کشمیر: کامیاب تین روزہ مارکسی سکول کا انعقاد

|رپورٹ: انفارمیشن سیکرٹری، پی وائے اے|

18 جولائی 2019ء کی شام تک پاکستان کے مختلف کونوں سے 110 انقلابی نوجوان، طلبہ اور محنت کش انتہائی کٹھن معاشی و سماجی حالات میں مارکسی نظریات سیکھنے کی لگن دل میں لیے سدھن گلی (کشمیر) پہنچے۔ اس سکول کو منعقد کرانے میں ویسے تو پوری تنظیم ہی مبارکباد کی مستحق ہے مگر کشمیر انقلابی ساتھیوں کی دن رات کی کوششوں کی بدولت انتہائی کامیاب سکول منعقد ہو پایا۔

ویسے تو کئی حوالوں سے یہ سکول انتہائی کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے، جیسے نئے نوجوانوں کی تمام سیشنز میں بھرپور شرکت، وقت پر سیشنز کا انعقاد، انتہائی اعلیٰ ثقافتی معیار وغیرہ۔ مگر سب سے اہم کامیابی خواتین کی بہت بڑی تعداد میں شرکت تھی۔ اس مارکسی سکول میں لگ بھگ25 خواتین نے شرکت کی۔ پاکستان جیسے پسماندہ ترین سماج میں خواتین کی اتنی بڑی تعداد میں شرکت یقینا ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔

تین روزہ مارکسی سکول مجموعی طور پر 5 سیشنز پر مشتمل تھا۔ پہلے دن دو سیشنز ہوئے، پہلا ”عالمی و پاکستان تناظر“ کے عنوان پر اور دوسرا داس کیپیٹل کے حصہ دوم ”زر کی سرمائے میں تبدیلی“ کے عنوان پر۔ دوسرے دن بھی دو سیشنز ہوئے، پہلا ”مارکسی فلسفہ: جدلیاتی مادیت“ کے عنوان پر اور دوسرا ”انقلابِ فرانس (1789-94ء)“ کے عنوان پر۔ تیسرے دن ایک ہی سیشن ہوا۔ اس سیشن میں ”پاکستان میں نوجوانوں میں کام“ پر تفصیلی بحث کی گئی۔

پہلا دن

پہلا سیشن: عالمی و پاکستان تناظر

تصور ایوب، عالمی و پاکستان تناظر پر بات کرتے ہوئے۔

19جولائی 2019ء کی صبح سکول کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ یاسر ارشاد نے ملک کے طول وعرض سے آنے والے شرکا کو خوش آمدید کہا۔ پہلا سیشن ”عالمی و پاکستان تناظر“ کے موضوع پر تھا جسے کشمیر سے عاقب نے چیئر کیا اور اس پر بحث کا آغاز فیصل آباد سے تصور ایوب نے کیا۔ تصور نے کہا کہ ہم ایک نئے عہد میں رہ رہے ہیں جس میں واقعات کی رفتار بہت تیز ہے، لیکن یہ نیا عہد مارکس وادیوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ یہ ان کے پیش کیے گئے تناظر کے مطابق ہی ہے۔ انہوں نے 2008ء کے بحران سے قبل کے معاشی ابھار پر روشنی ڈالی اور 2008ء کے بحران کی وجوہات کا تجزیہ کیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ معاشی بحران سے نکلنے کی کوشش میں سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا پر اس کے باوجود بحالی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس بحران سے حکمران طبقے کے تضادات کھل کر سامنے آ گئے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ چند ممالک میں اشاریوں کی معمولی بہتری کو بحالی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور معاشی بحران سر پر کھڑا ہے جس کی پیش گوئی صرف مارکس وادی ہی نہیں بلکہ سرمایہ داری کے سنجیدہ جریدے بھی کر رہے ہیں۔

تصور نے اس صورت حال کے پس منظر میں امریکی سامراج کی کمزوری پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اب اس میں وہ ماضی والا دم خم نہیں رہا کہ وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنا ہی تعمیر کردہ ورلڈ آرڈر قائم رکھ سکے۔ اس بات کا اظہار مشرق وسطیٰ، افغانستان اور شمالی کوریا جیسے معاملات میں امریکہ کی بے بسی سے ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے امریکہ کے معاشی بحران پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ نام نہاد بحالی کے باوجود امریکی معیشت میں آگے بڑھنے کی سکت نہیں رہی اور اسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ”پہلے امریکہ“ جیسے نعرے لگا کر تحفظاتی اقدامات کیے جارہے ہیں جو چین اور یورپ کے ساتھ تجارتی جنگ کا باعث بن رہے ہیں، جو خود معاشی بحران کا شکار ہیں۔ چین کی معیشت کا انحصار بھی قرضوں پر ہے، اور یہ قرضوں کا بلبلہ ایک نئے معاشی بحران کے جنم کا باعث بن سکتا ہے۔ یورپ بھی اس وقت شدید بحران کا شکار ہے جس کا اظہار مختلف ممالک میں اٹھنے والی تحریکوں اور بریگزٹ جیسے مظاہر کی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس وقت بریگزٹ برطانوی حکمران طبقے کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ یورپی یونین کو چلانے والا جرمن حکمران طبقہ بھی شش و پنج کا شکار ہے کیونکہ بریگزٹ کے بعد اور بھی کئی ممالک یورپی یونین سے نکلنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ اسی صورت حال کی روشنی میں انہوں نے برطانیہ میں جیرمی کوربن کے ابھار کی وضاحت کی اور اس کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ وہ بریگزٹ کے معاملے پر کوئی ٹھوس موقف اپنانے سے قاصر ہے۔ انہوں نے اس صورت حال کے پیش نظر یورپی یونین کے ٹوٹنے کے امکان پر بھی بات کی۔
انہوں نے عالمی معاشی بحران پر مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی بحران کسی قسم کی بحالی کے امکانات کو رد کردیتا ہے۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے امریکہ کے سیاسی بحران اور ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں اس کے اظہار کی مثال دی اور کہا کہ ڈیموکریٹس اور ریپبلکن دونوں پارٹیوں میں اسٹیٹس کو ٹوٹتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جس کا اظہار برنی سینڈرز اور ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں ہوا جبکہ سٹیٹس کو کی نمائندہ ہیلری کلنٹن کو منہ کی کھانی پڑی۔ انہوں نے دنیا کی عمومی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے نئی تحریکوں کا تناظر پیش کیا اور کہا کہ یہ تحریکیں اپنے اظہار کے لیے نئے اوزار بھی تخلیق کریں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان تحریکوں کا ابھار طبقاتی بنیادوں پر ہی ہو گا۔ اس موقع پر انہوں نے ماحولیاتی تبدیلی پر ابھرنے والی تحریک کا ذکر کیا جس میں طبقاتی سوال کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور درست طور پر بڑے سرمایہ داروں کی ہوس کو ماحول کی تباہی کا سبب قرار دیا جا رہا ہے۔

