حیدرآباد: میر مہران خان کے نام سے منسوب ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد

|رپورٹ: وطن دوست سٹوڈنس فیڈریشن|

مورخہ 27 جولائی 2019ء بروز ہفتہ، خانہ بدوش رائٹرز کیفے میں ایک روزہ مارکسی سکول کا اہتمام کیا گیا۔ سکول چند ماہ پہلے عالمی مارکسی رحجان کی سالانہ گانگریس میں جاتے ہوئے ایک ناگہانی حادثے کا شکار ہونے والے وطن دوست سٹوڈنس فیڈریشن کے سیکٹری جنرل مہران خان کے نام سے منسوب کیا گیا، جو تین سیشنز پر مشتمل تھا۔ سکول میں 30 کے قریب لوگوں نے شرکت کی۔

سٹیج سیکرٹری کے فرائض کامریڈ انصار شام نے سر انجام دیے۔ پہلے سیشن میں کامریڈ شیراز نے تنظیمی تعارف اور کارکردگی کی رپورٹ پیش کی۔ دوسرے سپیکر کامریڈ سرمد سیال نے کامریڈ مہران خان کی مختصر زندگی میں کی گئی انقلابی جدوجہد پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مہران خان نے اپنی مختصر زندگی میں تاریخی جدوجہد کی۔ انہوں نے سیاست کی شعوری ابتدا جبری گمشدگی جیسے ایشو سے کی، جو پاکستان جیسے عقوبت خانے میں ایک سنگین جرم سے کم نہیں۔

ان کے بعد کامریڈ مہران اور دیگر چند ساتھیوں نے نوجوانوں تک رسائی اور تربیت کے لیے پروگریسو یوتھ سوسائٹی بنائی جس فورم کے ذریعے چند ماہ تک سٹڈی سرکلز چلائے گئے، پر جب ان سرکلز کے ساتھیوں کو محسوس ہوا کہ مسائل کا حل فورمز اور قوم پرستی کا نظریہ نہیں تو انہوں نے مارکسی بنیادوں پر وطن دوست سٹوڈنس فیڈریشن کی بنیادیں رکھیں جو آئی ایم ٹی (عالمی مارکسی رجحان) کے ساتھیوں سے ملنے کے بعد مزید نظریاتی طور پر پختہ ہوئے۔ کامریڈ مہران نے ہر سماجی ظلم پر بغاوت کا علم بلند کیا اور طلبہ کے ہر مسئلہ پر سرگرم عمل رہے۔ آئیے ساتھیو! عہد کریں مہران خان کے مشن کو آگے بڑھائیں اور سوشلسٹ انقلاب تک جدوجہد جاری رکھیں۔ سچے جذبوں کی قسم جیت ہماری ہوگی۔

اس کے بعد قومی سوال پر کامریڈ امر فیاض نے بات کرتے ہوئے کہا جو جدید قوم پرستی کا لفظ ہمارے سماج میں گونج رہا ہے اس کا جنم دراصل صنعتی انقلاب کے دوران ہوا جس کا استعمال سرمایہ داروں نے اپنا سرمایہ محفوظ کرنے کے لیے کیا۔ پر اب یہ ممکن نہیں کیونکہ اب قومی سرمائے کی جگہ اجارہ داری نے لے لی ہے۔ صنعتی سرمایہ بینک کے سرمائے میں ضم ہو کر مالیاتی سرمائے کی شکل میں آگیا ہے۔ مختصراََ پیداوار اور سرمائے نے ارتقاز کر کے اجارہ داری کو جنم دیا ہے جس کے سبب قومی سرمایہ داری کی جگہ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے لے لی ہے۔ ان سب چیزوں کو مد نظر رکھ کر ہم حل کے طور پر سوشلسٹ انقلاب کو پیش کرتے ہیں۔

