کشمیر: پروگریسو یوتھ الائنس کا دو روزہ مارکسی سکول ( گرما-2018) کا انعقاد

رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس


پروگریسویوتھ الائنس کی جانب سے16اور17اگست 2018ء کو راولا کوٹ (کشمیر) میں دو روزہ مارکسی سکول (گرما) کا انعقاد کیا گیا۔ سکول میں ملک بھر سے آئے ہوئے طلبہ اور محنت کشوں نے بھر پور شرکت کی۔انتہائی کٹھن معاشی و سماجی حالات میں ملک کے طول و عرض (کراچی سے لے کر کشمیر تک)سے طلبہ و محنت کشوں کی اس سکول میں شرکت یقیناًانکی درست نظریات حاصل کرنے کی جستجو اور اہمیت کے ادراک کی بدولت ہی ممکن ہو پائی۔مہنگائی کے اس عالم میں جہاں طلبہ کیلئے تعلیمی اداروں میں محض بھاری بھرکم فیسیں ہی ادا کر پانا بمشکل ممکن ہو پاتا ہے اور محنت کش جو بمشکل گزارہ چلا پاتے ہیں، کیلئے اس سکول میں شرکت کرنا ایک غیر معمولی بات تھی جس کے لیے تمام داد کے مستحق ہیں۔ سکول سے ایک روز پہلے 15اگست کو پی وائی اے کی جانب سے ’’طلبہ یونین بحالی کانفرنس‘‘کا انعقاد کیا گیا۔لہذا ملک بھر سے نوجوانوں اور محنت کشوں کے وفود 14اگست کی شام کو ہی کشمیرپہنچنا شروع ہو گئے تھے۔

                                                            پہلا دن

دو روزہ سکول مجموعی طور پر پانچ سیشنزپر مشتمل تھا جن میں پہلے دن تین اور دوسرے دن دو سیشن ہوئے۔ سکول کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے کشمیر سے وحید عارف نے سکول میں ملک بھر سے شرکت کرنے والوں کو خوش آمدید کہا اور پہلے دن کے پہلے سیشن کا باقاعدہ آغاز کیا۔ پہلا سیشن عالمی و پاکستان تناظر پر تھا۔ اس پر بات کرنے کیلئے وحید عارف نے فضیل اصغر کو دعوت دی۔

