|رپورٹ: ریاض جمالی |
20 اگست 2019 بروز اتوار، دادو میں موجودہ عالمی و ملکی صورتحال پر پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے لیکچر پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ اس موضوع پہ لیکچر کے لئے کراچی سے کامریڈ پارس جان نے شرکت کی۔ پروگرام کو چیئر ریاض جمالی نے کیا۔ پروگرام کا انعقادپروگریسو یوتھ الائنس کے دفتر میں ہوا۔ پروگرام میں معزز شہریوں سمیت بڑی تعداد میں طلبہ اور نوجوانوں نے شرکت کی۔
پروگرام کے آغاز میں ریاض جمالی نے تمام شرکاء کو پروگرام میں آنے پہ خوش آمدید کہا۔ اسکے بعد پارس جان کو بات کرنے کیلئے مدعو کیا۔ پارس جان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت اس وقت تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہی ہے۔ اس معاشی بحران کے اثرات ہمیں سماج میں بھی نظر آتے ہیں۔ ثقافت تیزی سے زوال پزیر ہے۔ سماجی زندگی عدم استحکام کا شکار ہے۔ غربت، بیروزگاری اور مہنگائی نے عوام کا جینا مشکل کردیا ہے۔ تعلیم حاصل کرنا اکثریت کیلئے ناممکن ہوچکا ہے۔ علاج غریبوں کی پہنچ سے دور کر دیا گیا ہے۔ یہ سب علامات سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی بحران کی واضح نشانیاں ہیں، جو پاکستان سمیت پوری دنیا میں ظاہر ہوچکی ہیں۔ اس وقت جس طرح پاکستان میں آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عمل کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے جینا مشکل ہوتا جا رہا ہے، اسی طرح ایکواڈور، چلی، ہنڈراس اور لبنان میں آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے خلاف عوام سراپا احتجاج ہے۔ ان ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں عوام اس وقت سڑکوں پر ہے۔ اس کے نتیجے میں بالآخر ایکواڈور میں حکومت کو آئی ایم ایف کی پالیسیوں سے دستبردار ہونا پڑا۔
اسکے بعد پارس جان نے یورپ پہ بات کرتے ہوئے کہا کہ یورپ کا ہر ملک بحران میں گھرا ہوا ہے۔ بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔ گھر نہ ہونے کی وجہ سے لوگ سڑکوں پر سو رہے ہیں جو لوگ برسر روزگار ہیں ان کی اجرت میں کمی لائی جا رہی ہے۔ اس گھمبیر صورتحال کی وجہ سے نسلی اور قومی تضادات بڑھ رہے ہیں۔ برطانیہ اس وقت مکمل طور پر سیاسی بحران میں گھر چکا ہے۔ ٹوری پارٹی بریگزٹ کے معاملے میں کئی وزراء اعظم بدل چکی ہے جس کے باوجود وہ اس مسئلے کا حتمی حل دینے سے قاصر ہے۔ اسکے بعد ترکی کی طرف سے شام کی کرد آبادی کے علاقعوں پہ کیے جانے والے حملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ امریکی آشیرباد کے سواء نہیں کیا جاسکتا تھا۔ سینکڑوں کی تعدام میں معصوم کرد شہری مارے جا چکے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے مشرق وسطیٰ کی عمومی صورتحال اور امریکی سامراج کی زوال پزیری کے اس پر پڑنے والے اثرات پر بات کی اور ترکی کے حملے کی وجوہات کو بیان کیا۔
مزید ان کا کہنا تھا کہ چائنہ اور امریکہ کے درمیان تجارتی جنگ دونوں ممالک کی معیشت کو کمزور کرتی جا رہی ہے۔ سرمایہ داری نظام 2008 کے عالمی معاشی بحران سے ابھی نکلا ہی نہیں کہ اس نظام کے سنجیدہ معیشت دان ایک نئے، مزید گہرے اور تباہ کن بحران کی پیش بینی کر رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے معیشت دان یہ کہہ رہے ہیں کہ اس معاشی بحران میں ہم داخل ہوچکے ہیں اور بہت سے 2020 اور2021 میں بحران کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ ہم مارکس وادی بھی اس بحران کی پیش گوئی کرچکے ہیں جو آنے والے قریبی وقت میں کھل کر اپنا اظہار کرے گا۔
اسکے بعد ملکی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے بڑے بڑے وعدے کئے مگر ان میں سے ایک پر بھی عمل نہیں کر سکی۔ اپنی ساکھ مکمل طور پر کھو چکی ہے۔ جس کی وجہ سے حکومتی پارٹی میں تضادات یہاں تک جا پہنچے ہیں کہ وزیر اعظم کو بھی تبدیل کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ نام نہاد اپوزیشن عمران کی حکومت کے خلاف دھرنے کی تیاریاں کر رہی ہے جس میں روایتی حکمران طبقے کی مختلف پارٹیوں اور چھوٹی بڑی دائیں اور بائیں بازو کی تنظیمیں حمایت کر رہی ہیں۔ وہ مولانا فضل الرحمان آج کی نام نہاد اپوزیشن کے رہنما ہیں جو ماضی میں حکمران طبقے کے مستقل آلہ کار رہ چکے ہیں۔ اس طرح کی اپوزیشن اور اس کی حمایت حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کے برابر ہے۔ اپوزیشن میں رہ کر اس طرح کے دھرنے کرنے کا عمل پاکستان میں کوئی نیا نہیں ہے۔ عمران خان بھی 2014 میں ن لیگ کی حکومت کے خلاف لمبا دھرنا دے چکے تھے جس سے حکومت کو نہیں گرایا جا سکا تھا۔
اس نے مزید کہا کہ دوسری طرف پاکستان میں مزدور طبقے کی مختلف تحریکیں جاری و ساری ہیں جن کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے مکمل طور پر غائب رکھا ہوا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں صحت کے شعبے سے وابسطہ ملازمین کی نجکاری کے خلاف بہت بڑی تحریک جاری ہے۔ واپڈا کے ملازمیں بھی نجکاری کے خلاف پورے پاکستان میں کئی کامیاب احتجاج کر چکے ہیں۔ جن کی بھی میڈیا پہ رپورٹیں نہیں آ رہیں۔
ہمیں پورے پاکستان میں محنت کش طبقہ اپنے حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے نظر آرہا ہے۔ یہ ہمارا فریضہ ہے کہ محنت کش طبقے تک انقلابی نظریات پہنچائیں، مزدور طبقے کی صفوں میں شامل ہوکر انہیں منظم کریں اور سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ کر ایک سوشلسٹ سماج کی بنیاد رکھیں۔ اس موضوع پہ مزید بات کامریڈ ستار نے کی، جس کے بعد شرکاء نے سوالات کئے جن کے جواب دیتے ہوئے کامریڈ پارس نے پروگرام کا سم اپ کیا۔