انہوں نے عالمی صورت حال کی روشنی میں پاکستان کی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تاریخی طور پر ایک طفیلی ریاست ہے اور زوال کے اس دور میں پاکستان کا حکمران طبقہ مالی طور پر یتیم ہو چکا ہے۔ عالمی تعلقات میں تبدیلی اور امریکی سامراج کے زوال نے پاکستان پر براہ راست اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس صورتحال میں ہمیں پاکستان اور امریکہ کے بگڑتے ہوئے تعلقات دکھائی دے رہے ہیں۔ امریکہ کے زوال کے پیش نظر پاکستان کا حکمران طبقہ چین کی گود میں بیٹھنے کی خواہش رکھتا تھا مگر زوال کے اس دور میں چین پاکستانی حکمران طبقے کی سرپرستی کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ اس صورتحال میں پاکستانی ریاست کا بحران شدید ہوتا جا رہا ہے اور حکمران طبقے اور اداروں کے اندرونی تضادات سطح پر دیکھے جاسکتے ہیں۔

اس کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا اور حاضرین نے سوالات کے ذریعے بحث میں بھرپور دلچسپی کا اظہار کیا۔ اس کے بعد بحث کو آگے بڑھانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسلام آباد سے عمر ریاض نے بحث میں حصہ ڈالتے ہوئے کہا کے سرمایہ دارانہ نظام کے اندرونی تضادات بحران کا باعث بنتے ہیں اور حکمران طبقے کے پاس بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے انہوں نے اس نظام کے خاتمے کے لیے انقلابی قیادت کی اہمیت پر زور دیا۔ فیصل آباد سے عثمان ضیاء نے پاکستانی صنعت کے زوال اور بند ہوتی فیکٹریوں کا ذکر کیا اور کہا کہ میڈیا سرمایہ دار طبقے کا نمائندہ ہے اور کبھی بھی مزدوروں کے مسائل بیان نہیں کرتا۔ انہوں نے ہندوستان میں مودی کی جیت کی وجوہات اور پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت کی گرتی ہوئی مقبولیت پر بھی بات کی۔

ملتان سے فضیل اصغر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر تفصیلی بات کی۔ انہوں نے حالیہ ایران امریکہ تنازعے میں امریکی سامراج کی کمزوری کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امریکی سامراج اپنی ماضی کی حیثیت کھو چکا ہے انہوں نے مشرق وسطیٰ میں پھر سے ابھرتی ہوئی تحریکوں اور ان کے باقی دنیا پر پڑنے والے اثرات بیان کیے۔ انہوں نے خطے میں اسرائیل اور سعودی عرب کی جارحیت پر بھی تنقید کی۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ عوام ان تمام مسائل سے تنگ ہیں اور ان کا حل چاہتے ہیں اور اگر کسی چیز کی کمی ہے تو ایک انقلابی کی قیادت ہے جو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے خطے کے تمام مسائل حل کرے۔ خیبر پختونخوا سے باسط نے سرمایہ داری میں انسانیت پر ہونے والے مظالم پر تنقید کی اور فاٹا کی صورتحال پر روشنی ڈالی۔ لاہور سے بابر نے آئی ایم ایف کے ایما پر تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں پر تنقید کی اور طلبہ تحریک کی ضرورت پر زور دیا او راس تحریک میں پی وائے اے کے کردار پر بات کی۔ بہاولپور سے فرحان رشید نے عالمی سطح پر موجود عدم استحکام، چین کی معاشی صورتحال اور سی پیک کے منصوبے پر بات کی اور اس صورتحال میں نام نہاد بائیں بازو کے کردار کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ حیدرآباد سے مصدق نے سندھ کی قوم پرست تحریک کے زوال کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کا انحصار عوام سے زیادہ عالمی سامراجی اداروں پر تھا جو ان کے زوال کا باعث بنا۔ دادو سے خالد جمالی نے کہا کہ پاکستان، امریکی اور چینی سامراج کے درمیان پھنسا ہوا ہے اور جنوبی ایشیا میں طاقتوں کے توازن میں تبدیلی سے پاکستان کی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ لاہور سے رائے اسد نے عالمی معاشی بحران کے اسباب پر بات کی۔ انہوں نے چین کی ڈوبتی ہوئی معیشت اور اسے بچانے کے لیے سی پیک جیسی کوششوں کی وضاحت کی۔