فضیل اصغر پہلے سیشن میں عالمی و پاکستان تناظر پر لیڈ آف دیتے ہوئے۔

فضیل اصغر نے بحث کا آغاز اس سیشن کی اہمیت پر بات کرنے سے کیا اور بتایا کہ اس سیشن میں عالمی اور پاکستان کے انقلاب کے تناظر پر بات کی جانی ہے جو انتہائی اہم بحث ہے۔ اسکے بعد انہوں نے موجودہ عہد کے عمومی رجحانات کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ عہد میں ہمیں دنیا کے ہر خطے میں شدید ترین تبدیلیاں رونما ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں، اور انکی رفتار اس قدر تیز ہے کہ ہر بڑا واقعہ کچھ ہی دنوں میں پرانا ہوتا جا رہا ہے اور نئے واقعات تیزی سے اسکی جگہ لے رہے ہیں۔ پرانا ورلڈ آرڈر ٹوٹ کر بکھر چکا ہے۔ حیرت انگیز سفارتی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ہر خطے میں سٹیٹس کو کا خاتمہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ روایتی پارٹیاں شدید ترین زوال کا شکار ہیں اور عوام میں اپنی مقبولیت تیزی سے کھوتی جارہی ہیں۔ بڑی بڑی تحریکیں، احتجاج اور ہڑتالیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ الغرض پرانا نظم (روٹین)ٹوٹ چکا ہے اور نئے نظم کا جنم ہو چکا ہے۔ یہ نیا نظم تحریکوں، بغاوتوں، انقلابات، رد انقلابات اور تیز ترین تبدیلیوں کا نظم ہے۔ اسکے بعد فضیل نے پرانے نظم سے موجودہ عہد تک کے تاریخی سفر پر روشنی ڈالی۔ انکا کہنا تھا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے لے کر1991ء کے سویت یونین کے انہدام تک ایک مختلف ورلڈ آرڈر تھا جس میں دنیا دو حصوں میں تقسیم تھی۔ ایک حصہ امریکی سامراج کے زیر تسلط تھا جبکہ دوسرا حصہ سوویت یونین کے زیر اثر تھا۔ پوری دنیا کی سیاست میں یہ تقسیم واضح طور پر اپنا اظہار کرتی تھی۔ مزدور تحریک کے خوف اور سامراجی تسلط میں اضافے کیلئے امریکہ پوری دنیا میں سرمایہ داری کا دفاع کر رہا تھا۔ جسکے لیے وہ بے تحاشہ پیسہ اور طاقت صرف کر رہا تھا۔ مختلف معاہدے اور تنظیمیں جیسے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور نیٹو وغیرہ کے ذریعے سرمایہ داری کو پوری دنیا میں تحفظ دے رہا تھا اور جس کی بدولت تمام سرمایہ دارانہ ریاستوں کی تمام تر پالیسیوں میں واضح اثر رسوخ رکھتا تھا۔ اس ورلڈ آرڈر کا خاتمہ1991ء میں سویت یونین کے انہدام کے ساتھ ہوا۔ اس ورلڈ آرڈر کے ٹوٹنے کے بعد دنیا بائی پولر(bipolar) سے یونی پولر (uni-polar)بن گئی۔ یہاں سے بنیادی طور پر امریکی سامراج کی بد ترین جارحیت کا آغاز ہوتا ہے۔ اسکے بعد سے لے کر 2008ء تک اس نئی کیفیت کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت میں مصنوعی بلبلے نظر آتے ہیں اور بالآخر 2008ء میں ایک عالمی معاشی بحران کا آغاز ہوتا ہے جو سب کچھ تبدیل کر کے رکھ دیتا ہے۔ وہ تمام تبدیلیاں جو آہستہ آہستہ ہو رہی ہوتی ہیں اب 2008ء کے بحران کے بعد واضح طور پر سطح پر نمودار ہوتی ہیں۔ اس بحران کا تمام تر بوجھ محنت کشوں پر ڈالا جاتا ہے جسکے نتیجے میں ہر خطے میں عوامی بغاوتوں کا آغاز ہوتا ہے۔
فضیل اصغر نے امریکہ اور چین کے مابین جاری حالیہ تجارتی جنگ کے حوالے سے بات کی اور اسکی وجوہات اور دنیا کی معیشت اور سفارت کاری پر اسکے اثرات پر روشنی ڈالی۔اسکے بعد فضیل نے موجودہ عالمی صورت حال پر روشی ڈالی۔ عالمی انقلاب کے حوالے سے یورپ کو سب سے زیادہ اہم قرار دیا۔ انکا کہنا تھا کہ اٹلی کی موجودہ معاشی صورت حال پورے یورپ کیلئے خطرہ ہے اور اٹلی کے ساتھ ساتھ پورے یورپ میں آنے والے عرصے میں بڑی تحریکیں دیکھنے کو ملیں گی۔ اسی طرح یورپ کے مختلف خطوں کے حوالے سے بات کی۔ اسکے بعد لاطینی امریکہ کے ملک وینزویلا کی صورت حال پر روشنی ڈالی اور وہاں کے معاشی بحران پر گفتگو کی۔ اسی طرح مشرق وسطیٰ میں سامراجی کھلواڑ پر روشنی ڈالی اور حالیہ پیش رفتوں کے حوالے سے گفتگو کی۔
اس عالمی منظر نامے میں آخر میں پاکستان کی صورت حال پر روشنی ڈالی اور پاکستان میں انقلاب کے تناظر کے حوالے سے بحث کی۔ پاکستان پر بات کرتے ہوئے فضیل نے حالیہ الیکشن میں بر سراقتدار آنے والی پارٹی پی ٹی آئی کی معاشی پالیسیوں پر رائے دی اور کہا کہ یہ مزدور دشمن پالیسیاں ہیں جو آنے والے عرصے میں طبقاتی کشمکش کو تیز کریں گی۔ اسد عمر کے حالیہ بیان کے مطابق پی ٹی آئی کی اولین ترجیح نجکاری اور تنخواہوں میں کٹوتیاں ہونگی۔ یہ سب کچھ پاکستان کی ترقی اور بقا کا چورن بیچ کر کیا جائے گا کہ وطن پر آئی اس مشکل کی گھڑی میں محنت کش قربانی دیں۔ اب کی بار جو مزدور تحریک بنے گی وہ پہلے سے کہیں زیادہ ریڈیکل ہوگی اور ملک گیر جڑت کا شعور تیزی سے اس تحریک میں پھیلے گا۔ اسکے ساتھ ساتھ ایک بڑی طلبہ تحریک کا تناظر بھی پیش کیا۔ 


