دادو: پروگریسیو یوتھ الائنس کی جانب سے، ’’جدلیاتی مادیت‘‘ کے عنوان پر لیکچر پروگرام کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسیو یوتھ الائنس دادو| 

پروگریسیو یوتھ الائنس کی جانب سے 23 ستمبر بروز اتوار 2018 کو ’’ جدلیات کیا ہے؟‘‘ کے عنوان سے ایک لیکچر پروگرام منقعد کیا گیا۔ اس پروگرام کو چیئر کامریڈ سلیم جمالی نے کیا اور موضوع پر کامریڈ خالد جمالی نے بات کی۔ کامریڈ خالد نے کہا کہ جدلیات جنگ اور تضادات کا علم ہے۔ جس کی وجہ سے ہمیں ہر جگہ تحرک ملتا ہے۔ فطرت سے لے کر سماجوں تک اور سماج سے لے کر انسانی سوچوں تک ہر جگہ تحرک اور تبدیلیاں رونما ہوتے ہوئے دیکھی جاسکتی ہیں۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ہر وقت ہماری رگوں میں خون دوڑتا رہتا ہے ،ہمارا دل دھڑکتا رہتا ہے۔ جب ہم نیند میں ہوتے ہیں پھر بھی ہمارا پورا جسم متحرک ہوتا ہے۔ ایٹم سے لے کر کہکشاؤں تک ہر چیز ہر وقت تحرک میں ہوتی ہے۔ کامریڈ نے بتایا کہ اس تحرک کی وجہ جدلیاتی مادیت کے اخز کردا اصول ہیں۔ 

خالد جمالی موضوع پر بات کرتے ہوئے۔

جدلیات کا علم قدیم یونانیوں کو بھی تھا جس کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف فلسفیوں نے نکھارا اور آخرکار ہیگل سے ہو کر مارکس اور اینگلز تک پہنچ کر جدلیاتی مادیت کا روپ اختیار کر گیا۔ ہیگل جدلیات کا خیال پرست فلسفی ہے اور مارکس اور اینگلز مادی فلسفی ہیں۔ اینگلز جدلیاتی مادیت کو تین اہم اصولوں میں تقسیم کرتا ہے۔ 
1) مقدار کی معیار میں تبدیلی
2) ضدین کا باہم انضمام
3) نفی کی نفی 
کامریڈ خالد نے مقدار کی معیار میں تبدیلی کی بہت سی مثالیں دیں جن میں سے ایک پانی کے ابال اور انجماد والی مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانی 99 سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت تک پانی ہی رہتا ہے، ٹھرا ہوا پانی۔ پھر محض 1 سینٹی گریڈ کا اضافہ اسے ابلتا ہوا پانی بنا دیتا ہے۔ اور اس طرح پانی بھاپ میں بھی بدل جاتاہے ۔اسی طرح 0 سینٹی گریڈ پر پانی برف میں بدل جاتا ہے جو ہوتا تو پانی ہی ہے مگر پیا نہیں جا سکتا۔ ضدین کے باہم انضمام والے اصول پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ اصول بہت اہم اصول ہے جس کی وجہ سے تحرک اور تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم کسی دکان پر کوئی چیز خریدنا چاہتے ہیں تو ہماری خواہشات دوکاندار سے متضاد ہوتی ہیں۔ یہی وجہ تحرک ہوتی ہے۔ یہی تضاد ایٹم کے اندر بھی ہوتا ہے۔ الیکٹران اور پوزیٹران (اینٹی الیکٹران)۔اسی طرح الیکٹران اور پروٹان کا ٹکرا کر کسی دوسرے ذرے میں بدل جانا۔ اسی طرح ہماری زمین کے اطراف بھی مقناطیسیت کی وجہ سے متضاد ہو کر تبدیل ہوتے ہیں۔ مزید مثالیں دیتے ہوئے انہوں نے ہمارے ہاتھ کے سیدھے اور الٹے ہونے کی بات کی۔ ایک بازو کا طاقتور ہونا اور دوسرے کا نسبتا کمزور ہونا وغیرہ۔ اس کے بعد انہوں نے نفی کی نفی والے اصول پر بات کی، جس کے لئے کامریڈ خالد نے پودے کی مثال دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک بیج اپنی نفی ایک پودے کی شکل میں کرتا ہے اور وہی پودا اپنی نفی درخت کے روپ میں کرتا ہے پھر وہی درخت اپنی نفی مزید بیج دے کر کرتا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نفی کی نفی میں تبدیلی میں چیز خود کو بڑے پیمانے پہ دہراتی ہے۔ جیسے ایک دانے سے بڑی تعداد میں دانے۔ اس طرح انہوں نے انسانی افزائش کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک شخص اپنی نفی اپنی اولاد کی صورت میں کرتا ہے، پھر وہ اولاد اپنی نفی کر کے مزید افزائش کرتے ہوئے نفی کی نفی کرتی رہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نفی کی نفی تھوڑے سے زیادہ کی طرف ترقی ہوتی ہے۔ سادہ سے پیچیدہ کی طرف ترقی ہوتی ہے۔ اس کے بعد کامریڈ خالد نے بات کا اختتام کیا۔ 