سیشن کے آخر میں تصور نے سوالات کی روشنی میں بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی ریاست کے بحران کا اظہار ہے نہ کہ اس کی وجہ سے امریکی ریاست بحران کا شکار ہے۔ انہوں نے ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سوشلسٹ انقلاب کے بعد سامراجی قرضے ادا کرنے سے انکار کردیا جائے گا کیونکہ سود کی شکل میں پہلے ہی قرضوں سے کئی گنا زیادہ رقم ادا کی جا چکی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ذرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت میں لے لیا جائے گا جس سے اس ملک کے تمام باشندوں کی ضروریات با آسانی پوری کی جا سکیں گی۔ انہوں نے بدلتی ہوئی عالمی صورتحال میں عالمی مارکسی رجحان کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمارا کام ایک انقلابی قیادت کی تعمیر ہے جو عالمی سطح پر سوشلسٹ انقلاب کی قیادت کا فریضہ سر انجام دے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان سمیت ہر ملک میں ہمیں ایسی قیادت تعمیر کرنے کی ضرورت ہے جو عوام کو درست راہنمائی فراہم کرتے ہوئے اس نظام کی تبدیلی کا فریضہ سرانجام دے۔

دوسرا سیشن: سرمایہ؛ حصہ دوم، ”زر کی سرمائے میں تبدیلی“

زین العابدین دوسرے سیشن میں بات کرتے ہوئے۔

دوسرا سیشن کارل مارکس کی شہرہئ آفاق کتاب ’سرمایہ‘ کے باب ”زر کی سرمائے میں تبدیلی“ سے متعلق تھا، جسے چیئر خالد جمالی نے کیا اور اس پر بحث کا آغاز زین العابدین نے کیا۔ زین نے کہا کہ سرمایہ داری کا داس کیپیٹل سے بہتر تجزیہ آج تک نہیں پیش کیا جا سکا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ہمیں سماج کی تمام دولت اشیاء یا کموڈیٹیز (Commodities) کے انبار کی شکل میں نظر آتی ہے اور کموڈیٹی ایسی شے کو کہا جاتا ہے جو انسانی ضرورت کو پورا کرے اور اس بنیاد پر اس کا دوسری اشیاء کے ساتھ تبادلہ کیا جاسکے، یعنی جس میں قدر استعمال اور قدر تبادلہ ہوتی ہے۔ اشیاء میں ’قدر‘ انسانی محنت سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ کموڈیٹی وہ خلیہ ہے جس سے سرمایہ دارانہ نظام تشکیل پاتا ہے۔ کموڈیٹی کی قدر کا اظہار زر کی صورت میں ہوتا ہے۔ زر کموڈیٹی کے تبادلے میں سہولت کار کا کام کرتا ہے اور سماجی ارتقاء کے ساتھ اس کی شکلیں تبدیل ہوتی آئی ہیں۔

انہوں نے مزید وضاحت کی کہ دو اشیاء کا تبادلہ صرف تب ہوسکتا ہے جب ان کی قدر برابر ہو۔ اشیاء کی قدر کا تعین لازمی سماجی وقت محن سے ہوتا ہے۔ زر، ’سرمایہ‘ تب بنتا ہے جب کموڈیٹیز کو منڈی میں بیچنے کے بعد منافع حاصل ہو (یہی منافع جب دوبارہ پیداواری عمل میں لگایا جاتا ہے تو یہ سرمایہ بن جاتا ہے)۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا محض اشیاء کے تبادلے کے وقت نہیں ہو سکتا، جیسا کہ سرمایہ دارانہ معیشت دان دعویٰ کرتے ہیں۔ اگر اشیاء کے تبادلے میں انہیں ان کی قدر سے زائد پر پر فروخت کر کے منافع کمایا جا سکتا تو دنیا کا ہر شخص سرمایہ دار بن سکتا تھا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ منافع انسانی قوت محنت کے استحصال سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے جو اشیاء کی پیداوار کے دوران ہوتا ہے۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس سے سرمایہ دارانہ نظام کا استحصال واضح ہوتا ہے۔

زین نے مزید وضاحت کی کہ مارکس کے مطابق سرمائے کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف منافع ہی نہیں بلکہ شرح منافع دے بصورت دیگر وہ سرمایہ نہیں رہ سکتا۔ یہی وہ چیز ہے جو سرمایہ دار کو مجبور کرتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کی تگ و دو میں رہے۔ مارکس کے الفاظ میں:
”سرمایہ ایک خون آشام عفریت کی مانند ہوتا ہے جو زندہ انسانی محنت کا خون چوستا ہے، اور وہ جتنا خون چوستا ہے اتنا زیادہ پھلتا پھولتا ہے۔ ایک سرمایہ دار کی شکل میں سرمائے کا مجسم اظہار ہوتا ہے۔“

