|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|
ورچوئل یونیورسٹی ایک نجی تعلیمی ادارہ ہے جہاں طلبہ آن لائن سسٹم کے تحت تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ وہ طلبہ جو دیگر وجوہات کے باعث باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کر سکتے یا دیگر تعلیمی اداروں کی بھاری بھرکم فیسیں ادا نہیں کر سکتے، وہ ورچوئل یونیورسٹی کا رُخ کرتے ہیں تاکہ وہ گھر بیٹھے ہی تعلیم حاصل کر سکیں یا اپنی ملازمت کو جاری رکھتے ہوئے اپنے تعلیمی سلسلے کو بھی جاری رکھ سکیں۔ ورچوئل یونیورسٹی کے بارے میں ایک خیال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ یہاں دیگر یونیورسٹیوں کی نسبت کم فیسیں لی جاتی ہیں مگر کرونا وبا اور لاک ڈاؤن کے دوران ورچوئل یونیورسٹی نے بھی دیگر تعلیمی اداروں کی طرح اپنی لوٹ مار جاری رکھی۔
کرونا وبا کے دوران لاک ڈاؤن کے باعث پنجاب بھر کی یونیورسٹیوں میں طلبہ سے گھر بیٹھے آن لائن امتحانات لیے گئے۔ مگر ورچوئل یونیورسٹی نے یہ طریقہ امتحان نہ اپنایا اور اپنے روایتی امتحانی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے طلبہ کو یونیورسٹی میں بلا کر آن لائن امتحانات لینے کا فیصلہ کیا۔ سرکار کی جانب سے یونیورسٹیاں 15 ستمبر کو کھولنے کا اعلان کیا گیا لیکن ورچوئل یونیورسٹی نے 11 ستمبر کو ہی کلاسز کا آغاز کیا جس میں کسی بھی طرح کی SOPs پر عمل نہیں کیا گیا جبکہ طلبہ سے ماسک اور دستانوں کی مد میں رقم بھی لوٹی گئی تھی۔ اسی طرح امتحانات کے دوران جن طلبہ کا جسمانی درجہ حرارت زیادہ تھا انہیں واپس گھر بھیجا گیا لیکن ان کے لیے دوبارہ امتحانات کا کوئی لائحہ عمل جاری نہیں کیا گیا۔
ورچول یونیورسٹی میں زیادہ تر محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ آتے ہیں جو اپنی فیسیں خود ملازمت کر کے ادا کرتے ہیں۔ کرونا کے باعث لاک ڈاؤن کے دوران چونکہ کاروبارِ زندگی بند تھا اور اکثر طلبہ کو ان کی نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ لہٰذا وہ بروقت یونیورسٹی کی فیس ادا نہ کر سکے جس کی وجہ سے یونیورسٹی نے ان کے LMS(Learning Management System) اکاؤنٹ بند کر دیے اور طلبہ کو ڈرا دھمکا کر ان سے جبری طور پر فیس وصولی گئی کہ فیس ادا نہ کرنے کی صورت میں ان کا سمیسٹر ضائع ہو جائے گا۔
اسی طرح ورچوئل یونیورسٹی میں چونکہ ڈیجیٹل ایجوکیشن سسٹم رائج ہے تو عام طور پر یہی گمان پایا جاتا ہے کہ شاید یہاں پڑھائے جانے والے نصاب کی بھی حسبِ ضرورت تجدید کی جاتی ہو گی مگر نصاب اور تعلیمی معیار کے حالات دیگر یونیورسٹیوں جیسے پسماندہ ہی ہیں۔ یونیورسٹی کے LMS میں سالوں پرانے لیکچر پڑے ہوئے ہیں اور طلبہ سالوں سے یہی لیکچر لیتے آ رہے ہیں۔ ورچوئل یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے انٹرنیٹ ہونا ضروری ہے مگر کرونا کے باعث طلبہ اپنے گھروں میں مقید تھے اور وہ کیمپس جا کر کیمپس کے انٹرنیٹ سے مستفید نہیں ہو سکتے تھے نتیجتاً انٹرنیٹ کے پیکجوں کا بوجھ بھی طلبہ پر پڑ گیا۔ یہاں طلبہ کی اچھی خاصی تعداد دیہاتوں اور ایسی جگہوں سے تعلق رکھتی ہے جہاں انٹرنیٹ کی سہولت تک میسر نہیں۔ تووہ طلبہ لاک ڈاؤن کے دوران نہ آن لائن کلاسیں لے سکے اور نہ ہی امتحانات کی تیاری کر سکے، اس کے باوجود طلبہ سے پوری فیسیں لی گئیں۔
قصہ مختصر یہ کہ کرونا وبا میں ورچوئل یونیورسٹی کی بھی چاندی ہو گئی اور طلبہ کو گھر بیٹھ کر آن لائن کلاسیں لینے کی کوئی بھی سہولت فراہم کیے بِنا سارے عرصے کی فیسیں مفت میں ڈکار لی گئیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس ورچوئل یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ اس کھلواڑ کی شدید مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران وصول کردہ تمام تر فیسیں طلبہ کو لوٹائی جائیں یا موجودہ سمیسٹر کی فیس میں اس رقم کو ایڈجسٹ کیا جائے۔ اسی طرح ہم تعلیم کے کاروبار کی بھی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں اس کاروبار کو ختم کیا جائے نیز ان مسائل کا سامنا صرف ورچوئل یونیورسٹی کے طلبہ کو نہیں رہا بلکہ ملک بھر کے طلبہ کو اس لوٹ مار کا سامنا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ملک بھر کے طلبہ مفت اور معیاری تعلیم کے حصول کے لیے مشترکہ جدوجہد کے ذریعے اس بوسیدہ تعلیمی نظام اور اس میں جاری لوٹ مار کا خاتمہ کریں۔
طلبہ اتحاد زندہ باد!