کراچی: پی وائی اے کی جانب سے ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس کراچی|

پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے12 اگست بروز اتوار بمقام ارتقا سنٹر یونیورسٹی روڈ ایک روزہ ریجنل مارکسی سکول کا انعقاد کیاگیا۔ سکول دو سیشنز پر مشتمل تھا۔

پارس جان پہلے سیشن میں لیڈ آف دیتے ہوئے۔

پہلاسیشن کارل مارکس کی شہرہ آفاق کتاب سرمایہ کے دوسرے اور تیسرے ابواب پر تھا جسے کامریڈ ثنا ء اللہ نے چیئر کیا اور اس پر لیڈ آف کامریڈ پارس جان نے دی۔ لیڈآف کا آغاز سرمایہ داری کے موجودہ نامیاتی بحران کے عمومی خاکے سے کیا گیا اور اس صورتحال میں مارکس کے تجزیئے اور تناظر کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کیا گیا۔ اس کے بعد موضوع پر بات کا آغاز کرتے ہوئے مختصراً سرمایہ کے پہلے باب میں کی گئی بحث کو بیان کیا گیا تاکہ اگلے ابواب کا مدعا بآسانی سمجھا جا سکے۔کموڈیٹی کیا ہے، اس کا تاریخی ارتقا کیسے ہوا۔ کامریڈ پارس نے کہا کہ اوائل میں انسانی سماج بارٹر سسٹم (باہمی لین دین ) کے تحت اشیائے صرف کا تبادلہ کر لیتے تھے۔ مگر جب ایک کمیونٹی دوسری کے ساتھ لین دین کرتی تھی تو اس کے لیئے ایسا مال تیار کیا جانے لگا جس کا مقصد براہِ راست تصرف یا استعمال کی بجائے صرف فروخت تھا۔ یہ کموڈیٹی کی ابتدا تھی مگر جب ایک بارکمیونٹی کے خارجی سماجی تعلقات میں یہ معاشی تعلق استوار ہو گیا تو بیک وقت بھی کمیونٹی کی داخلی زندگی پر بھی اس کا اطلاق نا گزیر تھا۔ مارکس نے اس خوبی کی جانچ پڑتال کی جس کی بنیاد پر اشیا ایک دوسرے کے ساتھ قابلِ تبادلہ ٹھہرتی ہیں، مارکس نے اسے ان اشیا کی قدر قرار دیا۔ قدر کی پیمائش کموڈیٹی میں غرق ہونے والی انسانی محنت کی مقدار سے ممکن تھی۔ کموڈیٹی میں قدرِ افادہ اور قدرِ مبادلہ آپس میں ایک متضاد تعلق کے ارتباط میں پائی جاتی ہیں۔ قدرِ افادہ کا تعلق ٹھوس اور مخصوص انسانی محنت سے ہے اور یہ کموڈیٹی کے معیاری سماجی تعلق کی غماز ہے۔ جبکہ قدرِ مبادلہ کا تعلق مجرد انسانی محنت سے ہے جو اشیا کے باہمی مقداری تعلق کو ظاہر کرتی ہے۔ کموڈیٹی کے مالک کے لیئے اسکی کموڈیٹی میں صرف قدرِ مبادلہ ہوتی ہے اور اس کی قدرِ افادہ اس کے خریدار سے وابستہ ہوتی ہے۔تبادلے کے عمل میں ہی قدر کا قانون اپنا اظہار کرتا ہے۔ قدر اور قیمت میں فرق ہوتا ہے۔ قیمت کا تعین منڈی میں جبکہ قدر کا تعین پیداواری عمل میں ہوتا ہے۔ مانگ اور رسد کے باہمی تعلق کے باعث اشیا اپنی قدر سے کم یا زیادہ پر قابلِ تبادلہ ہوتی ہیں۔ محنت کی مقدار کی پیمائش کسی بھی سماج میں ذرائع پیداوار کی ترقی کی مخصوص کیفیت اور تقسیمِ کار کے تابع ہوتی ہے اور مارکس اسے سماجی معیاری ضروری محنت کا نام دیتا ہے۔تبادلے کی ترقی اور اشیا کی تعداد میں مسلسل اضافے نے ایک خاص تاریخی مرحلے پر ایک یونیورسل مساوی القوت کی ضرورت کو جنم دیا۔ یوں تو مالک کے لیے اسکی شے ہی یونیورسل مساوی القوت ہوتی ہے ، لیکن چونکہ یہ معاملہ ہر مالک کے ساتھ ہوتا ہے، اسلئے کسی ایک شے کا عمومی قدر کا حامل ٹھہرایا جانا ناگزیر تھا۔ یہ بظاہر اتفاقی معلوم ہوتا ہے کہ دھاتیں یعنی سونا ، چاندی وغیرہ اس مقصد کے لئے استعمال ہونے لگے مگر اس کی مادی وجوہات میں دھاتوں کا یکساں(homogenious) ہونا، پائیدار ہونا، مقداری طور پر قابلِ تقسیم اور جمع، تفریق ہونا اور پھر تھوڑی حجم میں زیادہ قدر کا حامل ہونا شامل تھیں۔تبادلے کے نظام میں مزید پیچیدگی کے باعث روپے کا کردار ادا کرنے والی دھاتوں کے سکوں کے علامتی ناموں اور ان کے حقیقی اوزان کے درمیان تعلق منقطع ہو گیا اور اب یہ محض ٹوکن کی شکل اختیار کر گئے جس کے باعث کاغذی نوٹوں کا رواج آیا۔ آجکل تو ڈیجیٹل انفارمیشن کے ذریعے لین دین معمول کی بات بن چکا ہے۔بظاہر یوں لگتا ہے کہ روپیہ اشیا کو گردش میں رکھتا ہے لیکن دراصل وہ اشیا کے تبادلے کے اظہار کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتا۔ روپے کا دوہرا کردار ہے یعنی یہ گردش کا ذریعہ ہونے سے پہلے اور حقیقت میں اشیا کی اقدار کی پیمائش کا آلہ ہی ہے۔ تبادلے کا عمل بیک وقت خریدار اور فروخت ہوتا ہے جسے c-m-c کی علامتوں میں سمجھا جا سکتا ہے۔ شے کا ملک روپیہ لے کر شے دے دیتا ہے۔ شے تصرف میں آ کر ختم ہو جاتی ہے مگر روپیہ مستقل گردش میں رہتا ہے ۔اس علامتی تعلق کا پہلا مرحلہ یعنی c-m کسی دوسرے تعلق کا دوسرا مرحلہ ہوتا ہے جبکہ اس کا دوسرا مرحلہ بیک وقت کئی نئے تعلقات کی زنجیروں کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے۔ یوں بہاؤ اور تبادلے کا مسلسل عمل جاری رہتا ہے۔ گردش میں موجود نوٹوں کی تعداد کو اشیا کی کل اقدار یا قیمتوں کے مجموعے کو تبادلے کی ولاسٹی یعنی نوٹوں کے چکروں کی تعداد سے تقسیم کر کے جانا جا سکتا ہے۔ یہ کہنا کہ ہر فروخت کنندہ اپنے ساتھ خریدار لے کر منڈی میں آتا ہے اس لئے تجارتی توازن ہمیشہ برقرار رہتا ہے، نری بکواس ہے کیونکہ مذکورہ بالا علامتی تعلق کے پہلے اور دوسرے مرحلے میں زمان و مکاں کے لحاظ سے تفاوت ممکن ہوتا ہے۔ فروخت کنندہ روپے کو روک کر اسے ذخیرہ کر سکتا ہے تاکہ پھر کسی وقت میں بڑے پیمانے کی خریداری کر سکے۔ یہی تفاوت حد سے بڑھ کر بحران کی بنیاد بن سکتا ہے۔ روپے کے ادائیگیوں کے ذریعے کے طور پر کردار نے بہی خواہوں اور بہی داروں کے مابین مخاصمتی اتحاد کو ترقی اور ترویج دی ہے۔مختلف ممالک کے مابین تجارت کے لیئے عالمی روپے کی شکل ناگزیر تھی جو کردار آجکل امریکی ڈالر سر انجام دے رہا ہے۔
لیڈ آف کے اختتام پر سوالات اور کنٹریبیوشنز ہوئے۔ معراج اور کامریڈ انعم نے بحث میں حصہ لیا اور بعد ازاں سم اپ کرتے ہوئے کامریڈ پارس جان نے سوالات کے جوابات دیئے اور مانگ اور رسد کے تعین کی وضاحت کی اور کرنسی یا روپے کے بغیر سماج کو کیونکر اور کیسے چل سکتا ہے اسکی وضاحت کی۔

