کوئٹہ: دو روزہ مارکسی سکول کا انعقاد

|رپورٹ: پی وائی اے/ریڈورکرزفرنٹ|

کوئٹہ میں 29 اور 30 جولائی کو پی وائی اے اور ریڈورکرزفرنٹ کے زیراہتمام لال سلام آفس میں دو روزہ ریجنل مارکسی سکول کا انعقاد ہوا۔ سکول مجموعی طور پر 4 سیشنز پر مشتمل تھا، عالمی اور پاکستان تناظر، داس کیپیٹل کے 150 سال، مارکسزم اور خواتین اور روس؛ انقلاب سے ردانقلاب تک۔

سکول کا باقاعدہ آغاز ولی خان نے کیا اور سکول کے تمام سیشنز کے اہمیت کے حوالے سے بات رکھی، جس کے بعد پہلے سیشن عالمی اور پاکستان تناظر کا آغاز ہوا جس کو چیئر نوروز زہری نے کیا جبکہ لیڈ آف بلاول بلوچ نے دی۔ اپنے لیڈآف میں بلاول نے سرمایہ داری کے موجودہ بحرانات کے حوالے سے بات رکھی اور اسکے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے اندر سیاسی تبدیلیوں اور انکے اثرات کے حوالے سے تفصیلی بحث رکھی، انہوں نے برطانیہ کی مجموعی صورتحال کا احاطہ کیا، جبکہ امریکہ ،یورپ، لاطینی امریکہ، مشرقِ وسطیٰ وایشیا کے حوالے سے مفصل اظہارِ خیال کیا۔ جبکہ پاکستانی ریاست کے اندرونی بحرانات کے حوالے سے جن میں وزیرِ اعظم کی حالیہ نااہلی اور اسکے بعد کی بننے والے حالات پر تفصیل سے بحث کی۔ لیڈآف کے بعد سوالات کا سیشن چلا جس میں شرکا نے خصوصی طور پر دلچسپی لی۔ اسکے بعد کنٹریبیوشنز کا سلسلہ چل پڑا جس میں ولی خان، رزاق غورزنگ، نبی کریمی ، ایاز امیر اور چنگیز نے سوالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے بحث کو آگے بڑھایا۔ جبکہ سیشن کا سم اپ کرتے ہوئے بلاول نے چین کے سامراجی کردار اور سی پیک کے حوالے سے بات کی، جبکہ قومی سوال پر مارکسسٹ موقف کو واضح کیا۔ اسکے ساتھ پہلے سیشن کا اختتام ہوا۔

کھانے کے وقفے کے بعد دوسرے سیشن کا آغاز ہوا جو کہ ’’داس کیپیٹل کے 150 سال‘‘ پر تھا۔ اس سیشن کو چیئر ایاز امیر نے کیا جبکہ لیڈ آف رزاق غورزنگ نے دی۔ غورزنگ نے اپنی بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ مارکس نے 150 سال قبل اپنی اس شاندار تصنیف کے ذریعے جو پیش گوئیاں کی تھیں، وہ آج تاریخ کے میدان میں سچ ثابت ہو چکی ہیں۔ اْنہوں نے مزید کہا کہ مارکس نے پہلی مرتبہ سرمایہ اور محنت کے تضاد کی منطق کا ذکر کیا۔ اور مارکس کی داس کیپٹل کو سمجھنے کے لیے مارکس کے طریقہ کار کو پڑھنا لازمی ہے، جسکے لیے مارکسزم کو پڑھنا ازحد ضروری ہے۔ اْنہوں نے مزید کہا کہ مارکس نے داس کیپٹل کو لکھنے کے لیے عالمی ادب اور بورژوا معیشت دانوں کی تصانیف کا مطالعہ کیا۔ بحث کو مزید بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ داس کیپٹل پر حملے کرنے والوں کو عالمی بورژوازی انعامات سے نوازتی ہے، جبکہ آج تک داس کیپٹل کی سچائی کو کوئی چیلنج نہیں کر سکا۔ اسکے بعد سوالات ہوئے جنکے جوابات دینے کے لیے کنٹریبیوشنز کا سلسلہ چل پڑا۔ سوالات کی روشنی میں کریم پرہر، چنگیز بلوچ، ولی خان نے بحث کو آگے بڑھایا۔ اسکے بعد رزاق غورزنگ نے سم اپ کرتے ہوئے کہا کہ مارکسزم کو سمجھنے کے لیے داس کیپٹل کا سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ آج بھی سرمایہ داری کے بیشتر معیشت دان داس کیپٹل ہی سے اپنے مسائل کے حل کے لیے رجوع کرتے ہیں۔ اسطرح دوسرے سیشن کا اختتام ہوا۔

