جمعیت گردی

|تحریر: عدیل زیدی|

21مارچ بروز منگل پنجاب یونیورسٹی لاہور میں اسلامی جمعیت طلبہ نے پشتون طلبہ کی ثقافتی تقریب پر حملہ کردیا جس کے خلاف بڑی تعداد میں طلبہ نے احتجاج کیے۔ لیکن یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا یا آخری واقعہ نہیں۔ جمعیت کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ جماعتِ اسلامی کا طلبہ ونگ ہے اور جماعت کے ساتھ ساتھ تمام ریاستی اداروں کی جانب سے اس غنڈہ گرد تنظیم کومسلسل حمایت اور مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے۔ جماعتِ اسلامی اور جمعیت کی سیاست کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لئے ان کے ماضی کے کردارکامطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جماعتِ اسلامی 1941ء میں قائم ہوئی اور اسلامی جمعیت طلبہ 1947ء میں۔ اپنی ابتدا سے ہی جماعت حکمران طبقات کی گماشتگی کرتی رہی اور ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرم رہی۔ عوام میں کوئی خاص جڑیں نہ ہونے کے باوجود، پچھلی کئی دہائیوں سے یہ جماعت کسی نہ کسی شکل میں ’جمہوری‘ اور فوجی حکومتوں کا حصہ رہی ہے۔ یہاں تک کے مشرف کی نام نہاد لبرل آمریت میں بھی خیبر پختونخواہ حکومت میں لوٹ مار کرتی رہی۔ 1947ء سے قبل جماعتِ اسلامی پاکستان کی مخالف تھی جبکہ 1947ء کے بعد نظریۂ پاکستان کی سب سے بڑی حامی جماعت بن گئی۔لیکن جمعیت کے مظہر کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لئے پہلے پاکستان کی طلبہ سیاست کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے کیونکہ آج سیاست اور بالخصوص طلبہ سیاست کومسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے اور اس کا منفی تصور ابھار اجاتا ہے ۔ ہر شخص تعلیمی اداروں میں طلبہ کو صرف اپنی تعلیم پر توجہ دینے کی گردان الاپتا نظر آتا ہے۔ جبکہ ماضی میں پاکستان میں طلبہ سیاست کا ایک بہت روشن باب موجود ہے۔

پاکستان میں طلبہ سیاست پاکستان کے بننے کے بعد شروع نہیں ہوئی تھی، بلکہ پورے برِصغیرمیں انگریز سرکار کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں طلبہ کا کلیدی کردار تھا۔بائیں بازو کی سیاست میں ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن میں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی بے مثال جدوجہد نظر آتی ہے ۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد انگریز سرکارکو براہِ راست قبضے کی جگہ یہاں موجود اپنے گماشتوں کے ذریعے سامراجیت کو طوالت دینے کا طریقہ کار اختیار کرنا پڑا۔ لیکن نوآبادیوں کی آزادی کے عہد کے ساتھ ہی برطانوی سامراج کا کردار یکسر کم ہوتا گیا اور امریکہ نے اس کی جگہ لے لی۔ امریکی سامراجی لوٹ کے خلاف سب سے بڑی بے چینی بھی طلبہ کے اندر ہی شروع ہوئی اور پاکستان میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیمیں بننا شروع ہوئیں جنہیں طلبہ میں برے پیمانے پر حمایت ملی۔ان میں NSF اور DSF قابلِ ذکر ہیں۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ا بھرنے والی مختلف انقلابی تحریکوں میں ان طلبہ تنظیموں کا اہم کردار رہا ہے۔اس دوران جماعت اسلامی مذہب کا لبادہ اوڑھ کر جہاں ایک طرف امریکی ’جمہوریت‘ کو ایک ماڈل کے طور پر دکھاتی تھی، وہیںیہ ریاستی پالیسیوں کے اطلاق میں ہمیشہ ریاستی آلہ کار کے طور پر اپنا کردار ادا کرتی رہی، یہاں تک کہ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کے قتل عام میں پوری طرح ملوث رہی ۔

80ء کی دہائی تک پاکستان کے تعلیمی اداروں میں یونینوں کے باقاعدگی سے انتخابات بھی ہوا کرتے تھے اور ان انتخابات میں تمام سٹوڈنٹ تنظیمیں اپنے اپنے پروگرام پر حصہ لیا کرتی تھیں۔ اس طلبہ سیاست کے اثرات عمومی سیات پر بھی موجود تھے اور حکمران طبقات کے خلاف طلبہ اپنی نفرت کا اظہار اپنی تحریکوں کے ذریعے کرتے تھے جبکہ اپنے حقوق بھی سیاسی عمل کے ذریعے چھین کر حاصل کیے جاتے تھے۔ لیکن اس سیاست کا خون بہانے کا سہرہ بھی جمعیت کے سر ہی جاتا ہے جس نے 1970ء میں پنجاب یونیورسٹی کے انتخابات میں پہلی دفعہ NSO (نیشنل سٹوڈنٹس آرگنائیزیشن) کے برکت احمد کا قتل کیا۔ یہ واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا کہ جب کسی یونیورسٹی یا طلبہ سیاست میں اسلحہ شامل ہوا۔ اس کے بعد جمعیت باقاعدہ ایک غنڈہ گرد تنظیم کے طور پر ابھری اور بڑی تعداد میں مزید طلبہ کے قتل میں ملوث رہی۔