لیڈ آف کے خاتمے بعد سوالات کے سلسلے کا آغاز ہوا اور سوالات کی روشنی میں مختلف کامریڈز نے بحث میں حصہ لیا۔ بحث میں حصہ لینے والوں میں بلوچستان سے خالد مندوخیل، پنجاب یو نیورسٹی لاہور سے مشعل وائیں، پختونخواہ سے صدیق، اسلام آباد سے عمر ریاض، گوجرانوالہ سے سلمیٰ، کراچی سے عادل راؤ، لاہور سے سہیل راٹھور اور مرکز سے آدم پال شامل تھے۔ سوالات کی روشنی میں ان سب نے عالمی و پاکستان کی صورت حال کے مختلف پہلووں پر تفصیلی بات کی ۔ 
اسکے بعد تمام تر بحث کو سمیٹتے ہوئے فضیل اصغر نے موجودہ صورت حال میں ایک بڑی انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی کے حوالے سے بات کی اور موجودہ صورت حال میں انقلابی ڈسپلن اور انقلابی جذبے سے سرشار انقلابی پارٹی کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

پہلے سیشن کے اختتام کے بعد 10منٹ کا وقفہ کیا گیا اور وقفے کے بعد دوسرے سیشن کا آغاز ہوا۔ دوسرا سیشن نوجوانوں کے کام کے حوالے سے تھا۔

زین العابدین دوسرے سیشن میں نوجوانوں کے کام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے۔

اس سیشن کو چیئر عمر ریاض نے کیا اور اس پر تفصیلی گفتگو پی وائی اے کے نیشنل آرگنائزر زین العابدین نے کی۔ زین نے گفتگوکا آغاز موجودہ صورت حال سے کیا اورمعاشی بحران کے نتیجے میں رونما ہونے والی تیز ترین تبدیلیوں پر بحث کی۔ انکا کہنا تھا کہ جس طرح آج پوری دنیا میں تحریکیں جنم لے رہی ہیں، نوجوان اور محنت کش اپنے حالات زندگی سے تنگ آکر بغاوتیں کر رہے ہیں، اسی طرح پاکستان میں بھی محنت کشوں اور نوجوانوں کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ طلبہ کیلئے تعلیم ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ آئے روز فیسوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ طلبہ یونین پر بھی پابندی ہے جس کی وجہ سے طلبہ ایک پلیٹ فارم پراکٹھا ہو کر جدوجہد نہیں کر پا رہے۔ مگر اس صورت حال نے طلبہ کے اندر ایک شدید غصے کو جنم دیا ہے جو جلد یا بدیر سطح پر اپنا اظہار کرے گا۔ ایسی صورت حال میں پی وائی اے نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس سال کے آخرمیں لاہور میں پی وائی اے کے مرکزی کنونشن کا انعقاد کیا جائے گا۔ اس کنونشن کی تیاریوں کے سلسلے میں ملک کے مختلف شہروں میں بھی کنونشن کیے جائیں گے اورطلبہ یونین بحالی اور فیسوں کے خاتمے کی بھر پور کمپئین کی جائے گی۔
اسکے بعد ملک کے مختلف ریجن سے وہاں کے نمائندوں نے اپنے اپنے ریجن کی رپورٹ پیش کی اور مستقبل کے ٹارگٹ کا تعین کیا۔ بلوچستان سے رزاق غورزنگ، فیصل آباد سے اختر منیر، ملتان سے وقاص سیال، بہاولپور سے عرفان منصور، ڈی جی خان سے راول اسد، لاہور سے رائے اسد، کشمیر سے عبید ذوالفقار، دادو سے ستار جمالی، کراچی سے عادل راؤ،گوجرانوالہ سے سلمیٰ اور فاٹا سے یونس وزیر نے اپنے اپنے ریجن کی رپورٹ پیش کی اور مستقبل کے ٹارگٹ کا تعین کیا۔

 
دوسرے سیشن کے اختتام کے بعد کھانے کا وقفہ کیا گیا۔ کھانے کے وقفے کے بعد سکول کے تیسرا سیشن شروع ہوا۔

