| رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کشمور|
اندرون سندھ کے شمالی علاقے میں قائم شہر کشمور میں کافی عرصے سے بدامنی اور ڈاکو راج قائم ہے۔ ریاستی اداروں اور ضلعی انتظامیہ کی امن و امان بحال کرنے میں مجرمانہ غفلت سب کے سامنے عیاں ہو چکی ہے، بلکہ اس تمام کھلواڑ میں مجرموں کے ساتھ مل کر عوام کو لوٹنے اور اغوا برائے تاوان کے واقعات میں ملوث نظر آئی ہے۔ اس کے خلاف اس ہفتے سندھ کے مختلف شہروں میں جرات مندانہ احتجاج اور دھرنوں کا انعقاد بھی کیا گیا ہے۔ ان عظیم الشان احتجاجوں اور دھرنے کی وجہ سے ملک بھر میں یہ خبر پھیل گئی جس سے پورے پاکستان میں شدید غم و غصے کا اظہار دیکھنے کو ملا۔ اس مزاحمت کے ذریعے پولیس اور ڈاکوؤں سے مغویوں کو کچھ بازیاب بھی کرایا گیا ہے، اگرچہ تمام مغویوں کو تاحال بازیاب نہیں کرایا جا سکا۔
پچھلے عرصے میں اس بد امنی سے نوجوان، بچے، بزرگ اور خواتین متاثر ہوئے ہیں۔ کشمور سے دو ماہ قبل مغویوں کی تعداد 52 تھی جس میں حاملہ خاتون نازیہ کھوسہ اور چار سالہ بچی کوثر کھوسہ کو 10 ماہ ہوگئے جو اب تک بازیاب نہیں ہوئے۔ آئے روز اغوا برائے تاوان، قتل و غارت، ڈکیتی اور چوری روز کے معمول بنے ہوئے ہیں۔ اغوا ہونے والے افراد کندھ کوٹ، تنگوانی، کشمور، بخشاپور، کرمپور، غوثپور اور دوسرے چھوٹے شہروں سے دن دہاڑے اغوا ہوتے ہیں اور دوسرے دن کچے کے ڈاکو ا ن کی ویڈیوز وائرل کرکے لاکھوں روپے کی ڈمانڈ کرتے ہیں۔ ویڈیو میں مغوی پر تشدد کرکے ورثا ء کو ڈرایا جاتا ہے کہ تاوان کے پیسے دو وگرنہ لاش مل جائے گی۔
اغوا برائے تاوان کشمور میں منافع بخش کاروبار بن چکا ہے، جس میں کشمور کے وڈیرے اور پولیس افسران شامل ہیں اور تاوان کے پیسوں میں اپناحصہ لیتے ہیں۔ یہ کاروبار انتہائی منافع بخش اور محفوظ سمجھا جاتا تھا کیوں کہ ڈاکوؤں کی دہشت اورپولیس کی ملی بھگت کی وجہ سے عام لوگ پیسے دینے میں ہی اپنی افادیت سمجھتے تھے۔ لوکل وڈیروں کے بنگلے ان ڈاکوؤں کی آماجگاہیں ہیں۔ شہر سے اغوا ہونے والے لوگ پہلے تو کچے میں پائے جاتے تھے مگر اب وڈیروں نے ہی یہ کاروبار شروع کر لیا ہے۔ یہ وڈیرے اپنے شہر کے ڈاکوؤں سے لوگوں کو اغوا کراتے ہیں اور پولیس اپنا حصہ لینے کیلئے تھرڈ پارٹی کا کردار ادا کرتے ہوئے ان کی سہولت کاری کرتی ہے۔ ایک واقعے میں کندھ کوٹ کے ASI ٹیکسی کار بُک کروا کے کچے لے کر گیا جہاں ڈرائیور کو ڈاکوؤں سے اغو کروایا مگر اسی وقت گاؤں کے عام لوگوں نے پیچھا کر کے ڈرائیور کو بازیاب کرکے پولیس ASI کو پکڑ لیا، جس نے برملا بتایا کہ ہم عام لوگوں کو کچے لے کر جاتے ہیں اور وہاں ڈاکوؤں کو فروخت کر دیتے ہیں۔
آخر اس صورتحال کے خلاف عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور پہلا دھرنا کندھ کوٹ ہائی وے پر دیا گیا۔ جس پر ایس ایس پی عرفان سموں نے دھرنے کہ شرکا پر دہشتگردی کے پرچے کئے۔ بعد ازاں امجد شیخ کو ایس ایس پی کشمور تعینات کیا گیا، جس نے پوری ٹیم ان ڈاکوؤں کی سرپرستوں اور دوستوں کی بنائی جو کہ IG سندھ کی طرف سے برطرف تھے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ آئے روز تاوان دے کر لوگوں کی بازیابی ہوتی گئی۔ یہاں یہ بات واضع رہے کے یہ بازیابی کوئی پولیس آپریشن سے نہیں بلکہ ورثا سے پولیس تاوان لے کر کراتی تھی۔
پولیس، انتظامیہ، وڈیروں اور روایتی سیاسی پارٹیوں کے اس سنگین عوام دشمن کردار سے عوام نے ڈرنے کی بجائے اس کھلواڑ کے خلاف جدوجہد کو جاری رکھا۔ رفتہ رفتہ مزاحمت شروع ہوئی اور بدامنی کے خلاف احتجاج ہونا شروع ہوگئے۔ گزشتہ عید کے دن پروگریسو یوتھ الائنس،کشمور کی طرف سے تنگوانی میں ایک شاندار احتجاجی مارچ کر کے منظم سیاسی جدوجہد کی بنیاد رکھی گئی۔