معراج ہاشمی دوسرے سیشن میں لیڈ آف دیتے ہوئے۔

وقفے کے بعد دوسرا سیشن شروع ہوا جو لینن کی شاندار تصنیف ریاست اور انقلاب پر تھا۔ اس سیشن کو کامریڈ جلال نے چیئر کیا اور کامریڈ معراج نے لیڈ آف دی۔ لیڈ آف میں وضاحت کی گئی کہ ریاست ازلی اور ابدی نہیں ہے بلکہ یہ سماج کی طبقاتی تشکیل کے بعد معرضِ وجود میں اور طبقات کے خاتمے کے بعد رفتہ رفتہ ختم ہو جائے گی۔ یہ کوئی خارجی یا بیرونی چیز نہیں بلکہ اس بات کا اظہار ہے کہ سماج ناقابلِ حل طبقاتی تضادات کا شکار ہو چکا ہے۔ ریاست آخری تجزیئے میں مسلح لوگوں کے جتھے ہی ہوتے ہیں جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ محکوم طبقہ استحصال کے خلاف اٹھ نہ کھڑا ہو۔ لیڈ آف کے بعد سوالات اور کنٹڑی بیوشنز ہوئے۔ کامریڈ ثنا ء اللہ اور انعم نے بحث میں حصہ لیا اور کامریڈ پارس جان نے اس سیشن کا سم اپ کیا۔ انٹرنیشنل گا کر سکول کا اختتام کیا گیا۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.