|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، پنجاب یونیورسٹی لاہور|
پنجاب یونیورسٹی پچھلے ایک ماہ سے میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ کونسلوں اور جمعیت کے مابین متعدد جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ اسی دوران پولیس نے بھی کیمپس کے اندر داخل ہو کر متعدد طلبہ کو گرفتار بھی کیا ہے۔ انہی گرفتاریوں کیخلاف کونسلوں کی جانب سے احتجاج بھی جاری ہے۔ اس حوالے سے کیمپس میں موجود طلبہ سمیت سیاسی کارکنان میں بھی بحث جاری ہے۔ ان جھڑپوں اور گرفتاریوں کے نتیجے میں کیمپس کے اندر خوف کا ماحول بنا ہوا ہے۔ یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب طلبہ کو بے تحاشہ مسائل جیسے بیروزگاری، مہنگائی، فیسوں میں اضافہ، ہراسمنٹ، ہاسٹلز کی کمی، ٹرانسپورٹ کی ناکافی سہولیات اور نسلی پروفائلنگ وغیرہ کا سامنا ہے۔ ان تمام مسائل کے خلاف طلبہ میں شدید غم و غصہ پایا جارہا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی ایک سرکاری تعلیمی ادارہ ہے جس میں اکثریت محنت کش اور مڈل کلاس گھرانوں کے طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں کیونکہ یہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی بھاری بھرکم فیسیں ادا نہیں کر سکتے۔ مگر اب تو جہاں ایک طرف مہنگائی کا طوفان اور حقیقی اجرتوں میں کمی کا سلسلہ جاری ہے تو وہیں دوسری طرف تعلیمی اداروں کی فیسوں میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے اب تو پنجاب یونیورسٹی جیسے تعلیمی ادارے میں بھی تعلیم جاری رکھ پانا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ ان کے والدین قرضے لے کر اور پیٹ کاٹ کر اپنے خون پسینے کی کمائی اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے پر خرچ کر رہے ہیں مگر اخراجات مسلسل بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ اوپر سے ریاستی نااہلی کے باعث بے روزگاری کی تلوار بھی ان کے سر پر لٹک رہی ہوتی ہے اور تاریک مستقبل کی فکر ان کے ذہنی تناؤ میں مزید اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ اس صورتحال میں ملک بھر میں ایک بڑی طلبہ تحریک کے امکانات بھی موجود ہیں۔ اور یہی وہ خوف ہے جو تمام یونیورسٹیوں کی انتظامیہ اور حکمرانوں کی راتوں کی نیندیں اڑا رہا ہے۔ ان کے سامنے حالیہ سری لنکا کی مثال بھی موجود ہے جہاں طلبہ اور نوجوان صدر اور وزیر اعظم کے گھر میں گھس گئے تھے۔
لہٰذا ایسے میں انتظامیہ اور حکمرانوں کی حتیٰ المقدور کوشش ہے کہ طلبہ کو متحد و منظم ہونے سے روکا جائے۔ اس کی خاطر وہ کیمپس میں لڑائی جھگڑے کروانے سمیت ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں تاکہ اول تو کیمپس میں خوف و ہراس پھیلایا جائے اور طلبہ کو اپنے جائز حقوق کے حصول کیلئے احتجاج کرنے سے روکا جائے، اور دوم کہ نسلی و لسانی بنیادوں پر طلبہ کو تقسیم کیا جائے۔ جمعیت، ریاست اور انتظامیہ کی پالتو تنظیم ہے جسے ہمیشہ سے اس کام کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مگر اب کونسلیں بھی انتظامیہ کے اسی کھیل کا حصہ بن چکی ہیں۔ یہ عمل صرف پنجاب یونیورسٹی میں ہی نہیں بلکہ ملک کی تمام یونیورسٹیوں میں دہرایا جارہا ہے۔ کہیں جمعیت بمقابلہ کونسلوں کی صورت میں تو کہیں مختلف نام نہاد طلبہ تنظیموں کو آپس میں لڑوا کر۔
