قومی ریاست۔ ان کا کہنا تھا کہ سرمایہ دارانہ بحران کو ختم کرنے کے لیے ماضی میں اختیار کیے گئے طریقے ریاستی سرمایہ داری اور ٹریکل ڈاؤن معیشت بھی اب ناکارہ ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج دس سال گزرنے کے بعد بھی سرمایہ دارانہ ماہرین موجودہ بحران سے باہر نکلنے کا کوئی حل نہیں نکال سکے اور بحران مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ صمد اور عطاء اللہ نے بھی بحث میں حصہ لیا۔

آخر میں پارس جان نے بحث کا سم اپ کرتے ہوئے کہا کہ سرمایہ داری کا موجودہ بحران مالیاتی اور نامیاتی بحران ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر سرمایہ داری بحران میں نہ بھی ہو تب بھی یہ ’’Capital intensive‘‘ کردار کی حامل ہو گی جس سے بینک، اسٹاک ایکسچینج اور پراپرٹی کے بلبلے بنتے تو نظر آ سکتے ہیں مگر عام لوگوں کو اس سے کوئی ریلیف نہیں مل سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ متروک معیشت کی وجہ سے سرمایہ داری میں قومی، مذہبی، رنگ و نسل کے اور دیگر تعصبات ابھر کر سامنے آتے جا رہے ہیں جو سرمایہ دارانہ سیاست کی ناکامی کا اظہار ہے۔ انہوں نے یورپ میں رونما ہونے والے واقعات کو موضوع سے جوڑتے ہوئے کہا کہ برطانیہ میں جیریمی کوربن واضح طور پر اپنی بائیں بازو کی شناخت کے ساتھ الیکشن کمپئین کر رہاہے اور اس سے عوام پذیرائی مل رہی ہے جبکہ سرمائے کے معذرت خواہ اس کے خلاف ایک متحدہ محاز بنا کراکٹھے ہو چکے ہیں جس میں کوربن کی پارٹی کے لوگ بھی شامل ہیں۔ ان کاکہنا تھا کہ کوربن کی کمپئین سے واضح ہوتا ہے کہ سرمایہ داری میں دو طبقات کی کشمکش ہے۔ اور جب بھی آپ محنت کش طبقے کی آزادی کی بات کریں گے تو آپ کی صفوں سے بھی آپ کے دشمن نکلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ داری کے بطن میں جہاں شرحِ منافع میں مسلسل اضافے کی ہوس موجود ہے وہیں شرح منافع میں مسلسل کمی کا اصول بھی ایک رجحان کی شکل میں موجود ہے جس کا واحد مستقل حل منصوبہ بند معیشت ہے۔

اس کے بعد دوسرے سیشن کا آغاز ہوا۔ مارکسزم اور آرٹ پر لیڈ آف طے شدہ ایجنڈے کے مطابق میزان راہی نے دینی تھی مگر وہ کسی اچانک نجی مصروفیت کے باعث سکول میں شرکت نہ کر سکے تو یہ لیڈ آف صمد خان نے دی۔ صمد نے شاندار انداز سے موضوع کا احاطہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ قدیم سماجوں کے مطالعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آرٹ کی تاریخ زبان، فلسفہ، سائنس سب سے قدیم ہے۔ جب زبان کاوجود نہیں آیا تھاتب انسان اپنے اردگرد موجود مظاہر کی نقش و نگاری کیا کرتے تھے۔ ان کاکہنا تھا کہ قدیم یونان میں بھی فلسفے، سائنس اور دیگر علوم کی داغ بیل پڑنے سے پہلے آرٹ موجود تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آرٹ کے استعمال میں مزید اضافہ ہوا اور آج ہم دنیا کا رنگوں کے بغیر تصور بھی نہیں کر سکتے اور رنگوں کو سلیقے سے آرٹ میں ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے شاعری پر بات کرتے ہوئے کہا کہ شاعری کی تاریخ بھی فلسفے اور دیگر علوم سے قدیم ہے انہوں نے مختلف شعراء کے کلام سے واضح کیا کس طرح مشکل بات انتہائی آسانی اور خوبصورتی کے ساتھ ادا کر دی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آرٹ زندگی گزارنے کے لیے نہایت ضروری ہے اور ہمارا حق ہے کہ ہم آرٹ کو پڑھیں اور سمجھیں۔