دوسرے دن کے پہلے سیشن اور مجموعی طور پر تیسرے سیشن ’’مارکسزم اور خواتین کا سوال‘‘ کو چیئر حضرت عمر نے کیا جبکہ لیڈآف کریم پرہر نے دی۔ بحث کا آغاز میں انہوں نے سرمایہ داری کے اندر خواتین کے حالات، مشکلات اور مصائب کا ذکر کیا۔ جبکہ جدید رسمی منطق کہ خواتین ازلی طور پر غلام، مظلوم اور محکوم ہیں اور یہاں سے ماقبل تاریخ اشتراکیت میں خواتین کے کردار پر روشنی ڈالی کہ خواتین کا سماج میں کیا کردار رہا ہے۔ اسکے علاوہ انقلابِ برطانیہ، فرانس اور روس کے اندر خواتین کے کردار پر بحث کی۔ اسکے بعد فیمینزم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دراصل فیمینزم سرمایہ دار طبقے کا محنت کش طبقے کو تقسیم کرنے کا آلہ ہے۔ اسکے بعد سوالات کی روشنی میں بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے بلاول بلوچ، ولی خان، رزاق غورزنگ اور نبی کریمی نے بات رکھی۔ بحث کو سمیٹتے ہوئے کریم پرہر نے کہا کہ خواتین کے سوال کا موجودہ نظام کے اندر کوئی حل نہیں ہے، بلکہ خواتین کے سوال کو محنت کش طبقے کی جڑت کیساتھ جوڑتے ہوئے اسکے حتمی منزل یعنی کہ غیر طبقاتی معاشرے کے اندر ہی درست بنیادوں پر حل کیا جا سکتا ہے۔

کھانے کے وقفے کے بعد دوسرے دن کے دوسرے اور مجموعی طور پر آخری سیشن ’’روس؛ انقلاب سے رد انقلاب تک‘‘ کا آغاز ہوا۔ اس سیشن کو نصیر نے چیئر کیا جبکہ لیڈآف چنگیز بلوچ نے دی۔ بحث کا آغاز کرتے ہوئے روس کے اندر زار شاہی کی سلطنت اور اس بادشاہت کے اندر جدوجہد کے مختلف رجحانات کا ذکر کیا۔ مارکسزم کے ابھار اور پھر RSDLPکے قیام اور پھر 1903ء کی پھوٹ، 1905ء کے انقلاب اور پہلی جنگِ عظیم کے دوران مارکسسٹوں کی پوزیشنز اور جدوجہد کو واضح کیا۔ اس کے بعد دوسری انٹرنیشنل کی زوال پذیری اور پھر لینن کے دوسری انٹرنیشنل میں لیفٹ اپوزیشن بنانے کے عمل سے لیکر 1917ء کے عظیم بالشویک انقلاب پر مفصل انداز میں روشنی ڈالی۔ بالشویک انقلاب میں لینن اور ٹراٹسکی کے کردار اور پھر سٹالنزم کے ابھار پر بحث کو آگے بڑھایا۔ اس کے بعد سٹالنزم کے اثرات اور ان اثرات کا مارکسی نقطہ نظر سے جائزہ لیا۔ سوالات کے سیشن کے بعد کنٹریبیوشنز میں بلاول، اللہ داد، کریم، اور رزاق نے بالشویک انقلاب کے ذریعے قومی سوال اور سٹالنزم کے نظریات حوالے سے مفصل بات کی۔ اسکے بعد بحث کو سمیٹتے ہوئے کامریڈ چنگیز نے سوویت یونین کی مسخ شدہ مزدور ریاست کے دنیا بھر میں انقلابات کے حوالے سے کردار کی منظر کشی کی۔ 

اس کے بعد سکول کا باقاعدہ اختتام کامریڈز نے انٹرنیشنل کے ساتھ کیا، اور یوں ایک کامیاب سکول اپنے اختتام کو پہنچا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.