اس کے بعد حاضرین نے مختلف سوالات کیے اور بحث کے سلسلے کو آگے بڑھایا گیا۔ ملتان سے وقاص سیال نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں اشیاء کی پیداوار کا مقصد ان کا تبادلہ ہوتا ہے۔ اسکے بعد انہوں نے سماج میں زر کے ارتقاء اور کردار پر روشنی ڈالی۔ لاہور سے رائے اسد نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں مزدور کا زندہ رہنا بھی ضروری ہوتا ہے اس لیے اسے اتنی اجرت دی جاتی ہے کہ وہ زندہ رہ سکے اور اپنی اگلی نسل پیدا کر سکے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ منافع کیسے پیدا ہوتا ہے اور مختلف مثالوں کے ذریعے محنت کشوں کا استحصال بیان کیا۔ لاہور سے فرحان گوہر نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مارکس نے سرمائے کو ایک زندہ قوت کے طور پر بیان کیا ہے۔ انہوں نے سرمائے کے جنم اور ارتقاء پر تفصیلی بات کی۔ انہوں نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ سرمائے کی حاکمیت کا خاتمہ معاشرے کی ترقی اور ارتقاء کے لیے ناگزیر ہے۔

راشد خالد نے مفصل انداز میں بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ مارکس نے دوسرے معیشت دانوں کے تجزیوں کے جوابات دیے ہیں۔ انہوں نے یہ تاریخی حقیقت بیان کی کہ قدر کے انسانی محنت سے پیدا ہونے کا موقف مارکس نے نہیں دیا تھا بلکہ اس سے پہلے بھی اس کا وجود تھا اور بورژوا معیشت دانوں نے ہی اسے پیش کیا تھا۔ راشد خالد نے ضروری سماجی محنت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کسی چیز کی قدر کا تعین اس دور کی پیداواری قوتوں کے حساب سے اس کو پیدا کرنے کے لیے درکار اوسط وقت سے ہوتا ہے۔ انہوں نے اجرتوں میں کٹوتیوں کی وجوہات بھی بیان کیں جن میں سب سے بڑی وجہ سرمایہ داروں کی منافع بڑھانے کی ہوس ہے۔ انہوں نے اس بحث کو موجودہ حالات کے ساتھ جوڑتے ہوئے یہ وضاحت کی کے سرمایہ درانہ نظام کے اس بحران کے دور میں سرمایہ کاری میں کمی کیوں آرہی ہے۔

گوجرانوالہ سے صبغت وائیں نے اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ داس کیپٹل کو پڑھنا ناممکن خیال کیا جاتا رہا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے، اسے پڑھا بھی جاسکتا ہے اور سمجھا بھی جا سکتا ہے، جس کی واضح مثال یہ بحث ہے۔ مختلف سوالوں کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ زندگی گزارنے کے اخراجات مختلف ادوار میں مختلف ہوتے ہیں اور بنیادی ضروریات بھی تبدیل ہوتی رہتی ہیں، اس وجہ سے محنت کشوں کی اجرتیں بھی ایک سی نہیں رہتیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ استحصال میں کمی آگئی ہے بلکہ استحصال میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور طبقاتی خلیج بھی بڑھتی رہتی ہے۔ انہوں نے اس غلط فہمی کی شدید مذمت کی کہ مشین پیداوار کرتی ہے، پیداوار ہمیشہ انسان کرتا ہے اور آخری تجزیے میں انسانی محنت کے بغیر پیداوار ممکن ہی نہیں ہے۔ انہوں نے مارکس کے تجزیے کے طریقہ کار کو سمجھنے پر زور دیا۔

آخر میں زین نے سوالات کی روشنی میں بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ داس کیپیٹل پر بحث کا مقصد یہ ہے کہ اسے کامریڈز کو مطالعے کی تحریک ملے، نہ کہ یہاں سب کچھ بتا دیا جائے اور پڑھنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ انہوں نے مطالعے پر مزید زور دیتے ہوئے کہا کہ نظریات کی پختگی کے بغیر عملی جدوجہد نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے واضح کیا کہ سرمایہ دار اور مزدور کا رشتہ ازلی اور ابدی نہیں بلکہ ارتقائی عمل کا ایک حصہ ہے جسے تبدیل ہو کر رہنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ داری طبقاتی نظام کا عروج ہے اور اس کے بعد ہی طبقاتی نظام کا خاتمہ ممکن ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس نظام میں اکثریت کے پاس بیچنے کے لیے اپنی قوت محنت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا اور اسی وجہ سے اقلیت ان کی قوت محنت کا استحصال کر کے اپنے لیے منافع حاصل کرتی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ سماج میں بیگانگی عام ہوتی جارہی ہے۔ مزدور جو اشیاء پیدا کرتا ہے وہ انہیں خریدنے کی سکت نہیں رکھتا اس لیے وہ اپنے کام، سماج اور اپنے آپ سے بیگانہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس نظام میں پیدا ہونے والے تمام مسائل اس نظام کو اکھاڑ کر ہی حل کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن اس نظام کو اکھاڑنے کے لیے اسے سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔

شام کو خواتین میں کام کے حوالے سے ایک کمیشن منعقد ہوا جس کی صدارت ناصرہ وائیں نے کی۔ کمیشن میں خواتین میں کام کے حوالے ٹھوس اقدامات پر بحث کی گئی اور خواتین کے سوال پر تقریبات کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا۔

