|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|
گزشتہ ماہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ملتان کا دورہ کیا۔ اس دورے میں وزیر اعلی پنجاب نے ایمرسن کالج کے ساتھ ساتھ پنجاب کے مختلف سرکاری کالجوں کو یونیورسٹی بنانے اور ان کے خودمختار ہونے کی منظوری دی۔ یاد رہے کالج کو یونیورسٹی بنانے اور خود مختار کرنے سے مراد ہے کہ کالج صوبائی حکومت کی بجائے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے زیرِ انتظام ہو گا۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ جو طلبہ 5000 روپے فی سمیسٹر بھر رہے ہیں وہ بعد میں 20,000 روپے تک فی سمیسٹر فیس بھریں گے کیونکہ ریاست کی جانب سے بارہا ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا بجٹ کاٹا گیا ہے اور اب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ماتحت تعلیمی ادارے اپنے تمام تر اخراجات طلبہ کی فیسوں سے پورا کر رہے ہیں۔ اسی طرح یونیورسٹی کا درجہ ملنے اور خود مختاری کے بعد اساتذہ کی بہت بڑی تعداد کی چھانٹی کر کے ان کو فارغ کیا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں ایمرسن کالج کی 100 ویں سالگرہ پر ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے کالج کی خودمختاری کا اعلان کرنا تھا۔ مگر طلبہ اور اساتذہ کی مزاحمت کے بعد اسے منسوخ کر دیا گیا۔ لیکن اب کی بار کرونا وبا کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے دوبارہ اس عمل کا آغاز کیا گیا ہے۔ کالج کی خودمختاری کے طلبہ اور اساتذہ پر بہت گہرے اثرات پڑنے کی طرف جائیں گے۔ خودمختاری سے پہلے صوبائی حکومت تعلیمی بجٹ سے فنڈز جاری کیے جاتے ہیں، جس کے ذریعے کالج کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔ لیکن خودمختاری کے اس عمل کے بعد ان تمام تر اخراجات کو پورا کرنے کے لیے فیسوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ تعلم جو کہ پہلے ہی محنت کش کے بچوں سے دور ہے وہ مزید دور ہو جائے گی اور کالج کی فیسوں میں کئی گنا اضافہ ہو گا۔ اس وقت BS اور MSc کی فیسیں فی سمیسٹر تقریباً 4 سے 6 ہزار تک ہیں لیکن کالج کی خودمختاری کے بعد یہ کئی گنا بڑھا دی جائیں گی۔
اس کے ساتھ ساتھ انٹرمیڈیٹ کی کلاسوں کا خاتمہ ہونے کے بھی امکانات ہیں۔ اس وقت ہزاروں کی تعداد میں طلبہ ایمرسن کالج میں انٹرمیڈیٹ کی کلاسوں میں زیرِ تعلیم ہیں اور اگر انٹرمیڈیٹ کی کلاسوں کا خاتمہ کیا جائے گا تو ہزاروں کی تعداد میں طلبہ تعلیم کے حصول سے محروم ہو جائیں گے۔ گزشتہ سال خودمختاری کے اس فیصلے کے خلاف ایمرسن کالج سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے تحت طلبہ نے اس عمل کو روکنے کی کوشش کی تھی اور اس کے خلاف ایک مکمل کمپئین کا آغاز کیا گیا تھا۔ جس کے ذریعے طلبہ کی ایک بڑی تعداد کو اس عمل کی حقیقت سے آگاہ کیا گیا اور جدوجہد میں منظم کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ دستخط مہم کا آغاز بھی کیا گیا۔ بڑی تعداد میں انٹرمیڈیٹ اور بی ایس کے طلبہ نے کالج کی خودمختاری کی مخالفت کی اور دستخط مہم پر اپنے دستخط کیے تھے۔ اب جب ایمرسن کالج دوبارہ کھل چکا ہے تو دوبارہ کالج کی خودمختاری کے اس عمل کے خلاف طلبہ منظم ہو رہے ہیں۔
اس نجکاری مخالف طلبہ تحریک کے مندرجہ ذیل مطالبات ہیں:
1۔ خودمختاری کے نام پر نجکاری کا فیصلہ فی الفور واپس لیا جائے۔
2۔ انٹرمیڈیٹ کی کلاسوں کے خاتمے کی صورت میں غریب اور محنت کش طلبہ پر تعلیم کے دروازے بند کرنا نامنظور۔
3۔ کالج فیکلٹی اور سٹاف کی ڈی پورٹیشن اور ریشنلائزیشن نامنظور؛ کالج میں اساتذہ اور سٹاف کی کمی کو فی الفور پورا کیا جائے۔
4۔ خودمختاری اور نجکاری سمیت تمام تر عوام دشمن اور طلبہ دشمن پالیسیوں کا خاتمہ کرتے ہوئے آبادی کے تناسب سے پورے ملک میں سکول، کالج اور یونیورسٹیاں قائم کی جائیں۔
5۔ مفت تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق ہے؛ ہر سطح پر مفت اور معیاری تعلیم فراہم کی جائے۔
6۔ طبقاتی نظامِ تعلیم کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو نیشنلائز کیا جائے اور تعلیم کا کاروبار بند کیا جائے۔
7۔ طلبہ یونین پر عائد پابندی کا خاتمہ کرتے ہوئے طلبہ یونین بحال کی جائے اور فی الفور طلبہ یونین کے الیکشن کروائے جائیں تاکہ طلبہ اپنے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے خود اپنے امور کی فیصلہ سازی کر سکیں۔