ماہ بلوص اسد تیسرے سییشن (ریاست اور انقلاب) میں لیڈ آف دیتے ہوئے۔

تیسرے سیشن کا ایجنڈالینن کی شہرہ آفاق کتاب ’’ریاست اور انقلاب‘‘تھا۔اس سیشن کو چیئر کامریڈصدیق نے کیا اور لیڈ آف ماہ بلوص اسد نے دی۔
ماہ بلوص نے بحث کے آغاز میں اس کتاب کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انقلاب روس کے وقت ریاست کا سوال محض تجریدی بحث کا سوال نہیں رہ گیا تھا بلکہ انتہائی عملی نوعیت اختیار کر چکا تھا۔ اس وقت روسی انقلابیوں میں ریاست کے سوال کے متعلق پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کیلئے اسے واضح کرنے کیلئے لینن نے یہ کتاب لکھی۔ اسکے بعد ماہ بلوص نے ریاست کے آغاز کے حکمران طبقے کی جانب سے پیش کردہ مختلف تھیوریوں کا ذکر کیا اور انکی غیر مادی تشریحات کی وجہ سے انکے غلط ہونے کو ثابت کیا۔ اسکے بعد مارکسزم کے مادی طریقہ کار کی اہمیت پر بات کی اور تاریخی مادیت کی بدولت پیش کردہ ریاست کے تصور پر بات کی۔ ماہ بلوص کا کہنا تھا کہ اینتھروپولوجیکل ریکارڈ کے مطابق یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ انسان اس کرہ ارض پر لاکھوں سال (اکثریت) غیر طبقاتی سماج میں رہا ہے۔ اس غیر طبقاتی سماج کی مادی وجہ ذرائع پیداوار کی انتہائی سادہ اور ابتدائی شکل تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ (لاکھوں سالوں میں) ذرائع پیداوار میں ترقی کی بدولت پیداوار میں اضافہ ہوا اور اسکی بدولت انسان نے زائد پیداوار حاصل کی۔ اس زائد پیداوار کی ملکیت کے حصول نے ایک عمل کے ذریعے طبقات کو جنم دیا۔ اس طرح طبقات کے جنم کیساتھ ایک ایسے ادارے کی ضرورت پڑی جو حکمران طبقے (ذرائع پیداوار کا مالک) کے محنت کش طبقے پر تسلط کو برقرار رکھ سکے یا دوسرے الفاظ میں حکمران طبقے کو محنت کش طبقے کے غضب سے بچا سکے اور سماج میں موجود طبقاتی کشمکش کو کنٹرول کر سکے۔ یہ ادارہ ریاست کا ادارہ تھا۔ اسکے بعد ریاست کے مختلف سماجوں میں مختلف اشکال اور اسکے ارتقا پر بات کی۔ پھر موجودہ سرمایہ دارانہ ریاست کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ ریاست سرمائے کی تابع دار ہے اور سرمائے کے ہاتھوں محنت کے استحصال کو برقرار رکھنے کا ایک آلہ ہے۔ اسکے بعد ریاست کے متعلق اصلاح پسندوں اور انارکسسٹوں کے غلط موقف پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ اصلاح پسند درحقیقت سرمایہ دارانہ ریاست کا خاتمہ نہیں چاہتے بلکہ وہ اسے اصلاحات کے ذریعے انسان دوست بنانا چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں درحقیقت وہ اسے مزید طاقتور کر رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب انارکسسٹ دوسری انتہا پر چلے جاتے ہیں اور وہ ریاست کے مکمل خاتمے کی بات کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ انقلاب کے بعد مزدور ریاست کی بھی ضرورت نہیں۔ وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ چونکہ ریاست جبر کا آلہ ہے لہٰذا انقلاب کے بعد اسکا مکمل خاتمہ ہو جانا چاہیے۔ یہ دونوں سوچیں غیر سائنسی ہیں اور آخری تجزیے میں حکمران طبقے کے مفاد میں جاتی ہیں۔ اسکے بعد سرمایہ دارانہ ریاست کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور اسکی جگہ مزدور ریاست کے قیام کی اہمیت پر روشنی ڈالی ۔ اسی طرح مزدور ریاست کی اہمیت، ہیت اور کردار کے حوالے سے بات کی اور اسکے بتدریج خاتمے کے حوالے سے بات کی۔