دوسرا دن

تیسرا سیشن: مارکسی فلسفہ؛ جدلیاتی مادیت

سلمی جدلیاتی مادیت پر بات کرتے ہوئے۔

دوسرے دن کا آغاز انقلابی شاعری سے ہوا۔ بابو ولیم، عثمان ضیاء، احمد سلیم، رائے اسد اور مصدق نے شاعری سنا کر حاضرین کو خوب محظوظ کیا۔ شاعری کے بعد سیشن کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ تیسرے سیشن میں جدلیاتی مادیت کے فلسفے پر بحث کی گئی جسے راول اسد نے چیئر کیا اور اس پر بحث کا آغاز سلمیٰ نے کیا۔ بحث کے آغاز میں سلمیٰ نے فلسفے میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کی وضاحت کی۔ اس کے بعد سلمیٰ نے ’مادے‘ کے متعلق مختلف فلسفیوں کے خیالات بیان کیے۔ انہوں نے بتایا کہ مادے اور خیال کا تعلق فلسفے کا بنیادی سوال رہا ہے۔ لینن کے الفاظ دہراتے ہوئے کہا کہ مادہ انسانی شعور سے باہر وجود رکھتا ہے۔ اس نے مختلف مثالوں کے ذریعے یہ واضح کیا کہ مادہ کا انسانی شعور سے آزاد ایک وجود ہے اور اس وجود کو مانتے ہوئے ہی ہم اس کا درست تجزیہ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے فلسفے کی دو بڑے مکاتب فکر مادیت پسندی اور عینیت پرستی کی بھی وضاحت کی کہ مادیت پسندوں کے مطابق مادہ شعور سے باہر وجود رکھتا ہے ہے جبکہ عینیت پرست یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ خیال کو مادے پر فوقیت حاصل ہے اور مادہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے فلسفے کی تاریخ بھی بیان کی جس میں مختلف فلسفی ان دونوں مکاتب فکر کے حق اور مخالفت میں دلائل دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے جدلیات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جدلیات کا فلسفہ پہلی مرتبہ ہیراکلیتس (Heraclitus) نے پیش کیا تھا، مگر یہ بالکل بنیادی نوعیت کا تھا۔ اپنی جدید ترین شکل میں جدلیات کا فلسفہ ہیگل کے ہاں ملتا ہے مگر وہ ایک خارجی عینیت پسند تھا اس لیے اس کا فلسفہ بھی عینیت کے اثرات میں ڈوبا ہوا تھا۔ مارکس اور اینگلز نے اس فلسفے کو مادی بنیادیں فراہم کیں اور یہ جدلیاتی مادیت کی شکل میں ہمارے سامنے آیا۔

اس کے بعد سلمیٰ نے مختلف مثالوں کے ساتھ ساتھ جدلیاتی مادیت کے بنیادی اصولوں کی وضاحت کی۔ ان اصولوں میں ’مقدار کی معیار اور میں معیار کی مقدار میں تبدیلی‘، ’ضدین کا اتحاد‘ اور ’نفی کی نفی‘ شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جدید سائنس بھی جدلیات کے قوانین کی تصدیق کرتی ہے اور جوں جوں سائنس ترقی کرتی جا رہی ہے یہ اصول سچ ثابت ہوتے جا رہے ہیں، کیونکہ ان اصولوں کو فطرت سے اخذ کیا گیا ہے۔ یہ اصول سائنس کے ساتھ ساتھ معاشرے پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔

اس کے بعد انہوں نے جدلیات کی مختلف کیٹیگریز (Categories) کے متعلق بتایا کہ زیادہ کنسپٹس (Concepts) کو ملا کر کیٹگریز بنتی ہیں۔ انہوں نے مختلف کیٹیگریز کی مثالوں سے وضاحت کی جن میں essence and appearance، chance and necessity، possibilty and reality وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ تمام کیٹیگریز آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔

اس کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا اور حاضرین نے بڑی تعداد میں فلسفہ کے متعلق سوالات کیے۔ اس سیشن میں سوالات کی تعداد پہلے دو سیشنز کی نسبت بہت زیادہ تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ سوالات کا معیار بھی بہت زبردست تھا۔ سوالات کی روشنی میں بحث کو آگے بڑھایا گیا۔ لاہور سے عدیل زیدی نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فلسفے کی اہمیت بیان کی۔ انہوں نے آج کے دور میں سائنس اور فلسفے کے تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کے سائنس کو آگے بڑھنے کے لیے ہمیشہ فلسفے کی ضرورت رہتی ہے اور آج کل بھی مختلف نظریات کی شکل میں جدلیاتی مادیت کے اصولوں کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مختلف مثالوں کی مدد سے جدلیاتی اصولوں کو مزید واضح کیا۔ انہوں نے جزو اور کل کے تعلق پر تفصیل سے بات کی۔ رسمی منطق اور جدلیات کے تعلق پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رسمی منطق ایک خاص وقت تک ناگزیر تھی مگر مزید پیچیدہ سائنسی اور سماجی عوامل کو سمجھنے کے لیے ہمیں جدلیاتی منطق کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد خیبر پختونخواہ سے فرہاد نے بحث کو آگے بڑھایا انہوں نے مارکسزم کے تین سرچشموں پر بات کی جو جدلیاتی مادیت، تاریخی مادیت اور سیاسی معیشت ہیں۔ شمالی پنجاب سے سنگر نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ جدلیاتی منطق اور رسمی منطق میں بنیادی فرق تضادات کا ہے۔ رسمی منطق تضادات سے دور بھاگتی ہے جبکہ جدلیاتی منطق تضادات کو گلے لگاتی ہے۔ انہوں نے رسمی منطق کے تین اصولوں اور ان کی محدودیت پر تفصیل سے بات کی۔
گوجرانوالہ سے ناصرہ وائیں نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے فلسفے کی اہمیت پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ سماج کے دوسرے شعبوں کی طرح فلسفے پر بھی حکمران طبقے کا راج ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں ایک انقلابی فلسفے کی ضرورت ہے جو کہ جدلیاتی مادیت کا فلسفہ ہے۔ انہوں نے عینیت پرستی اور مادیت پسندی کے فرق کو بھی واضح کیا۔ دادو سے آئے ہوئے خالد جمالی نے گفتگو میں شریک ہوتے ہوئے جدلیاتی اصولوں کی مختلف مثالوں اور سائنس کے ذریعے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جدلیاتی مادیت ہی وہ فلسفہ ہے جس کے ذریعے سماج کو حقیقی معنوں میں سمجھ کر تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ شمالی پنجاب سے عمر ریاض نے گفتگو کے تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے جدلیاتی مادیت کے فلسفے پر مزید بات کی۔ انہوں نے انسانی شعور اور فلسفے کی ابتدا اور ارتقاء کے متعلق گفتگو کی اور مختلف مثالوں کے ذریعے جدلیاتی اور رسمی منطق کے فرق کو مزید واضح کیا۔