اسکے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا، اور تقریبا 10 سے زیادہ سوالات آئے۔سوالات کی روشنی میں عنوان پر مزید بات کرنے کیلئے کامریڈ ستار جمالی نے بحث لیا۔

ستار جمالی بات کررتے ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ جدلیات کے اصول ہر جگہ جاری و ساری ہیں، اگر مقدار کے معیار کے اصول سے انسانی سماجوں کو ہی دیکھ لیں تو ان میں صاف ظاہر نظر آتا ہے کہ ایک نظام جو ایک وقت میں سماج کے لئے ترقی پسند ہوتا ہے، آگے چل کر وہی اپنے الٹ میں بدل جاتا ہے۔ غلامدارانہ نظام ہزاروں برس چلا مگر ایک وقت آنے پر (اپنے اندرونی تضادات کی وجہ سے)وہ مزید نہیں چل سکتا تھا، یہاں مقدار معیار میں تبدیل ہوگئی اور اس غلامدارانہ نظام سے جاگیردارانہ نظام نے جنم لیا۔ یہی جاگیردارانہ نظام ایک ایسے نقطہ پر رکا جہاں وہ مزید نہیں چل سکتا تھا تو اس وقت سرمایہ دارانہ نظام نے اس کے اندر سے جنم لیا۔ اب یہ سرمایہ ارانہ نظام جس میں ہم جی رہے ہیں وہ بھی ایسے ہی اپنے اندرونی تضادات کی بدولت آج اپنی مدت پوری کر چکا ہے اور سماج کو مزید ترقی نہیں دے رہابلکہ اسکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے ،ایسی صورت حال میں اس کے ساتھ بھی وہی ہونا ہے جو باقی نظاموں کے ساتھ ہوا۔یعنی کہ اس نظام کی نئے نظام (سوشلزم) کیساتھ تبدیلی۔ جدلیات کا دوسرا اصول ضدین کا باہم انضمام، اگر دیکھیں تو ہمارے اس سماج میں بھی ہر چیز میں کوئی نہ کوئی تضاد ملتا ہے اور یہ تضاد ہی چیزوں کی حرکت اور ترقی کا سبب بنتا ہے۔ جیسے غلامدارانہ سماج میں غلام اور آقا کا رشتہ ایک ساتھ بھی اور ان میں تضاد بھی، زمیندار اور ھاری کا رشتہ دونوں ایک ساتھ بھی اور ان میں تضاد بھی اور اسی طرح سماج(سرمایہ داری )میں مزدور اور سرمایہ دار ساتھ بھی اور تضاد بھی۔ یہی تضاد ہے، جو ایک چیز میں حرکت پیدا کرتا ہے، اسے آگے دھکیلتا ہے جس طرح اس نے غلامدارانہ نظام کوپیچھے دھکیلا اور جاگیردارانہ نظام کو اور اب اس سرمایہ دارانہ نظام کو دھکیلے گا۔


اسکے بعدکامریڈ سلیم نے پروگریسیو یوتھ الائنس اور اس کے منشور پر بات کی اور سب دوستوں سے منشور لے کر پڑھنے کا کہا۔ کامریڈ سلیم نے سیاسی اور نظریاتی مواد پڑھنے کے لئے “لال سلام” میگزین اور ورکر نامہ اخبار پڑھنے کو کہا۔ جو شرکاء نے پروگرام کے آخر میں لئے۔ تمام تر سوالات کی روشنی میں بحث کو سمیٹتے ہوئے کامریڈ خالد نے جدلیاتی مادیت کے متعلق مزید مثالیں دیں اور سرمایہ دارنہ نظام کے تضادات پر بات رکھی۔ نوجوان شرکاء کو سائنس کی تحقیق ’’نظریہ ا نتشار (chaos theory)‘‘،جو جدلیاتی مادیت سے مماثلت رکھتی ہے کہ متعلق بی بی سی کی ڈاکومینٹری فلم ’’سیکرٹ لائیف آف کیاس(secret life of chaos)‘‘ ضرور دیکھنے کا کہا۔ جس کو تمام شرکاء نے نوٹ کیا۔ کامریڈ خالد نے سوشلزم کو واحد حل اور سوشلسٹ انقلاب کے لئے جدوجہد کو نجات کا واحد راستہ ثابت کیا۔اس طرح پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا۔ آخر میں تمام شرکاء نے پی وائی اے کی ممبرشپ لی اور مستقبل میں اس طرح کے مزید پروگرام کروانے کا کہا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.