|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور|
24 نومبر، بروز جمعرات کو ناصر باغ لاہور میں پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور کی جانب سے مزدور کی زندگی پر بنائے گئے سٹریٹ تھیٹر ”مشین“ اور ”تھیٹر اور انقلاب“ کے موضوع پر اوپن مائیک سیشن کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں محنت کشوں اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے طلبہ نے شرکت کی۔
پروگرام کے پہلے حصے میں برصغیر میں صف اول کے تھیٹر آرٹسٹ اور انقلابی صفدر ہاشمی کا لکھا گیا سٹریٹ تھیٹر ”مشین“ پرفارم کیا گیا۔ یہ تھیٹر مزدوروں کے لیے انقلاب کی ایک علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس میں مزدور کی زندگی اور مالک و سیکیورٹی اداروں کے مزدور دشمن رویے کی بخوبی عکاسی کی گئی ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے پیش کئے گئے اس سٹریٹ تھیٹر کی ڈائریکشن پاکستان کے مایاناز تھیٹر گروپ ”آزاد ٹھیٹر‘‘ نے کی ہے۔
پروگرام کے دوسرے حصے میں ”تھیٹر اور انقلاب“ کے موضوع پراوپن مائیک سیشن ہوا۔ جس میں طلبہ و محنت کشوں نے تھیٹر پرفارمنس کو سراہا اور آرٹ کے ذریعے انقلابی موقف پہنچانے کی اہمیت پر بحث بھی کی۔
پروگریسو یوتھ الائنس کے مرکزی صدر فضیل اصغر نے کہا کہ پوری دنیا میں انقلابی جدوجہد میں آرٹ کو بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔ اور ہم نے بھی اس ملک میں یونیورسٹیوں، کالجوں، عوامی جگہوں اور فیکٹری ایریاز میں جا کر سٹریٹ تھیٹر پیش کرنے کے سلسلے کا آغاز کیا ہے، جسے بہت پذیرائی مل رہی ہے۔ آنے والے عرصے میں ملک بھر میں سٹریٹ تھیٹر کے ذریعے محنت کشوں کی جدوجہد اور انقلابی پیغام کو لوگوں تک پہنچایا جائے گا۔
ارسلان فیاض نے محنت کشوں کی انقلابی جدوجہد میں تھیٹر جیسے اہم فن کی اہمیت پر بات کی۔ اور پنجاب یونیورسٹی کے طالبعلم ثاقب اسمائیل نے کہا کہ محنت کشوں کے استحصال اور جبر سے نجات کے لئے موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کر کے سوشلسٹ انقلاب کی ضرورت ہے۔ دراصل اس سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ دار اور مٹھی بھر اشرافیہ کروڑوں محنت کشوں کی محنت کولوٹ کراپنے منافعوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ اگر کہیں اس ظلم کے خلاف بغاوت کی چنگاری ابھرتی ہے توریاستی سیکورٹی اداروں کے ذریعے ان پر لاٹھی چارج، گرفتاریاں اور قتل کروا دیا جاتا ہے۔ لیکن اس سے کبھی بھی محنت کشوں کی جدوجہد کو روکا نہیں جا سکتا ہے۔ ”مشین“ ڈرامے میں بھی اسی طرح مزدوروں کے متحد ہو کر جدوجہد کو دکھایا گیا ہے، جس میں محنت کش منظم ہو کر سرمایہ داروں کو شکست دے دیتے ہیں۔
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور کے طالبعلم کفیل ملک، جو کہ اس تھیٹر میں فیکٹری مالک کا کردار ادا کر رہے تھے نے کہا کہ مزدور جو چیز بناتے ہیں اس کو بھی خرید نہیں پاتے اور ان کو کھانے، پینے، پہننے اور رہنے جیسی بنیادی ضروریات بھی غیر معیاری استعمال کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔
لیکن دوسری طرف فیکٹری مالکان مزدورون کی محنت نچوڑ کر کئی فیکٹریاں اور بنگلے بنا جاتے ہیں۔سرمایہ داری کے موجودہ بحران اور اس منافع پر مبنی طبقاتی نظام سے نجات کے لیے طلبہ، نوجوانوں، کسانوں اور محنت کشوں سوشلزم کے انقلابی نظریات کے تحت انقلاب برپا کر کے مزدور راج قائم کرنا ہوگا۔
آخر میں انقلابی نعروں کی گونج میں پروگرام کا اختتام کیا گیا۔ شرکاء نے سوشلزم کے انقلابی نظریات پر مبنی لٹریچر خریدا اور اس جدوجہد میں شمولیت کا عزم کیا۔
انقلاب کے تین نشان
طلبہ، مزدور اور کسان
انقلاب۔۔انقلاب
سوشلسٹ۔۔انقلاب!