لاہور سے فرحان گوہر نے گفتگو کو ایک نیا موڑ دیتے ہوئے کہا کہ ضروری نہیں کہ ہم فلسفے کی وضاحت کے لیے چھوٹی چھوٹی چیزوں کی مثالیں لیں، ہم سماج میں ہونے والی بڑی بڑی تبدیلیوں کو بھی جدلیاتی مادیت کے اصولوں کی مثالوں کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے اس بحث کو پاکستانی سماج کی ابتر حالت اور قومی بورژوازی کے خصی پن کے ساتھ جوڑتے ہوئے حالات کا فلسفیانہ تجزیہ پیش کیا اور تنظیم سازی میں بھی جدلیاتی مادیت کے اصولوں کی اہمیت پر زور دیا۔ ملتان سے راول اسد نے بات کرتے ہوئے یہ بیان کیا کہ ہم دنیا کو کس طرح جدلیاتی مادیت کی نظر سے دیکھ سکتے ہیں، اس ضمن میں انہوں نے سائنس اور سماج سے مختلف مثالیں دیں۔ انہوں نے کہا کہ انسانی سماج کے ارتقاء کو جدلیاتی مادیت کے فلسفے کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔
گوجرانوالہ سے صبغت وائیں نے انتہائی تفصیل کے ساتھ اس موضوع کا احاطہ کیا اور فلسفے کے متعلق پائے جانے والے بہت سے غلط تصورات کی درستی کی۔ انہوں نے واضح کیا کہ کوئی چیز مادہ نہ ہوتے ہوئے بھی مادی ہوسکتی ہے کیونکہ وہ مادے کی وجہ سے جنم لیتی ہے، مثال کے طور پر سایہ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی چیز کا ہونا مادی ہے تو کس چیز کا نہ ہونا بھی مادی ہے۔ انہوں نے رسمی منطق (Formal Logic) سے متعلق غلط فہمیوں کو بھی دور کیا۔ انہوں نے بحث کے دوران پیش کیے جانے والے مختلف خیالات کی تصیح اور وضاحت بھی کی۔ آخر میں سلمیٰ نے سوالات کی روشنی میں بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ مارکسی فلسفے کا درست ادراک تمام انسان دشمن فلسفوں کا جواب دیتا ہے اور مارکسی فلسفہ آج واحد انسان دوست فلسفہ ہے۔