ماہ بلوص کی لیڈ آف کے بعد سوالات کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ سوالات کی روشنی میں ٖملتان سے یونس وزیر،مرکز سے راشد خالد، کوئٹہ سے مہمند خان ،کشمیر سے یاسر ارشاداور گجرانوالہ سے صبغت وائیں نے بحث میں حصہ لیا۔انہوں نے موجودہ ریاست کے متعلق پائے جانے والی غلط فہمیوں پر بات کی ۔مزدور بونا پارٹسٹ ریاستوں کے متعلق بات کی اور مزدور ریاست کی ہیت اور کردار کے حوالے سے تفصیلی بات کی۔ 
آخر میں تمام تر بحث کو سمیٹتے ہوئے ماہ بلوص اسد نے سوالات کی روشنی میں قدیم اشتراکی سماج کی بنت پر تفصیلی بات کی اور اسکے متعلق پائی جانے والی غلط فہمیوں پر روشنی ڈالی۔ اسکے ساتھ ساتھ مزدور ریاست کی ہیت کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیوں پر بات کی۔

 
                                                               دوسرا دن

دوسرے دن کا پہلا سیشن مارکس کی شہرہ آفاق کتاب ‘سرمایہ’ کے دوسرے اور تیسرے ابواب پر مشتمل تھا۔اس سیشن کو چیئر رزاق غورزنگ نے کیا اور اس پر لیڈ آف راشد خالد نے دی۔