ہمارے نظریاتی استاد اور عظیم مارکسی مفکر لینن کہتے تھے کہ زار روس مظلوم قومیتوں کا قید خانہ ہے۔ ہم پاکستان کے لیے بھی یہی سمجھتے ہیں۔ ہم نہ صرف مظلوم قومیتوں کے حق خودارادیت کو قبول کرتے ہیں بلکہ حق آزادی کو۔ مگر یہ حمایت بلا مشروط نہیں ہے، ہماری حمایت خطے اور عالمی مزدور تحریک کی کامیابی کیساتھ مشروط ہے۔ بحث کو سمیٹتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آج کے عہد میں مظلوم قومیتوں کی آزادی طبقاتی جڑت کے بغیر ممکن نہیں۔ یعنی جب تک محنت کش طبقہ مظلوم قومیتوں کی قیادت نہیں کریگا تب تک حقیقی آزادی ممکن نہیں۔ مزید لبرل موقف کو رد کرتے ہوئے کامریڈ امر نے کہا کہ آپ ہمیں پڑھنے کے بغیر بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہو کے ہم قومی سوال اور مظلوم قوموں پر ہونے والے جبر پر کھل کر بات نہیں کرتے۔ دیکھو میں اپنی جماعت کی ساری لکھی ہوئی کتابیں ساتھ لایا ہوں۔ پڑھو! ہم نے اس ریاست کو نہ صرف قوموں کا قید خانا لکھا ہے بلکہ اس سے جان چھڑانے کا حل بھی بتایا ہے۔

دیکھو ہم نے ہی لکھا تھا کہ سی پیک ایک سامراجی منصوبہ ہے اور چین ایک سامراج ہے۔ آپ ہمیں سکھاؤگے جو ایک ہی تنظیم میں بیٹھ کر چار چار مختلف کتابیں نکالتے ہو کہ چین کمیونسٹ ہے اور وہ یہاں خوشحالی لائے گا۔ آپ سکھاؤگے جو پاکستانی حکمرانوں کی طرح جب سندھ میں آتے ہو تو ایک بات، بلوچستان میں دوسری اور پنڈی جاکر تیسری بات کرتے ہو۔

ہاں ہم آپ سے الگ ہیں، ہم ایک نہیں، کیوں کہ ہم آپ کی طرح منافق نہیں۔

سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!

اس کے بعد تیسرے سیشن میں کمیونسٹ مینی فیسٹو پر گفتگو کی گئی۔ اس عنوان پر کامریڈ انعم خان نے بات کی۔اس عنوان پر اپنی بات کا آغاز کرنے سے پہلے انعم نے قومی سوال پر مختصر موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ مظلوم قومیتوں کی آزادی محنت کش قیادت اور سوشلسٹ انقلاب کے رستے کے بغیر ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سامراجی آقاؤں کا گماشتہ ہونے کے باوجود خود سامراجی کردار ادا کرتے ہوئے دیگر مظلوم قومیتوں کا استحصال کر رہا ہے جس کا خاتمہ صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہ لبرل قوم پرست حضرات جو سامراج سے مدد کی چاہ رکھتے ہیں وہ کرد قومی تحریک میں امریکی سامراج کی کھلی غداری کا مشاہدہ ضرور کریں۔ مزید کیمونسٹ مینی فسیٹو پر کامریڈ انعم نے بات کرتے ہوئے کہا کہ سرمایہ داری کے موجودہ بحران کے سبب لگ رہا ہے کہ کمیونسٹ مینی فیسٹو کل رات ہی مارکس اور اینگز نے لکھا ہے۔ کمیونسٹ مینی فیسٹو کی ابتداء تاریخی جملے سے ہوتی ہے کہ انسانی سماج کی تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے۔ آقا اور غلام، امیر اور غریب، جاگیردار اور مزارعے یا ہاری کسان، سرمایہ دار اور مزدور کی کشمکش۔ اس کے بعد انہوں نے کمیونسٹ مینی فیسٹو سے متعلق مزید تفصیلی بحث کی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.