|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، حیدرآباد|
24 نومبر 2019 کو حیدر آباد میں پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے ایک سیشن پر مشتمل مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا، جس میں لینن کی تصنیف ”ریاست اور انقلاب“ زیر بحث آئی۔ سکول کو چیئر مصدق سیال نے کیا جبکہ تفصیلی بات علی عیسیٰ نے کی۔
علی عیسیٰ نے آغاز کتاب کے پیش لفظ میں لکھے گئے جملوں کے مفہموم کو بیان کرتے ہوئے کیا۔ جن میں نظریات کی اہمیت اور حکمران طبقے کے انکے خلاف پراپیگنڈا کا ذکر تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مارکس وادیوں پر فرض ہے کہ وہ اپنے اساتذہ یعنی مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کی روایات کو اپنا کر نظریات کا ہر صورت دفاع کریں۔ اس کے بعد انہوں نے ریاست پر مارکسی موقف کو واضح کیا اور ریاست کی رائج الوقت تعریف (حکمران طبقے کی) اور مارکسی تعریف میں فرق واضح کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مارکسزم اس بات کو قطعی رد کرتا ہے کہ ریاست ازلی و ابدی ادارہ ہے اور یہ ایک خدائی دین ہے، بلکہ اس کے برعکس ہر شے کی طرح ریاست بھی ارتقائی سفر طے کر کے اس شکل تک پہنچی ہے جسے ہم تاریخی مادیت کی مدد سے دیکھتے ہوئے اس طرح بیان کر سکتے ہیں کہ انسانی سماج کے ارتقائی سفر میں جب پیداوار میں اضافہ ہوا یعنی ذائد پیداوار کا جنم ہوا تو دو طبقات بنے جن کے مفادات آپس میں ٹکرانے لگے۔ تب ایک طبقے کی طرف سے (جو زائد پیداوار پر قابض تھا) دوسرے طبقے کو (جو پیداوار کرتا تھا) کو کچلنے کے لیے ریاست کی ضرورت پڑی۔ لینن کے مطابق ریاست ایک طبقے کی جانب سے دوسرے طبقے پر جبر کا اوزار ہے۔ اسکے بعد انہوں نے سوشلسٹ انقلاب کی صورت میں سرمایہ دارانہ ریاست کے خاتمے اور مزدور ریاست کے قیام کے عمل پر بھی بات کی اور مزدور ریاست کے کردار کو واضح کیا۔
اس کے بعد شیراز اور حامد نے بحث میں حصہ لیا اور اختتام پر پارس جان نے بحث کو سمیٹتے ہوئے سوالات کے جواب دئیے۔