طلبہ سیاست نے ہمیشہ حکمران طبقے کے طلبہ پر حملوں کیخلاف سیسہ پلائی دیوار کا کردارادا کیا تھا۔ اسی وجہ سے ضیا الباطل کے مارشل لا کے دوران اسے رجعت اورخون میں ڈبونے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ ضیا کے مارشل لا کے دوران بھی بائیں بازو کے طلبہ کا انقلابی کردار تھا۔ یہ طلبہ تمام تر ریاستی جبر کے باوجود آگے برھتے جا رہے تھے جس وجہ سے آخر کار ضیا انتظامیہ نے اپنے خلاف برسرپیکار بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو جیلوں اور کوڑوں کی سزائیں دینا شروع کیں اور دوسری طرف طلبہ سیاست کا قتل کرنے کے لئے جمعیت اور APMSO(آل پاکستان متحدہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن)، جو آج MQM کا طلبہ ونگ ہے، کی شکل میں غنڈہ گرد سیاست کو اسلحہ سے لیس کیا۔ 80 کی دہائی میں جمعیت نے ریاستی سرپرستی میں تعلیمی اداروں میں طلبہ سیاست کا رخ موڑنے کی بنیادیں استوار کیں۔ ایک وقت تک جس سیاست پر ترقی پسند حاوی تھے اس پر رجعتیت مسلط کر دی گئی اور اسے غنڈہ گردی میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس کے باوجود 1984ء میں طلبہ یونین کے انتخابات میں بائیں بازو کے طلبہ نے بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کی۔ جس کے نتیجے میں ضیا نے 1984ء میں طلبہ یونین پر قانونی پابندی لگا دی۔ لیکن ہم نے یہ واضح طور پر دیکھا کہ ریاستی اداروں کی پشت پناہی میں کام کرنے والی تمام تنظیمیں آزادانہ طور پر کام کرتی رہیں جن میں جمعیت سرِ فہرست رہی ہے اور بائیں بازو کی تنظیموں کو ریاست کی جانب سے کچلا جانے لگا۔ آج جمعیت کا کردار بالکل واضح ہے، جمعیت تمام تعلیمی اداروں میں طلبہ کو زد و کوب کرنے کے علاوہ کوئی اور کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔صرف گزشتہ چند ماہ کے دوران پنجاب یونیورسٹی لاہور، اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد اور اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور میں طلبہ پر حملہ آور ہوئی ہے۔ جبکہ آج اگر طلبہ کے اصل مسائل پر نظر ڈالی جائے تو وہ فیسوں میں مسلسل اضافہ، تعلیمی اداروں کی شدید کمی، ہاسٹلوں اور ٹرانسپورٹ کی شدید قلت اور تعلیم کا گرتا ہوا معیار ہے لیکن جمعیت ان مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے سرگرم ہے۔

آج طلبہ رائج الوقت سیاست سے نفرت کرتے ہیں اور تمام سیاسی پارٹیوں سے بیزار ہیں۔ طلبہ سیاست کی جانب بھی رویہ مختلف نہیں ہے۔ اس کی بنیاد اسی اور نوے کی دہائیوں میں ہونے والی تمام تر غنڈہ گرد سیاست ہے جس وجہ سے والدین بھی اس معاملے میں احتیاط سے کام لینے پر مجبور ہیں اوراپنے بچوں کو سختی سے سیاست سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ لیکن طلبہ میں یہ احساس بھی تیزی سے ابھر رہا ہے کہ اپنے تمام مسائل کے حل کے لیے انہیں اپنی سیاست یعنی طلبہ حقوق کی سیاست کرنی پڑے گی جس میں سستی اور معیاری تعلیم اور روزگار کا حصول شامل ہے۔ ان مسائل کے حل کی سیاست صرف انقلابی مارکسزم کے نظریات پر کی جا سکتی ہے اور اسی نظریے پر جدوجہد کرتے ہوئے نہ صرف فوری مسائل حل کروانے کی جانب بڑھا جا سکتاہے بلکہ ظلم اور استحصال پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کو بھی ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اکھاڑ کر پھینکا جا سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.