راشد خالد چوتھے سیشن میں (سرمایہ کا دوسرا اور تیسرا باب) پر لیڈ آف دیتے ہوئے۔

راشد نے بحث کا آغاز موجودہ سماج میں زر کے کردار کے حوالے سے کیا کہ آج دنیا میں ہمیں سب سے زیادہ طاقتور چیز زر نظر آتا ہے اور جس شخص کے پاس جتنا زیادہ زر (دولت) ہوتی ہے سماج میں اسکی عزت اور مقام بھی اسی قدر زیادہ ہوتا ہے۔ مگر یہ زر ہے کیا؟ کیا یہ ہمیشہ سے تھا؟ اگر نہیں تو کیسے وجود میں آیا؟ اور کیا اسے ختم کیا جاسکتا ہے؟زر کو سمجھنے کیلئے ہمیں سب سے پہلے شے (جنس) کو سمجھنا پڑے گا۔ مارکس اپنی کتاب ‘سرمایہ’ میں زر کی بنیاد شے کوقرار دیتا ہے اور شے کے تبادلے اور اس تبادلے کے ارتقا کو زر کے ارتقا کی بنیاد کرار دیتا ہے۔ لہٰذا زر کو سمجھنے کیلئے ‘سرمایہ’ کے پہلے باب شے (جنس) کو سمجھنا لازم ہے۔ اسکے بعد راشد نے ‘شے'(Commodity) کے متعلق بات کی اور ان خصوصیات کا ذکر کیا جن کی بدولت سماجی دولت شے بنتی ہے۔ ان خصوصیات میں پہلی خصوصیت قدر استعمال ہے۔ یعنی کہ اس شے میں انسان کی کسی نا کسی قسم کی ضرورت پوری کرنے کی صلاحیت موجود ہو اور دوسری خصوصیت قدر تبادلہ یعنی کہ اسکا دوسری اشیاء کیساتھ تبادلہ کیا جاسکے۔ یعنی کہ کوئی بھی ایسی شے جس میں انسان کی کوئی نا کوئی ضرورت پوری کرنے کی صلاحیت موجود ہو اور اسکا دوسری اشیا کیساتھ تبادلہ کیا جائے تو وہ شے کہلائے گی۔ عام الفاظ میں کوئی بھی ایسی چیز جسے خریدا اور بیچا جا سکے وہ شے کہلائے گی۔ اسکے بعد ان اشیاء کے مابین تبادلے کی بنیاد(قدر مشترک) انسانی محنت کوقرار دیا اور اسکے حوالے سے وضاحت کی کہ سماجی ضروری محنت وہ بنیاد ہے جسکی کی بدولت دو اشیاء کا آ پس میں تبادلہ ممکن ہو پاتا ہے۔ اسے ماپنے کا پیمانہ سماجی ضروری وقت محنت ہے۔ اسکے بعد ٹھوس انسانی محنت اور مجردانسانی دمحنت میں فرق کی وضاحت کی۔ اسکے بعد راشد نے اشیاء اور انکے مالکان (بنانے والے) کے مابین رشتے پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ہر مالک کیلئے اسکی شے دوسری تمام اشیاء کیلئے یونیورسل ایکویلنٹ ہوتی ہے۔ لہٰذا تبادلے کے عمل میں ابتداء میں (اشیا کے جنم کے آغاز میں)تو تبادلہ ایک شے کے بدلے دوسری شے کیساتھ ممکن تھا مگر جیسے جیسے اشیاء کی پیداوار میں اضافہ ہونا شروع ہوا ویسے ویسے اس سماجی عمل کی پیچیدگی کی بدولت ایک ایسی شے کی ضرورت پڑی جس کے ساتھ باقی تمام اشیا کا تبادلہ کیا جاسکے۔ یہ یونیورسل ایکویلنٹ شے زر تھا۔ اسکی ابتدائی اشکال موجودہ شکل سے بہت مختلف تھیں۔ آغاز میں یہ جگہ کی مناسبت کیساتھ طے پاتا تھا، مگر ذرائع پیداوار کی ترقی کیساتھ اس کا بھی ارتقا ہوا۔ مثلا قیمتی دھاتیں جیسے سونا اور چاندی وغیرہ کا زر کی شکل اختیار کرنا بنیادی طور پر سماجی ضرورت کی وجہ سے ہوا۔ جیسے کہ سونا جانوروں کی مانند مرتا نہیں ہے، ہر جگہ ایک جیسا رہتا ہے، اسے تقسیم کیا جاسکتا ہے اور خاص طور پر اسے زمین سے نکالنے اور صاف کرنے میں کافی زیادہ انسانی محنت صرف ہوتی ہے لہذا اس وجہ سے اسکی انتہائی کم مقدار کیساتھ دوسری اشیاء کا تبادلہ ممکن ہے۔ جہاں سونا میسر نہیں تھا وہاں دوسری قیمتی دھاتوں نے زر کا کردار ادا کیا مگر آہستہ آہستہ سونا ہر جگہ زر بننا شروع ہوگیا۔ اسی طرح زر نے تبادلے کے عمل کو مہمیز دی اور پھر ان دونوں (زر اور اشیاء کے تبادلے) کا آپس میں ایک جدلیاتی تعلق بنتا ہے جو اس عمل کو اور تیز کرتا ہے۔ بتدریج زر کے سماج میں ایک مشہور مقام حاصل کر لینے بعد اور ذرائع پیداوار کے مزید پھیلنے کیلئے ارتقا کرتے ہوئے محض کاغذ میں ایک ٹوکن کی صورت اختیار کر لیتا ہے، جو اب تبدیل ہو کر محض ڈیجیٹل انفارمیشن کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اسی طرح پھر c-m-c کے شے کے تبادلے کے چکر کے حوالے سے بات کی کہ شے کا مالک زر لے کر شے بیچ دیتا ہے c-m اور خریدار زر دے کر شے خرید لیتا ہے m-c اور یہ عمل پورے سماج میں ہو رہا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں زر ایک زندہ کردار حاصل کر لیتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے زر حقیقی ہے اور یہ باقی تمام اشیاء کو حرکت میں رکھے ہوئے ہے جبکہ حقیقت میں اسکے الٹ ہوتا ہے۔ 
راشد خالد کی مفصل گفتگو کے بعد سوالات کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ سوالات کو مدنظر رکھتے ہوئے لاہور سے عدیل زیدی، فیصل آباد سے تصور ایوب، گجرانوالہ سے ناصرہ وائیں اور صبغت وائیں،ملتان سے راول اور مرکز سے آدم پال نے بحث میں حصہ لیا۔انہوں نے شے کے مختلف پہلوؤں پر بات کی، شے اور زر کے متعلق مغالطوں پر بات کی اور موجودہ عالمی معاشی بحران پربحث کی۔ 