عمومی طور پر تو لڑائیاں انتظامیہ کے مختلف دھڑے اپنی اندرونی سیاست کیلئے خود ہی کرواتے ہیں، البتہ بعض اوقات ان لڑائیوں کی دیگر مخصوص وجوہات بھی ہوتی ہیں (جو قطعاً بھی نظریاتی نہیں ہوتیں بلکہ ذاتی اور انتہائی فروعی وجوہات ہوتی ہیں)۔ بہرحال انتظامیہ پھر ان لڑائیوں کو اپنے مقاصد کیلئے بھرپور انداز میں استعمال کرتی ہے۔ اسکے بدلے کونسلوں اور جمعیت کو کچھ نا کچھ مراعات بھی دی جاتی ہیں۔ یونیورسٹی میں موجود فساد پھیلانے والے جمعیت سمیت تمام گروپ انتظامیہ اور حتمی طور پر ریاست کے ہی مرہون منت ہیں۔ کسی چھوٹے سے مسئلے مثلاََ ہاسٹل میں کمرے کی الاٹمنٹ یا بیماری کے باعث امتحان میں شامل نہ ہو سکنے کے بعد دوبارہ امتحان دینے جیسے معمولی مسائل کے لیے طلبہ کو ذلیل و خوار کیا جاتا ہے۔ اور طلبہ کو مجبور کیا جاتا ہے کہ موجود گروپوں میں سے کسی میں شامل ہو جائیں اور ان سے سفارش کروا کر اپنے مسائل حل کروائیں۔ اس طرح ان گروپوں کے جواز کو قائم کیا ہوا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے جابر حکمران طبقے کی جانب سے بلوچستان، فاٹا، سندھ اور دیگر ملک کے حصوں میں وحشیانہ قومی جبر بھی جاری ہے۔ جس کے نتیجے میں ان علاقوں کو انتہائی پسماندہ رکھا گیا ہے جبکہ وہاں کے وسائل کو لوٹا جا رہا ہے۔ اور جو کوئی بھی اس کے خلاف آواز بلند کرتا ہے تو اسکی مسخ شدہ لاش ملتی ہے یا پھر اسے لا پتہ کر دیا جاتا ہے۔ اس وحشیانہ جبر کے خلاف ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ انتظامیہ اور حکمران انتہائی مکاری اور سفاکی کے ساتھ پھر اسی غم و غصے کو مزید ہوا دے کر انہیں مشتعل کرتے ہیں اور پھر ان کے رد عمل کو استعمال کرتے ہوئے طلبہ کو تقسیم کرتے ہیں۔
یونیورسٹی میں خوف کا ماحول بنا کر انتظامیہ طلبہ کو ان کے حقیقی مسائل کے حل کی جدوجہد سے دور رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن اب یہ حربہ بھی طلبہ کے سامنے واضع ہو چکا ہے۔ طلبہ میں ان گروپوں سے نفرت میں اضافہ ہو چکا ہے۔ ریاست اور انتظامیہ کی دلالی اور طلبہ دشمنی کی طویل تاریخ کے باعث جمعیت سے تو ویسے ہی طلبہ میں شدید نفرت پائی جاتی ہے مگر اب تو کونسلوں سے بھی عام طلبہ متنفر ہو چکے ہیں، حتیٰ کہ کونسلوں کے اپنے ممبران بھی۔ کیونکہ وہ نسلی و قومی تعصبات کے فروغ کی صورت میں ان کے طلبہ دشمن کردار کو واضح طور پر دیکھ رہے ہیں۔ غریب گھرانوں کے طلبہ کی قسمت میں صرف ذلت و رسوائی ہی نہیں ہے، بلکہ ایک رستہ جدوجہد کا بھی ہے جو انہیں اس ذلت سے چھٹکارا دلا سکتا ہے۔ اور یہاں غریب گھرانوں کے طلبہ سے ہماری مراد کونسلوں کے عام ممبران بھی ہیں۔ یونیورسٹی میں طلبہ ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں اور یہ انتظامیہ کے پالتو گروپ مٹھی بھر ہیں۔ طلبہ جب متحد ہوکر فیسوں میں اضافے، ہراسمنٹ، طلبہ یونین پر عائد پابندی، ہاسٹل و ٹرانسپورٹ کی سہولیات کی کمی، نسلی بنیادوں پر پروفائلنگ کے خلاف جدوجہد کرینگے تو انتظامیہ، حکمرانوں اور انکے تمام پالتو گروپوں کو مات دی جاسکتی ہے اور اپنے حقوق چھینے جاسکتے ہیں۔
پروگریسو یوتھ الائنس کیمپس میں پولیس کے داخلے اور آدھی رات کو ہاسٹلوں میں خوف وہراس برپا کر کے طلبہ کو گھسیٹ کر لے جانے کی بھرپور مذمت کرتا ہے۔ یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ جب کسی بھی لڑائی جھگڑے کی صورت میں پولیس کو ہی کیمپس میں بلانا ہے تو پھر یونیورسٹی کی سیکورٹی کا کام کیا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ یونیورسٹی سیکورٹی کا اصل کام درحقیقت لڑائی جھگڑوں کو کنٹرول کرنا یا کیمپس میں امن و امان کی صورت حال کو قائم رکھنا نہیں بلکہ طلبہ کو ذلیل کرنا اور ہراساں کرنا ہے تا کہ وہ اپنے حقوق کیلئے آواز نہ اٹھا سکیں۔ لہٰذا ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر یونیورسٹی کی سیکورٹی کا خاتمہ کیا جائے اور یہ پیسہ طلبہ کو سہولیات فراہم کرنے کیلئے استعمال کیا جائے۔ اسی طرح حالیہ لڑائی میں پشتون کونسل کے چیئرمین کو پولیس کی جانب سے گرفتار کیا گیا ہے۔ ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر اس لڑائی کی اصل وجوہات جاننے کیلئے طلبہ کی منتخب کمیٹیوں کے ذریعے تحقیقات کرائی جائیں اور جب تک اس طالب علم پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوتا اسے رہا کیا جائے۔ مگر ہم یہاں یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ اس لڑائی سمیت سابقہ لڑائیوں کی وجوہات جاننے کیلئے بھی تحقیقات کرائی جائیں اور ان میں ملوث کلیدی کرداروں کو طلبہ کی منتخب عدالت میں پیش کیا جائے۔ یہ انتظامیہ کے مختلف دھڑے ہیں جو ان لڑائیوں کے سرکردہ ہیں۔ جو ہمیشہ پیچھے بیٹھ کر عام طلبہ کو استعمال کرتے ہیں اور اپنی کرپشن اور لوٹ مار میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہی وہ بھیڑیے ہیں جو آئے روز طلباء و طالبات کو جنسی ہراساں بھی کرتے ہیں مگر ان پر کوئی قانون ہاتھ نہیں ڈالتا۔ یہی وہ حرام زادے ہیں جن کے آشیرباد سے یونیورسٹی میں موجود قبضہ گروپ ہاسٹلوں کے کمروں پر قبضے کرتے ہیں اور کوئی قانون، پولیس، عدالت انہیں کچھ نہیں کہتی۔
اس وقت پاکستانی معیشت اپنی تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہے جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بحران مستقبل میں مزید شدت اختیار کرے گا، جس کے اثرات شعبہ تعلیم پر مزید پڑیں گے۔ اس بحران کا سارا بوجھ محنت کشوں کی اولادوں پر لادا جائے گا یعنی فیسوں میں مزید اضافہ ہوگا اور بیروزگاری میں بھی۔ ایسے میں ملک گیر طلبہ اتحاد کی بجائے قوم، مذہب، زبان وغیرہ کی بنیاد پر اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنانا انتہا درجے کی حماقت ہوگی جس کا نقصان سب کو ہوگا۔ لہٰذا ہم کونسلوں سے منسلک عام طلبہ سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ انتظامیہ اور ریاست کی ”تقسیم کرو اور راج کرو“ کی پالیسی کا شکار مت ہوں۔ ایسی ہر سوچ اور ایسے ہر شخص کو رد کریں جو طلبہ اتحاد کے خلاف بات کرتا ہو۔
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر طلبہ یونین پر عائد پابندی ہٹا کر انتخابات کا اعلان کیا جائے۔ تاکہ طلبہ کے پاس ایک جمہوری پلیٹ فارم ہو جہاں پر وہ مسائل کیخلاف آواز بلند کر سکیں اور مسائل سے چھٹکارا پایا جا سکے۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک طلبہ یونین بحال نہیں کی جاتیں تب تک پنجاب یونیورسٹی سمیت ملک بھر میں طلبہ کو درپیش مسائل جیسا کہ فیسوں میں اضافے، ہراسمنٹ، طلبہ یونین پر عائد پابندی، ہاسٹلز کی کمی، ٹرانسپورٹ کی ناکافی سہولیات، نسلی بنیادوں پر پروفائلنگ، یونیورسٹی میں لڑائی جھگڑے اور غنڈہ گردی کے کلچر اور سیکورٹی و پولیس کے جبر جیسے مسائل کے خلاف طلبہ کو متحد ہو کر جدوجہد کرنا ہوگی۔ اور ہر ایک ڈپارٹمنٹ سے طلبہ کے نمائندوں پر مشتمل طلبہ کی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔ ان کمیٹیوں کو اسی طرح کی دوسری یونیورسٹیوں کی طلبہ کمیٹیوں سے جوڑا جائے۔ ایک شہر سے دوسرے شہر اور اسی طرح ایک صوبے سے دوسرے صوبے اور پھر ملک گیر سطح پر طلبہ اتحاد قائم کیا جائے۔ طلبہ کے حقیقی مسائل کے حل کے لیے مشترکہ جدوجہد کا آغاز کیا جائے۔