چوتھا سیشن: انقلابِ فرانس1789-94ء

چوتھے سیشن میں انقلابِ فرانس پر بحث کی گئی۔ اس سیشن کو چیئر رائے اسد نے کیا اور اس پر گفتگو کا آغاز عبید ذوالفقار نے کیا۔ گفتگو کے آغاز سے قبل عثمان ضیاء، اختر منیر، رائے اسد، مشتاق اور احمد سلیم نے انقلابی شاعری سنائی۔ عبید نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی انقلابی تحریک کے لئے نظریات سب سے اہم ہوتے ہیں اور ان کی اہمیت سے کسی طور بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ تاریخ میں انقلابات کیا کردار ادا کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ انقلابات تاریخ کے انجن ہوا کرتے ہیں جو سماج کو آگے لے کر جاتے ہیں۔ انقلابِ فرانس1789ء کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسی انقلاب نے جدید دنیا کی کی بنیاد رکھی تھی۔ انہوں نے بورژوا تاریخ دانوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیں کبھی بھی درست تاریخ نہیں بتاتے۔ وہ تاریخ کو حادثات کے ایک ایسے تسلسل کے طور پر دیکھتے ہیں جس میں کوئی ربط نظر نہیں آتا۔ عبید نے تاریخی مادیت کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کوئی بھی نظام جب ذرائع پیداوار کو بڑھوتری دینے کے قابل نہیں رہتا تو اس نظام کا تبدیل ہونا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انقلابِ فرانس کی نظریاتی بنیادیں چودھویں اور پندرہویں صدی کے روشن خیالی کے نظریات سے ملتی ہیں۔ اس دور میں ہونے والے دوسرے انقلابات نے بھی انقلاب فرانس پر گہرے اثرات مرتب کیے جن میں انگلستان کا انقلاب اور اور امریکہ کی جنگ آزادی بھی شامل ہیں۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ بورژوا تاریخ دان بھی انقلاب فرانس کے متعلق غلط بیانی سے کام لیتے ہیں، انقلاب کی حقیقی قوت محرکہ عوام تھے۔ انقلاب سے قبل کی صورتحال کو بیان کرتے ہوئے عبید نے کہا کہ آبادی کی بھاری اکثریت کا معیار زندگی گرتا چلا جا رہا تھا تھا لوگوں کے پاس کھانے کو روٹی تک نہ تھی اور ٹیکسوں میں اس قدر اضافہ ہو چکا تھا کہ حالات برداشت سے باہر ہوتے جا رہے تھے۔ مگر شاہی خاندان کی شاہ خرچیوں اور عیاشیوں میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں آ رہی تھی۔ شاہی خاندان کے لیے گئے قرضوں کا بوجھ عوام کو اٹھانا پڑ رہا تھا۔ ایسی صورتحال میں اشرفیہ اور بادشاہ کے درمیان تضادات کھل کر سامنے آگئے تھے۔ اس صورتحال میں عوام بغاوت پہ اتر آئے، مگر ان کی رہنمائی کرنے والے بورژوا طبقے نے ہر موقع پر مصالحت سے کام لینے کی کوشش کی۔

اس کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ سوالات کے بعد ملتان سے احسن نے بحث کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے کہا کہ آج تک کی تاریخ انقلابات سے بھری پڑی ہے خاص طور پر سرمایہ داری کے آغاز میں ہمیں بہت سے انقلابات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ انھوں نے وضاحت کی کہ انقلاب فرانس کا کردار بورژوا جمہوری یعنی سرمایہ دارانہ تھا۔ انقلاب نے کلیسائی اجارہ داری اور جاگیرداری کا خاتمہ کیا اور مذہب کو ریاست سے علیحدہ کرنے جیسے دیگر فرائض ادا کیے۔ انہوں نے انقلاب سے پہلے کے فرانس کے ابتر حالات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ سرمایہ دار طبقے کو ملکیتی رشتوں کے تقدس کی فکر تھی اسی وجہ سے وہ بار بار مصالحت کی کوشش کرتا رہا۔ فیصل آباد سے عبداللہ نے انقلاب فرانس سے متعلق غلط فہمیوں پر بات کی۔ انہوں نے اس دور میں دیہی اور شہری زندگی کے فرق کی وضاحت کی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ عوام اور بورژوازی کے مفادات میں واضح فرق تھا، اسی وجہ سے بورژوا طبقہ غداری کرتا نظر آتا ہے۔ اسلام آباد سے لقمان نے بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے سماجی ارتقاء میں انقلاب کی ناگزیریت پر زور دیا۔ گوجرانوالہ سے صبغت وائیں نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ تاریخ اپنے آپ کو بلند پیمانے پر دہراتی ہے۔ انہوں نے اس دور کے فلسفیوں کے خیالات پر تفصیل سے بات کی۔ انہوں نے انقلاب فرانس کی نظریاتی بنیادوں کا گہرائی سے تجزیہ کیا۔ انہوں نے وولٹیئر اور روسو کے نظریات پر تفصیل سے بات کی اور انقلاب کے ساتھ ان کے تعلق کو واضح کیا۔
لاہور سے مشعل وائیں نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کے بعد میں ہونے والے انقلابات بات کو سمجھنے کے لیے انقلاب فرانس کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے ان حالات کا تفصیلی جائزہ لیا جو انقلاب کا باعث بنے۔ انہوں نے انقلاب پر لگنے والے ان الزامات کا جواب دیا جس میں اسے ایک خونی انقلاب بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ہم انقلابی امن پسند ہوتے ہیں مگر انقلاب کے راستے میں آنے والی کسی بھی رکاوٹ کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا جانتے ہیں۔ اس کے بعد راشد خالد نے تفصیل سے ان تمام حالات کا تجزیہ پیش کیا جو انقلاب کا باعث بنے۔ انہوں نے انقلاب کے متعلق جھوٹے دعوؤں اور الزامات کا جواب دیا۔ انہوں نے بتایا کہ انقلاب کی قیادت کا تعلق پیٹی بورژوا طبقے سے تھا اور کلیسا اور جاگیرداری کا خاتمہ عوام نے کیا نہ کہ قیادت نے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انقلاب اور رد انقلاب ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں اور اس دوران طاقت کا توازن ڈگمگاتا رہتا ہے۔ انہوں نے انقلاب فرانس اور دیگر سرمایہ دارانہ انقلابات میں فرق کو واضح کیا جن میں ہالینڈ، انگلستان اور امریکہ کے انقلابات شامل ہیں۔ حیدرآباد سے مصدق نے انقلاب کی فلسفیانہ بنیادوں پر بات کی۔ شمالی پنجاب سے عمر ریاض نے نے انقلاب فرانس کے مختلف پہلوؤں پر تفصیل سے بات کی۔