اسکے ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے راشد خالد کا کہنا تھا کہ ‘سرمایہ’ میں مارکس صرف معیشت کا ہی ذکر نہیں کرتا بلکہ اسکے ساتھ ساتھ فلسفے کی بحثیں بھی کرتا ہے اور ادب کی بھی بحثیں کرتا ہے اور مثالیں دینے کیلئے اسکا استعمال کرتا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ اعلی پائے کا طنز ہمیں ‘سرمایہ’ میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اسکے بعد راشد نے مارکس کے ادب کے استعمال اور کیے گئے طنز کی مثالیں بھی پیش کیں۔ اسکے بعد اشیاء کی قیمتوں کے تعین کے حوالے سے بات کی۔ آخر میں سب کو ‘سرمایہ’ کتاب پڑھنے کی تلقین کی اور کہا کہ اسے پڑھے بغیر اس میں موجود مواد کا لطف نہیں اٹھایا جا سکتا اور آج کی بحث کا مقصد ہی یہ تھا کہ سب کے ذہنوں میں اس کتاب کو پڑھنے کی جستجو پیدا کی جا سکے۔ 

دوسرے دن کے پہلے سیشن اور مجموعی طور پر چوتھے سیشن کے اختتام کے بعد کھانے کا وقفہ کیا گیا۔ کھانے کے وقفے کے بعد سکول کے آخری سیشن (پانچویں) کا آغاز کیا گیا۔ آخری سیشن کا ایجنڈا ’’مابعد جدیدیت (پوسٹ ماڈرنزم) پر مارکسی تنقید‘‘تھا۔ اس سیشن کو چیئر اختر منیر نے کیا جبکہ مفصل بحث آدم پال نے کی۔

آدم پال پانچویں سیشن (مابعد جدیدیت پر مارکسی تنقید) میں لیڈ آف دیتے ہوئے۔

 

آدم نے بحث شروع کرتے ہوئے کہا کہ مابعد جدیدیت حکمران طبقے کا فلسفہ ہے جو بنیادی طور پر مارکسزم کے خلاف اتارا گیا ہے۔ اس کا مقصد محنت کشوں کو تقسیم کرنا ہے اور اس کی ترویج زیادہ تر یونیورسٹیوں میں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے۔ اسی فلسفے کے تحت محنت کش طبقے سے نفرت سکھائی جاتی ہے اور اسے کم تر اور حقیر بنا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ یونیورسٹیوں کے عوام دشمن پروفیسروں کو عالی دماغ اور عقل کل کہا جاتا ہے۔ اس فلسفے میں محنت کش طبقے کے سماج میں کلیدی کردارکا خاتمہ کر دیا جاتا ہے اور طبقاتی کشمکش کو یا ثانوی حیثیت دی جاتی ہے یا بالکل ہی خارج کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بر عکس مارکسی نظریات کی بنیاد ہی محنت کش طبقے کی جدوجہد پر ہے اور مارکسزم کے مطابق یہی طبقہ سماج کا سب سے ترقی پسند طبقہ ہے جبکہ طبقاتی تضاد سماج کا سب سے بنیادی تضاد ہے۔
اس موضوع پر بحث اس لیے اہمیت کی حامل ہے تاکہ اسکے خلاف جدوجہد کی جاسکے۔اس فلسفے کو مارکسزم سے ملتا جلتا فلسفہ بنا کر پیش کیا گیا اور کئی’ اکیڈمک مارکسسٹ’ اور نام نہاد ترقی پسند ادیب اسکے فروغ میں مصروف ہیں اور کتابیں شائع کروا تے رہتے ہیں تاکہ مارکسزم کو کمتر ثابت کیا جا سکے۔ نام نہاد ‘اکیڈمک مارکسسٹ’ اور ادیب جو اپنے آپ کو حقیقی مارکسی کہلاتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ وہ دور حاضر کی ضروریات کے مطابق مارکسزم کی تشریح مابعد جدیدت کے ذریعے کرتے ہیں درحقیقت حکمران طبقے کے دلال ہیں۔ مارکسزم کے حقیقی نظریات سے آگاہی کے لیے جہاں مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کی تصنیفات سے راہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے وہاں مزدوروں اور طلبہ کی جدوجہد میں عملی شمولیت کے بغیر اسے سمجھنا ممکن نہیں۔ اسکے بعد آدم پال نے مابعد جدیدیت کی ابتدا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ درحقیقت سٹالنزم کے غلط نظریات کو مارکسزم سمجھ کر اسکے رد عمل کے طور پر ابھرا تھا۔ اسکے بعد آدم پال نے مارکسزم کے نظریات پر بحث کرتے ہوئے اسکے ظہورپر بات کی اور کہا کہ یہ ایک تاریخی عمل کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوا ہے اسی طرح پھر آدم پال نے تاریخی مادیت ، جدلیاتی مادیت اور مارکسی معیشت کی برتری کو بیان کیا۔ آدم پال نے کہا کہ مابعد جدیدیت کو نیا فلسفہ کہا جاتا ہے اور مارکسزم کو پرانا، لہٰذا یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ مابعد جدیدیت سب سے ترقی یافتہ فلسفہ ہے جبکہ ضروری نہیں ہر وہ تھیوری جو نئی ہے درست بھی ہو۔ دوسرا یہ کہ یہ فلسفہ نیا بھی نہیں ہے بلکہ ہزاروں سال پرانی بحثوں کو رنگ روغن کر کے پیش کر رہا ہے۔ یہ فلسفہ کہتا ہے کہ دنیا کو جانا نہیں جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ فلسفہ بنیادی طور پر موضوعی عینیت پرست فلسفہ ہے اور اس میں کچھ بھی نیا نہیں۔ ہمیں قدیم یونان میں یہ بحثیں پہلے سے ہوتی ہوئی نظر آئیں خاص طور پرافلاطون کے گورگیاس کے حوالے سے کیے گئے بیان سے یہ فلسفہ نقل کیا گیا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ کانٹ کے فلسفے میں بھی یہ واضح طور پر کہا گیا کہ شے بالذات کو جانا نہیں جا سکتا۔ اسکے بعد اس فلسفے کے سیاست پر اثرات پر تفصیلی بات کی کہ یہ فلسفہ کس طرح مظلوم قومیتوں اور خواتین کی آزادی سمیت سماج میں جاری مختلف لڑائیوں کو ایک دوسرے سے اور محنت کش طبقے کی جدوجہد سے کاٹتا ہے اور حکمران طبقے کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔
آدم پال کی مفصل بحث کے بعد سوالات کے سلسلے کا آغاز ہوا اور سوالات کی روشنی میں کشمیر سے یاسر ارشاد، بہاولپور سے عرفان منصور، اسلام آباد سے ماہ بلوص اسد،کراچی سے علی برکت، گوجرنوالہ سے صبغت وائیں اور لاہور سے عثمان ضیاء نے بحث میں حصہ لیا۔ انہوں نے اس عنوان کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی بات کی جن میں ادب اور فلسفیانہ بحثوں پر زیادہ گفتگو کی گئی ۔


آخر میں اس سیشن اور تمام تر سکول کی بحث کو سمیٹتے ہوئے آدم پال کا کہنا تھا کہ حکمران طبقے کے پھیلائے ہوئے جھوٹے نظریات جو محنت کش طبقے کو تقسیم کرنے کیلئے پھیلائے جاتے ہیں کے خلاف ہمیں ایک غیر متزلزل جدوجہد کو تیز کرنا ہوگا اور درست نظریات کو محنت کشوں اور نوجوانوں تک لے کر جانا ہوگا۔
یہ ایک کامیاب سکول تھا۔ شدید معاشی و سماجی پریشانیوں کے باوجود اس سکول میں نوجوانوں کی بڑی تعداد کا شامل ہونا قابل داد ہے۔ مگر ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی ہوگی کہ اس سکول میں ہونے والی تمام تر بحثوں کا مقصد محض علم میں اضافہ کرنا یا سماج میں دانشوری مسلط کرنا نہیں تھا بلکہ ان سنجیدہ بحثوں کا مقصد درست نظریات کا ادراک اور انہیں مزدور اور طلبہ تحریک میں پھیلانا ہے۔ سماج شدید ترین تبدیلیوں کا شکار ہے اور پاکستان میں بھی ایک بڑی عوامی تحریک بن سکتی ہے جس کے لیے ہمیں تیار ہونا ہوگا۔ اپنے کام کو اور تیز کرنا ہوگا۔ درست نظریات محنت کشوں اور نوجوانوں کی وسیع پرتوں تک لے کر جانے ہونگے۔ یہ ہم پر تاریخی فریضہ ہے۔

سکول کا اختتام مزدوروں کا عالمی ترانہ گا کر کیا گیا۔ 

3 Comments

  1. Pingback: Progressive Youth Alliance – وڈیو: زر کیا ہے؟ (?What is Money)

  2. Pingback: Progressive Youth Alliance – وڈیو: طلبہ یونین بحالی کانفرنس، ریلی اور مارکسی سکول، گرما 2018 کی جھلکیاں

  3. Pingback: Progressive Youth Alliance – وڈیو: ریاست اور انقلاب

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.