بے روزگاری، فری لانسنگ اور سرمایہ داری

|تحریر: زینب سید|

آج عالمی سطح پر ہم سرمایہ داری کے زوال کے دور سے گزر رہے ہیں۔ کورونا وبا اور معاشی بحران کے ایک دوسرے سے جڑے اثرات محنت کشوں اور ان کے بچوں کے لیے اس کرۂ ارض کو جہنم بنا چکے ہیں۔ بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام کا بھاری وزن ہر جگہ محنت کشوں اور طلبہ کی کمر توڑ رہا ہے۔ تعلیمی اداروں سے لے کر مختلف کام کی جگہوں تک، ہر طالب علم اور نوجوان کی زندگی شدید متاثر ہوئی ہے۔ بہت سے نوجوان اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں یا مجبوراً یونیورسٹیوں و کالجوں سے ڈراپ آؤٹ ہوگئے ہیں۔ دوسری جانب نئے گریجویٹس کو تو اس بات پر بھی یقین نہیں کہ ان کو کام ملے گا بھی یا نہیں۔ ہر محنت کش اور نوجوان اب اس حقیقت کو سمجھ گیا ہے کہ حکمران طبقہ اور اس کا نظام انہیں کچھ نہیں دے سکتا۔ جبکہ پاکستانی حکمران طبقہ لگاتا ر کروڑوں روپے جھوٹے اشتہارات پر صَرف کر رہا ہے کہ موجودہ حکومت کی ذہانت اور بروقت پالیسیوں کے نتیجے میں معیشت کے فلاں فلاں شعبے میں اتنی اتنی ترقی ہوئی ہے، جبکہ حقیقت اس کے بالکل اُلٹ ہے۔

کورونا وبا کے عرصے میں تمام یونیورسٹیوں کی انتظامیہ نے انتہائی گھناؤنے انداز میں طلبہ دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا، جس میں ریاست کی بھرپور مرضی و منشا شامل تھی۔ فیسوں میں مسلسل اضافے کے باعث اخراجات کو پورا کرنے کیلئے اکثریت نوجوانوں کو اب تعلیم کے ساتھ ساتھ مجبوراً کوئی نوکری بھی ڈھونڈنا پڑتی ہے۔ پہلے سے موجود بے روزگاری کے سیلاب میں اگر قسمت سے کوئی نوکری مل بھی جائے تو وہ بھی انتہائی کم تنخواہ پر ہوتی ہے جس کے بدلے ان سے کئی گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔ اس طرح وہ اپنی تعلیم پر بالکل بھی توجہ نہیں دے پاتے۔ بعض اوقات تو انہیں تعلیم بھی مجبوراً چھوڑنا پڑ جاتی ہے یا پھر تعلیم جاری رکھنے کیلئے بار بار قرضے لینے پڑتے ہیں۔ حالت یہ ہوگئی ہے کہ انجینئرز کو کال سینٹر میں نوکریاں کرنا پڑ رہی ہیں، سالانہ،بڑی تعداد میں ڈاکٹرز بیرون ملک جا کر بس جاتے ہیں یا پھر پاکستان میں آئے روز سراپا احتجاج ہیں۔ پرائیویٹ کمپنیاں اس صورتحال کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ وہ اپنے ورکرز کو کم تنخواہ کے ساتھ مقررہ گھنٹوں سے کہیں زیادہ محنت کرنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ اس ماحول میں آج کل نوجوانوں کی اکثریت فری لانسنگ کا رُخ کر رہی ہے۔

حکمرانوں کی جانب سے فری لانسنگ کو ایک ایسی جدید سماجی و معاشی پیش رفت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جس کے ذریعے بے روزگاری کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ فری لانسنگ نے مزدور اور سرمایہ دار کے درمیان رشتے کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔ یعنی کہ اب ہر انسان آزادانہ طور پر اپنا کام کر سکتا ہے اور کوئی مزدور اور سرمایہ دار نہیں ہے۔ اور اب روزگار دینا ریاست کی ذمہ داری نہیں رہی، اسے اب ذہین اور قابل نوجوان خود ہی ڈھونڈ سکتے ہیں۔ اس طرح نوجوانوں میں یہ امید پیدا کی جا رہی ہے اگر وہ محنت کر کے تکنیکی طور پر اپنے آپ کو بہتر کریں تو ان کا مستقبل بہتر ہو سکتا ہے۔ اس جھوٹے خواب کی تشہیر آئے روز تعلیمی اداروں میں منعقد ہونے والے سیمینارز، موٹیویشنل سپیکرز اور آن لائن سیمینارز کے ذریعے کی جاتی ہے۔

