جامشورو: سندھ یونیورسٹی کے ملازمین کا مطالبات کی منظوری کیلئے احتجاج۔۔۔ بڑھو طلبہ مزدور اتحاد کی جانب!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، جامشورو|

سندھ یونیورسٹی کے ملازمین، سندھ یونیورسٹی ایمپلائز ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے پچھلے ایک ماہ سے اپنے بنیادی مطالبات کی منظوری کیلئے سراپا احتجاج ہیں۔ یہ احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ 27 مارچ کو سیوا (سندھ یونیورسٹی ایمپلائز ایسوسی ایشن) کی جانب سے چار بنیادی نکات کے گرد منظم کیا گیا جس میں عید گریشر کی ادائیگی، لیونگ انکیشمنٹ کی ادائیگی، پروموشنز اور افراط زر کی مناسبت سے تنخواہوں میں اضافہ جیسے بنیادی مطالبات شامل ہیں۔ ملازمین کی جانب سے ایڈمیشن بلاک کے سامنے دھرنے سے لیکر جامشورو اور حیدرآباد پریس کلب کے سامنے احتجاجی ریلیاں، مظاہرے اور بھوک ہڑتال سمیت تمام طریقے استعمال میں لائے گئے لیکن یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ بلکہ مزدور دشمن انتظامیہ ملازمین کے مسائل حل کرنے کی بجائے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے پر اتر آئی اور 14-15 اپریل کو 10 ملازمین کو بر طرف کرنے کے نوٹیفکیشن جاری کیے گئے اور 22 ملازمین پر جھوٹی ایف آئی آر درج کروا دی گئی۔ لیکن ان مزدور دشمن اقدامات نے جلتی پر تیل کا کام کیا، ملازمین نے ڈرنے یا پیچھے ہٹنے کی بجائے پہلے سے زیادہ عزم اور ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتجاجی تحریک کو جاری رکھا جو کہ تاحال جاری ہے۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ ان کے حوصلے پہلے سے زیادہ بلند ہیں اور انتظامیہ کے مزدور دشمن ہتھکنڈے انہیں اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد سے نہیں روک سکتے۔

پروگریسو یوتھ الائنس ملازمین کے مطالبات کی بھر پور حمایت کرتا ہے۔ اور انتظامیہ کی طرف سے ملازمین کو ہراساں کرنے اورجھوٹے مقدمات درج کرنے کی مذمت کرتا ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس مطالبات کی منظوری کے لیے ملازمین کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کا عزم کرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ یونیورسٹی کے مالی بحران کی ذمہ دار جہاں نا اہل و کرپٹ انتظامیہ ہے وہیں وفاقی و صوبائی حکومت بھی ہے، جس نے آئی ایم ایف کی مکمل دلالی کرتے ہوئے ان سامراجی اداروں کی ایماء پر عوامی اداروں کی نجکاری اور تعلیمی بجٹ میں کٹوتی کے ذریعے اس مالی بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقے پر ڈال دیا ہے۔ تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں کے سبب نہ صرف ملازمین بلکہ یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ تعلیمی بجٹ میں کٹوتی سرمایہ دارانہ نظام معیشت کی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے۔ ان تمام تر عوام دشمن، تعلیم دشمن، مزدور اور طلبہ دشمن اقدامات کیخلاف سرکاری و نجی اداروں کے محنت کش بھی سراپا احتجاج ہیں اورانہی مسائل کیخلاف بلوچستان یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی کے ملازمین بھی سراپا احتجاج ہیں۔ لہٰذا جہاں ایک طرف اس جدوجہد کو پھیلاتے ہو ئے کراچی یونیورسٹی اور بلوچستان یونیورسٹی سمیت دیگر تعلیمی ادروں کے محنت کش اور دوسرے اداروں مثلاََ ریلوے، واپڈا اور پوسٹ کے محنت کشوں اورصنعتی محنت کشوں کے ساتھ متحد ہوکر منظم جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے وہیں دوسری طرف طلبہ اور نوجوانوں کو بھی اس جدوجہد کا حصہ بنانا لازمی ہے۔ یاد رہے کہ پچھلے عرصے میں سندھ یونیورسٹی میں فیسوں میں کئی گنا اضافہ کیا گیا ہے۔جس کے خلاف طلبہ نے کئی احجاجات کیے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ملازمین کو اپنے مطالبات میں فیسوں میں اضافے کے خاتمے سمیت طلبہ یونین بحالی اور ہراسمنٹ کے خاتمے جیسے مطالبات کو بھی شامل کر کے طلبہ کواپنے ساتھ جوڑنا ہوگا۔

اتحاد ہی ہماری سب سے بڑی طاقت ہے، اس طبقاتی اتحادکوبڑھا کر سماج کی تمام تر مظلوم پرتوں سے جوڑ کرسوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہی واحد راہِ نجات اور ان مسائل کا مستقل حل ہے۔

طلبہ،مزدور اتحاد۔۔۔ زندہ باد!
جینا ہے تو۔۔۔ لڑنا ہوگا!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.