نظم: الوداع خاشہ

چار دہائیوں پر مشتمل جنگ سے بدحال ملک میں لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے والے خاشہ کو طالبان نے بے دردی سے قتل کردیا۔  

زندگی کے علم
رنگ و بو کے قلم
حیرتوں کے فسوں
موسموں کے سکوں
خواہشوں کی زباں
روشنی کے نشاں
ولولوں کے سخی
قہقہوں کے نبی
تازگی کے خدا
الوداع الوداع

تیرے قندھار میں
برق رفتار میں
پھر سے چلنے لگی
ظلمتوں کی ہوا
تو کہ تھا اک دیا
تجھ کو بجھنا ہی تھا
الوداع الوداع

روح کے پاتال سے
وقت کے گال سے
سرخ مضمون کے
تیرے اس خون کے
داغ کیوں دھوئیں ہم
تجھ کو کیوں روئیں ہم
درد ڈھوتی ہوئی
گنگ ہوتی ہوئی
ارضِ برباد میں
ہاں تری یاد میں
کہکشاں ڈھوئیں ہم
قہقہہ بوئیں ہم

راہ گیرِ عدم
تیرے فن کی قسم
سر پہ جب بھی پڑی
فیصلے کی گھڑی
روکیں گے نہ قدم
سرخرو ہوں گے ہم
رنج چھٹ جائے گا
وقت کٹ جائے گا
بچہ بچہ یہاں
پھر سے ڈٹ جائے گا
ظلم کے روبرو
گونجے گا چار سو
بے دھڑک، بے بہا
تیرا ہی قہقہہ
الوداع الوداع

(پارس جان)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.