اس کے بعد سوالات اور کنٹری بیوشن کا سلسلہ شروع ہوا۔ فارس نے کنٹری بیوشن کرتے ہوئے کہا کہ برصغیر میں دائیں اور بائیں بازو کے نظریہ دانوں کی نسبت یہاں کے شعراء کا وجدان زیادہ آفاقی نظر آتا ہے۔ انہوں نے غالب، اقبال، فیض اور فراز کے شعر سنا کر بھی اپنے موقف کی وضاحت کی۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ معاشرے میں ہر شخص کا کوئی نہ کوئی نظریہ ضرور ہوتا ہے، اس لیے شاعر اور ادیب کوئی دوسرے سیارے کی مخلوق نہیں ہوتے۔ اس لیے معاشرے میں موجود نظریات سے وہ بھی متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ مارکسی نظریہ ہی آج آرٹ کووہ بنیادیں فراہم کر سکتا ہے جو اس سے زیادہ گہرا اور آفاقی بنائے۔ ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھاکہ ایک انقلابی پارٹی اپنی بنیاد میں ٹھوس مارکسی نظریات اور لائحہ عمل پر کاربند رہتی ہے مگر اپنے نظریا ت کو لوگوں کو سمجھانے کے لیے وہ آرٹ کی خدمات بھی لیتی ہے۔ ثناء زہری کا کہنا تھا کہ ادب کسی بھی معاشرے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتاہے۔ برصغیر میں بھی انقلابی نظریات کو عوام میں مقبول عام بنانے میں ادب نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ دیگر مقررین میں انعم، عطاء اللہ اور کلیم درانی نے بحث کو مزید آگے بڑھایا۔

آخر میں پارس جان نے سم اپ کرتے ہوئے کہا کہ آرٹ کو سماج کی تبدیلی کے لیے ایک اوزار کے طور پر استعمال کرنے کی بات نسبتاً میکانکی نظر آتی ہے۔ اصل میں فطرت، سماج اور خود اپنے آپ کو سمجھنے کی انسانوں کی اجتماعی کاوشوں نے ہی آرٹ کو تخلیق اور ترویج دی۔ سماج کو سمجھنے کے لیے فن اور ادب کا بڑا کردار ہے۔ ہومر کی رزمیہ شاعری سے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ زمانہ وحشت نے ورثے میں عہدِ بربریت کے لیے کیا چھوڑا۔ اسی طرح انقلابِ فرانس کوڈکنز کے ناولوں کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔ آرٹ بنیادی طور پر سماجی شعور کی ہی ایک شکل ہے جس کی بنیادیں سماجی وجود پر کھڑی ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ کوئی بھی آرٹسٹ عظیم نہیں ہوتا بلکہ انفرادی جستجو، ریاضت اور محنت ہی ان سماجی امکانات کو حقیقت بناتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حقیقت نگاری کا مطلب یہ نہیں کہ سچائی کو پلیٹ میں رکھ کر قارئین کے سامنے پیش کر دیا جائے بلکہ بات کہنے کا ایک ڈھب (form) لازمی ہے جو اسے آرٹ بناتا ہے۔ اسی طرح ان کا کہنا تھا کہ اچھا ادب وہ ہے جو خوبئ حسن کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ جذبۂ عشق کو بھی بیدار کرے۔ حسن پرستی ہم مارکسیوں کی رگ و پے میں سرایت کر جاتی ہے۔ ہم فطرت کے حسن کے اوپر جمی سرمائے کی کائی کو صاف کر کے خالصتاً انسانی معاشرہ بنانے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ حقیقی معاشرے میں زیادہ سے زیادہ لوگ نہ صرف ادب سے محظوظ ہو سکیں گے بلکہ سب فنی تخلیقات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔ سکول کو چئیر عطا نے چیئر کیا۔ آخر میں انٹرنیشنل گا کر سکول کا اختتام کیا گیا۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.