فری لانسنگ کو ”وہ کام کرنا جو آپ کو پسند ہے“ کے طور پر دکھایا جاتا ہے، یعنی کہ آپ کو وہ کام کرنا چاہیے جو آپ کو پسند ہے، اسی میں آپ ترقی بھی کریں گے۔ اور چونکہ لوگ جاہل ہیں اور وہ اپنا پیشن فالو نہیں کرتے ا س لیے وہ بے روزگار رہتے ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ آپ جتنا زیادہ کام کریں گے، اتنا ہی زیادہ کمائیں گے، اور اس طرح آپ اپنا اور اپنے خاندان کا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل اُلٹ ہے۔ درحقیقت فری لانسنگ میں اول تو مستقل روزگار نہیں ہوتا دوم بہت بڑی تعداد کے فری لانسنگ کا حصہ بن جانے کی وجہ سے ریٹ کافی سستے ہو چکے ہیں اور مارکیٹ میں مقابلہ کئی گنا بڑھ چکا ہے جس کی وجہ سے کم ہنر مند افراد کو آرڈر ہی نہیں ملتے۔ اسی باعث فری لانسنگ میں ذلت اور خواری زیادہ ہے اور آمدن کم جبکہ روزگار کا کوئی تحفظ نہیں اور نہ ہی کسی بھی قسم کی کوئی پنشن یا دیگر بنیادی سہولیات موجود ہیں۔ بیماری یا کسی آفت کی شکل میں فری لانسر دیوالیہ ہو جاتا ہے اور مارکیٹ سے آؤٹ ہو جاتا ہے۔ فری لانسر کو مسلسل اپنے آپ کو اپ ڈیٹ کرتے رہنا ہوتا ہے جبکہ آمدن پھر بھی مہنگائی کے تناسب سے کم ہی ہوتی رہتی ہے۔ دوسرے معنوں میں یہ سرمایہ داروں کے لیے سستی ترین لیبر کا ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے اور اس پر کوئی لیبر قوانین بھی لاگو نہیں ہوتے، یونین سازی کا حق موجود نہیں جبکہ ٹیکس ہر قسم کا ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی سافٹ ویئر ہاؤسز بن چکے ہیں جو ماہانہ تنخواہ پر لوگوں کو نوکری پر رکھتے ہیں اور اسی طرح ان کی محنت کا استحصال کرتے ہیں جیسے باقی فیکٹریوں اور کمپنیوں میں ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک محنت کش کا بچہ تو سرے سے وہ آلات ہی نہیں خرید سکتا جن کی مدد سے وہ فری لانسنگ کر سکے جیسے لیپ ٹاپ وغیرہ۔ یہاں بھی وہی لوگ پیسہ کما رہے ہیں جن کے پاس پہلے سے پیسہ تھا۔ اسی طرح کچھ نوجوان مخصوص مدت کیلئے آن لائن کسی کمپنی کیلئے کام کرتے ہیں۔ اسے بھی فری لانسنگ ہی کہا جاتا ہے، جبکہ اس میں کچھ بھی فری نہیں ہے اور سخت ترین محنت کے بعد بھی بمشکل گزارا ہو پاتا ہے۔ لہٰذا اس طرح کام کے پریشر، بلاناغہ کام کرنے اور اپنی محنت کا پھل کسی دوسرے کے ہاتھ میں دے دینے (جس سے وہ منافع کماتا ہے) کے نتیجے میں ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں شدید اضافہ ہوتا ہے۔ اب کوئی ذی شعور انسان بتائے کہ یہ کہاں سے ایسی جدید پیش رفت ہوئی جو تمام مسائل حل کر دے گی؟

فری لانسنگ کوئی ایسی بنیادی سماجی و معاشی تبدیلی نہیں ہے جس نے سرمایہ دارانہ نظام کا ہی خاتمہ کر دیا ہو۔ آج بھی سماج کی ساری دولت (اشیاء و خدمات) محنت کش طبقہ ہی پیدا کر رہا ہے اور اس دولت کی ملکیت سرمایہ دار طبقے کے پاس ہے جو اس سے خوب منافع کماتا ہے؛ یعنی کہ آج بھی سرمایہ داری موجود ہے۔ دراصل سرمایہ داری ہی تمام برائیوں کی ماں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے موجودہ بحران نے عالمی سطح پر بے روزگاری میں بے تحاشہ اضافہ کیا ہے۔ بحران کی صورت حال میں ریاست بڑی چالاکی کے ساتھ ”معیشت کو مکمل انہدام“ سے بچانے کے نام پر سرمایہ داروں کو تو بیل آؤٹ پیکج اور سستے قرضوں کی صورت میں اربوں روپے دے دیتی ہے مگر جب بات کروڑوں بے روزگار نوجوانوں کو روزگار، یا پھر مفت تعلیم اور علاج دینے کی آتی ہے توریاست اپنے آپ کو فری لانسنگ جیسے کئی اور چور رستوں سے بری الذمہ کر لیتی ہے۔

سرمایہ داری کے اس بحران میں کمی کی کوئی اُمید نظر نہیں آتی بلکہ مستقبل میں اس میں شدت ہی آئے گی، اور بے روزگاری میں اضافہ ہی ہوگا۔ معاشرے میں اتنی دولت موجود ہے کہ اعلیٰ تعلیم سب کے لیے مکمل طور پر مفت مہیا کی جا سکتی ہے، روزگار کے زیادہ مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں، ریسرچ لیبز اور سیکھنے کی جگہیں تعمیر کی جا سکتی ہیں، طلبہ کو فنون اور تکنیک کے لیے معیاری اور جدید سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں۔ لیکن سرمایہ داری میں یہ سب نہیں ہوسکتا، کیونکہ یہ سرمایہ داروں کے لیے منافع بخش نہیں ہے۔ اس لیے طلبہ، بے روزگار نوجوانوں اور محنت کشوں کو اس طبقاتی نظام کے خلاف جدوجہد میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا ہوگا۔ بالآخر ہمیں اس بوسیدہ اور استحصالی نظام کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جو کسی بھی قسم کے بحران کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ہمیں ایک سوشلسٹ متبادل کی ضرورت ہے جو منافع کے بجائے محنت کشوں اور طلبہ کی ضروریات کو ترجیح دے۔ ایسے نظام کے بجائے جو نوجوانوں کو بیچنے کا مطالبہ کرتا ہے اور منافع کے لیے محنت کشوں کا خون پسینہ نچوڑتا ہے، ہم ایسے نظام کا مطالبہ کرتے ہیں جو ہماری تمام ضروریات کو پورا کر سکے۔ ہمیں ایک ایسے نظام کے لیے لڑنے کی ضرورت ہے جو ہر عمر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کے لیے معاشی اور سماجی تحفظ فراہم کر سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.