’’آزادی‘‘ کے نعروں کی گونج وادی سے ابھر کر ایک بار پھر پورے کشمیر میں پھیل چکی ہے۔ موجودہ تحریک کو ایک سال پورا ہونے کو آیا ہے مگر تحریک تھمنے کی بجائے پوری شدت سے آگے بڑھتی جا رہی ہے۔ بہیمانہ ریاستی جبر اپنی انتہاؤں پر ہونے کے باوجود تحریک کو پسپا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ کشمیری عوام نہتے بھارتی جبر کے سامنے سینہ سپر ہو کر اپنی تحریک کو منظم کر رہے ہیں، سینکڑوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں جن میں سے اکثریت پیلٹ گن کے استعمال کی وجہ سے اپنی آنکھیں کھو بیٹھے۔ گو کہ تحریک کا آغاز برہان وانی کی شہادت سے ہوا لیکن اب کی بار نوجوانوں نے بندوقوں کو اپنانے سے انکار کر دیا اور سیاسی جدوجہد سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں۔
دہلی میں براجمان مودی سرکار مختلف ہتھکنڈے اختیار کرنے کے بعد خود کو بے بس محسوس کر رہی ہے۔ تمام تر مہرے پٹتے جا رہے ہیں۔ اس طرف پاکستانی ریاست اپنی بھرپور کاوشوں کے باوجود اس تحریک میں مداخلت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ ماضی کے تجربات دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں، خفیہ ایجنسیوں کی فنکاریاں اب کی بار ثمر آور نہیں ہو سکیں۔ پاکستانی ریاستی ایما پر چلنے والی نام نہاد آزادی پسندحریت قیادت کو تحریک نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ اس تحریک کی سیاسی بلوغت کا اظہار ہے۔ اس تحریک کی قیادت کسی ایک فرد یا رجحان کی بجائے نوعمر نوجوانوں کی مشترکہ اور وسیع قیادت کے ہاتھ میں ہے جو ماضی کی تمام تر غلاظتوں کو یکسر مسترد کر چکے ہیں۔
ماضی کی دیگر تحریکوں کی نسبت اس تحریک نے جہاں وادی کے باہر اور بالخصوص ہندوستان میں باشعور پرت کی ایک قابل ذکر حمایت جیتی ہے وہیں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں کوئی بھی سیاسی پارٹی یا تنظیم اس تحریک کی حمایت میں سرگرم نظر نہیں آرہی۔ پاکستانی ایجنسیوں کی ایما پر کچھ لوگ ’’جہاد‘‘ کے نام پر ایک بار پھر چندے اکٹھے کرتے تو نظر آتے ہیں مگر عوام میں ان کے لئے کوئی حمایت موجود نہیں اور نہ ہی عوام کو ان کا غلیظ ماضی بھولا ہے ۔ قوم پرست پارٹیوں کا کھوکھلا پن بھی عوام کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے اور یہ مفاد پرستی پر مبنی اپنی داخلی لڑائیوں کے باعث خود ہی ٹوٹ کر بکھر چکی ہیں۔ غرض کوئی بھی سیاسی پارٹی اس وقت کشمیر میں جاری تحریک کی نمائندگی کرنے یا اس کی حمایت میں تحریک کو منظم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ لیکن ہمیں یہ بھی ذہن نشین کرنا چاہیے کہ آزادی کی جدوجہد محض قربانیا ں دے کر کامیاب نہیں ہو سکتی، اس کے لئے جدید سائنسی نظریات پر مبنی ایک سیاسی پلیٹ فارم کی شدید ضرورت ہے۔ جو نہ صرف اس تحریک کو آر پار کشمیر میں منظم کر سکے بلکہ اس تحریک کو پاکستان اور ہندوستان میں نوجوانوں اور محنت کش طبقے کی وسیع اکثریت تک لے کر جائے اور اس کی حمایت جیت سکے۔