ڈاکوؤں کی طرف سے مکھی جگدیش کی زنجیروں سے بندھی ہوئی تشدد کرنے والی ویڈیو وائرل ہوئی اور یوں کشمور کے ہندو نوجوانوں نے احتجاج کرنا شروع کئے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر اور احتجاجوں میں اپنی تقریروں کے ذریعے ہندو پنچائت کے سرپرستوں پر بے رحمانہ تنقید کی کہ یہ وڈیروں اور پولیس کے ساتھ یارانہ قائم کئے ہوئے ہیں اور مجبور ہوکر ہندو پنچائت کو تین دن کی شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دینی پڑی۔ اس ہڑتال کی کشمور کے ہر عام شہریوں نے نہ صرف مکمل حمایت کی بلکہ بڑ ھ چڑھ کر اس تحریک کا حصہ بنے اور یوں پورا کشمور رضاکارانہ طور پر بند ہوگیا۔ اس کے علاوہ جب ہندو پنچائت نے محض شٹر ڈاؤن کی کال دی تو عام ہندو نوجوانوں نے ایک قدم آگے بڑھ کر ڈیرا موڑ پر سندھ بلوچستان اور پنجاب کی طرف جانے والے راستے پر دھرنا دے دیا۔ اس پر ہندو پنچائت کے چودھری اور سرپرست اعلیٰ دھرنا ختم کرنے کیلئے منت سماجت کرنے لگے۔
مگر نوجوانوں نے تمام تر پریشر اور خوف کو لات مار کر ایک منظم دھرنے کو مغویوں کی بازیابی تک جاری رکھنے کا اعلان کر دیا۔ دھرنے کو ختم کرنے کیلئے سیاسی اور لوکل وڈیروں کی طرف سے مسلسل دھمکیوں کو نوجوانوں نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ جب سابقہ MPA اور وزیر شبیر علی بجارانی دھرنے کی طرف جانے لگے تو نوجوانوں نے اس سے ملنے کے بائیکاٹ کی باتیں پھیلانا شروع کر دیں، جس سے شبیر بجارانی کو اپنی عزت محفوظ کرنے کی خاطر مجبوراً واپس جانا پڑا۔ اسی طرح MNA احسان مزاری اور سلیم جان مزاری نے اپنے ترجمان جاڑا خان کو دھرنا ختم کرنے کیلئے بھیجا تو وہ عوامی رویے کو دیکھ کر احتجاج کی حمایت میں بیٹھ گیا۔ جہاں اس کو انتہائی ذلت اٹھانی پڑی جب سیاسی کارکنوں اور مکھی جگدیش کے ورثاء نے موقف رکھتے ہوے کہا کہ جاڑا خان نے جگدیش کی بازیابی کیلئے ان سے 40 لاکھ روپے وصول کیے ہیں۔ ایس ایس پی امجد شیخ اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے دھمکیوں پر اتر آیا کہ اگر دھرنا ختم نہیں ہوا تو میں کور کمانڈر کے حکم پر سیدھی گولیاں چلاؤں گا۔ اس بیان کے بعد کندھ کوٹ، تنگوانی اور غوثپور سے عوامی ریلیاں ڈیرا موڑ دھرنے میں پہنچنا شروع ہو گئیں۔ اور یوں پورے سندھ میں کشمور دھرنے سے اظہار یکجہتی کیلئے حیدرآباد، کراچی، نوابشاہ، سکرنڈ، خیرپور، ببرلو، کنڈیارو، شکارپور، جیکب آباد، سکھر، لاڑکانہ اور دیگر شہروں میں احتجاج ہونا شروع ہوگئے۔
پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان نے ان احتجاجوں میں بھرپور شرکت کی۔ ہم دھرنے پر پولیس کے لاٹھی چارج کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس تحریک کو مظبوط کرنے کے لئے فی الفور عوامی کمیٹیاں تشکیل دینا ہوں گی۔ ان کمیٹیوں کو علاقائی سطح سے منظم کرتے ہوئے پھر پورے صوبے میں پھیلانا ہوگا۔ بہر حال جب تک سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ دارانہ ریاست موجود ہے، دہشتگردی کا مستقل بنیادوں پر خاتمہ ممکن نہیں۔ چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کو موجودہ سماج کی سب سے بڑی طاقت یعنی کہ محنت کش طبقہ ہی اکھاڑ کر پھینک سکتا ہے لہٰذا ہمیں مختلف سرکاری اداروں اور نجی فیکٹریوں کے محنت کشوں کے ساتھ اس تحریک کو جوڑنا ہوگا۔ جب ان اداروں اور فیکٹریوں کو چلانے والے مزدور ہڑتال کریں گے تو پھر نہ ریل کا پہیہ چلے گا، نہ بلب جلے گا، نہ فون کی گھنٹی بجے گی۔ یہ وہ طاقت ہے جو پھر ملک گیر سطح پر منظم ہو کر انقلابی تحریک کی قیادت کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب کی صورت میں سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی غلاظتوں جیسے دہشتگردی کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاتمہ کر ڈالے گی۔
محنت کشوں کی طاقت کا ایک اظہار حالیہ عرصے میں کشمور میں ہی دیکھنے کو ملا ہے۔ کشمور میں چند ماہ قبل سیپکو واپڈا کہ دو ملازمین ڈاکوؤں کے ہاتھوں اغوا ہوئے اور سیپکو کے ملازمین نے پورے کشمور کی بجلی بند کردی، جس کے باعث کشمور کی تاریخ میں پہلی بار بغیر تاوان کے تین دن کے اندر دونوں مغوی بازیاب ہوئے تھے۔