ملتان سے فضیل اصغر نے تاریخی مادیت کے تناظر میں انقلاب فرانس کا تجزیہ کیا۔ انہوں نے فرانس اور روس کے انقلابات کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ تاریخی طور پر ابھی کمیونسٹ انقلاب کا وقت نہیں آیا تھا۔ انہوں نے انقلاب کے بعد نپولین بونا پارٹ کے ابھار کی بھی وضاحت کی۔ انہوں نے تناظر پیش کیا کہ آنے والا انقلاب سوشلسٹ انقلاب ہی ہو گا۔ آخر میں عبید نے بحث کو سمیٹتے ہوئے سوالات کے جوابات دیے۔ اس سیشن کے اختتام کیساتھ دوسرے سیشن کا بھی اختتام ہوا۔

تیسرا دن

عمر ریاض پانچویں اور آخری سیشن میں بات کرتے ہوئے۔

اتوار کے روز صرف ایک سیشن تھا، جس کا عنوان ”نوجوانوں میں کام“ تھا۔ اس سیشن کو چیئر فضیل اصغر نے کیا جبکہ پی وائی اے کے چیئرمین عمر ریاض نے پروگریسو یوتھ الائنس کی تعمیر کے حوالے سے تفصیل سے روشنی ڈالی۔ عمر ریاض نے پاکستان کے موجودہ سیاسی، معاشی اور سماجی حالات کے پس منظر میں نوجوانوں بالخصوص طلبہ کے مستقبل قریب میں تحرک میں آنے کے تناظر پر تفصیلی گفتگو کی اور اس تحریک میں پی وائی اے کے کلیدی کردار کی اہمیت پر تفصیلی بات کی۔ اسی طرح گزشتہ تجربات سے سیکھتے ہوئے نوجوانوں میں کام کے حوالے سے مختلف تجاویز پیش کیں۔ عمر ریاض نے کہا کہ نوجوانوں کی سیاسی اور نظریاتی تربیت کے لیے ابھی تک ہمارے پاس کوئی آرگن موجود نہیں تھا اس لیے وقت آگیا ہے کہ اس کمی کو بھی پورا کیا جائے اور اس حوالے پروگریسو یوتھ الائنس کے نظریاتی پرچے کی اشاعت کا اعلان کیا جسے تمام حاضرین نے تالیاں بجا کر سراہا۔ عمر نے کہا کہ نوجوانوں میں کام کو آگے بڑھانے اور ان کی نظریاتی تربیت کے لیے یہ میگزین ایک کلیدی کردار ادا کرے گا اور آغاز میں ای – میگزین (e-magazine) کے طور پر شائع کیا جائے گا۔ عمر ریاض کی تفصیلی گفتگو کے بعد مختلف تجاویز کیلئے سیشن کو سب کیلئے اوپن کر دیا گیا۔ ہال میں بیٹھے تمام لوگوں (بالخصوص نوجوانوں) کی جانب سے اس سیشن میں بھرپور شمولیت اختیار کی گئی۔ بے شمار قیمتی تجاویز سامنے آئیں۔ تجاویز کے بعد عاقب نے سکول کی فنانس رپورٹ پیش کی۔فنانس رپورٹ کے بعد ناصرہ وائیں نے خواتین کے کمیشن کی رپورٹ پیش کی۔

آخر میں راشد خالد نے تین روزہ مارکسی سکول کے اختتامی کلمات ادا کیے۔ راشد کا کہنا تھا کہ بلا شبہ یہ سکول ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ انہوں نے انقلابی جدوجہد میں نظریات کی اہمیت پر تفصیلی بات کی۔ کشمیر کی ٹیم کو کامیاب سکول کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی۔ ہال میں موجود تمام کامریڈز کو یہ باور کرایا کہ اس سکول کا مقصد قطعاً محض فلسفہ، تاریخ، معیشت اور سیاست پر باتیں کر کے اپنے آپ کو سماج سے بڑا محسوس کرنا (جیسا دانشوروں کا طریقہ کار ہے) نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد ہماری انقلابی جدوجہد میں نظریاتی درستگی حاصل کرنا ہے اور پھر درست نظریات کو عاجزی کیساتھ سماج کی لڑاکا پرتوں تک لے کر جانا ہے۔ موجودہ عالمی سماجی، معاشی اور سیاسی حالات کے پس منظر میں ان کا کہنا تھا کہ سرمایہ داری کے نامیاتی بحران کی وجہ سے آج انسانی تہذیب خطرے میں ہے۔ آج اگر نسل انسانی کو اس دلدل سے کوئی نکال سکتا ہے تو وہ اس دنیا کا محنت کش طبقہ ہے جو پوری دنیا میں بہت بڑی تعداد اور شدت کیساتھ تحرک میں آرہا ہے۔ آج یہ ہمارا اولین فریضہ بن چکا ہے کہ محنت کش طبقے کی اس تاریخی لڑائی میں اسے نظریاتی طور پر پختہ اور لڑاکا قیادت فراہم کریں تا کہ پاکستان، اس پورے خطے (جنوبی ایشیا) اور پوری دنیا میں محنت کش طبقے کو اس جنگ میں کامیاب بنایا جا سکے اور دنیا کو بربریت (جیسا آج مشرق وسطیٰ میں ہوہا ہے) سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

تین روزہ مارکسی سکول کا اختتام محنت کشوں کا عالمی ترانہ گا کر کیا گیا۔ عالمی ترانہ جیسے ہی ختم ہوا تو انقلابی نعروں سے ہال گونج اٹھا۔ یہ گونج آدھے گھنٹے تک سنائی دیتی رہی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.