عوام اور خاص طور پر نوجوانوں میں رائج الوقت سیاست سے اکتاہٹ اور بددلی کی کیفیت بالخصوص عمومی طلبہ سیاست کی زوال پذیری اس خطے میں واضح طور پر نظر آ رہی ہے۔ بنیاد پرست جہادی تنظیموں کو عوامی سطح پر کبھی کوئی وسیع حمایت حاصل نہیں ہو سکی اور جہاد کے نام پر ان کے کاروبار نے ان کے خلاف شدید عوامی نفرت کو جنم دیا ہے۔ ریاستی ایما پر پلنے والے ان عناصر کی سرکوبی اور طلبہ، نوجوانوں اور محنت کش طبقے کے مسائل کے حل کے لئے یہ خطہ ایک نئے سیاسی متبادل کا شدت سے متلاشی ہے۔
نظریات سے عاری غنڈہ گرد عناصر نے طلبہ سیاست کو تباہ کن حد تک نقصان پہنچایا ہے اور ترقی پسند نظریات کی حامل سیاست کو ختم کرنے کے اس عمل میں یہاں پر براجمان پاکستانی ریاست کے دم چھلا حکمران طبقے اور مذہبی بنیاد پرستوں نے کلیدی کردار ادا کیا اور اپنے طلبہ ونگز کو نظریات کی بجائے کلاشنکوف کلچر سے آراستہ کیا۔ جس کی وجہ سے نہ صرف تعلیمی ادارے سینکڑوں نوجوانوں کے لئے مقتل گاہیں ثابت ہوئے بلکہ طلبہ سیاست ایک شجرممنوعہ بن گئی۔ اس عمل سے حکمرانوں نے اپنی واحد اپوزیشن طلبہ تحریک کو تباہ کر کے اپنی من چاہی پالیسیاں طلبہ پر مسلط کیں۔ جہاں ایک طرف فیسوں میں اضافے کا ایک نہ رکنے والا عمل مسلسل جاری و ساری ہے وہیں پر ایسی پالیسیاں مرتب کی گئیں کہ سرکاری تعلیمی اداروں کو برباد کیا جائے اور ان کی بجائے تعلیم کا کاروبار کرنے والے نجی شعبے کو نہ صرف تحفظ دیا گیا بلکہ ان کو من مرضی سے پالیسیاں بنانے کی اجازت بھی دی گئی جس کی وجہ سے اس خطے میں تعلیم کا شعبہ تباہی کے دہانے تک پہنچ چکا ہے اور طلبہ کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ نجی تعلیمی اداروں کا رخ کریں۔ ایسے میں جو مہنگی تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتااس کے لئے تعلیم ایک خواب بن چکی ہے۔ مہنگی ترین تعلیم حاصل کرنے کے بعد بیروزگاری کا عفریت انہیں ڈستا رہتا ہے اور وہ روزگار کی تلاش میں در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ نوجوانوں کی اکثریت گھر سے دورمشرقِ وسطیٰ میں اپنی محنت بیچنے پر مجبور ہے جہاں اب معاشی بحران کے سایے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں بیروزگاری اور مہنگی تعلیم سے آزادی کی جدوجہد تمام نوجوانوں کیلئے کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔
ایسی کیفیت میں جب کوئی بھی طلبہ مسائل کے حل اور قومی آزادی کی تحریک کو وسیع تر طبقاتی دھارے میں جوڑنے سے قاصر ہے ہم اس خطے میں پروگریسیو یوتھ الائنس کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ ہم طلبہ اور نوجوانوں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ آگے بڑھیں اور اس تحریک میں منظم ہو کر اس خطے سے غربت، بیروزگاری، بھوک، ننگ، قومی محرومی اور طبقاتی استحصال کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ سماج کی بنیاد رکھیں۔ یہی کشمیر کے محنت کش عوام کی آزادی کی حقیقی منزل ہے۔
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آنکلا ہے
کہیں شعلہ، کہیں نعرہ، کہیں پتھر بن کر
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے