|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، سندھ یونیورسٹی جامشورو|
پروگریسو یوتھ الائنس، سندھ یونیورسٹی جامشورو کے زیرِ اہتمام 24 نومبر بروز جمعرات کو بیروزگاری، جنسی ہراسانی، مہنگی تعلیم، قومی جبر اور سرمایہ داری کے خلاف سندھ یونیورسٹی میں ”ہلہ بول“ یوتھ کنونشن اور آخری سال کے طلبہ کے اعزاز میں الوادعی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں مختلف ڈیپارٹمنٹس سے طلبہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
کنونشن کی تیاریوں کے سلسلے میں سندھ یونیورسٹی کے ہاسٹلز اور ڈیپارٹمنٹس میں طلبہ میں دعوت نامے تقسیم کیے گئے۔ طلبہ کی جانب سے پروگریسو یوتھ الائنس کے انقلابی پیغام کو سراہا گیا اور اس جدوجہد میں عملی طور پر شامل ہونے کا عزم کیا۔
کنونشن میں سٹیج سیکریٹری کے فرائض انصار شام نے ادا کیے، طلبہ کو خوش آمدید کہتے ہوئے باقاعدہ کنونشن کا آغاز کیا گیا۔ سب سے پہلے سندھ یونیورسٹی کے طالبعلم اور پروگریسو یوتھ لائنس کے سرگرم کارکن سالار کو استقبالیہ تقریر کے لیے دعوت دی گئی۔ سالار نے کنونشن کے اغراض و مقاصد پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ کنونشن ایک ایسے وقت منعقد کیا جارہا ہے، کہ جب ملک شدید معاشی بحران سے دوچار ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے باوجود بھی بحران سنبھلتا نظر نہیں آرہا۔ کسی بھی سیاسی پارٹی یا اسٹیبلشمنٹ کے دھڑے کا آئی ایم ایف اور امریکی سامراج کی مسلط کردہ مالیاتی پالیسیوں اور سرمایہ دارانہ نظام سے کوئی اختلاف نہیں اور وہ اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے لوٹ مار کے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اس وقت ملک کے طلبہ، نوجوانوں اورمحنت کشوں کا معیار زندگی دن بدن گرتا جا رہا ہے۔ اس نظام سے نفرت اور بیزاری میں اضافہ ہورہا ہے اور متبادل کی جستجو بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں پروگریسو یوتھ الائنس جہاں فیسوں میں اضافے، مہنگی تعلیم، جنسی ہراسانی، بیروزگاری، قومی جبر، جبری گمشدگیوں سمیت دیگر مسائل کیخلاف جدوجہد کررہا ہے، وہیں متبادل کے طور پر سوشلزم کے انقلابی نظریات کے گرد طلبہ و نوجوانوں کو منظم بھی کررہا ہے۔ اس کنونشن کا انعقاد بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
اس کے بعد درسگاہ بینڈ کی جانب سے انقلابی شاعر حبیب جالب کی نظم ”دستور“، ساحر لدھیانوی کی نظم ”وہ صبح ہمیں سے آئے گی“ سمیت سندھی لوک موسیقی گا کر نوجوانوں کا خون گرمایا اورخوب داد حاصل کی۔
اس کے بعد پروگریسو یوتھ الائنس، سندھ کے آرگنائزر مجید پنہور کو تقریر کے لیے بلایا گیا۔ مجید نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملکی معیشت دیوالیہ ہو چکی ہے، بس اس کا اعلان کرنا باقی ہے اور اس بحران کا مکمل بوجھ یہاں کے طلبہ، مزدوروں اور کسانوں پر ڈالا جارہا ہے۔جس کے سبب مہنگائی، بیروزگاری، اور دیگر سماجی مسائل کی شدت بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک طرف حکمرانوں کی نااہلی اور بے ہسی کے سبب سیلاب متاثرین ابھی تک دربدری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ تو دوسری جانب جرنیلوں، سیاست دانوں اور سرمایہ داروں کی دولت میں اضافے کی خبریں زور و شور سے ٹی وی اور موبائیل اسکرینو کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ جبکہ آرمی چیف کے بدلنے سے ملکی حالات بہتر ہونے کے چرچے بھی جاری ہیں۔ درحقیقت یہ تمام تر لوگ عوام دشمن عناصر ہیں ان کے پاس نوجوانوں اور عوام کو دینے کیلئے سوائے ذلت کے کچھ بھی نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں جب ریاست عوام کو سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہے تو حکمران طبقہ اپنی عیش و عشرت کو جاری رکھنے کیلئے جبر کا سہارالے رہا ہے۔ جیسے عظیم انقلابی رہنما لیون ٹراٹسکی نے وضاحت کی تھی کہ ریاست جتنی کھوکھلی ہوتی جاتی ہے اتنا ہی اس کا جبر شدت اختیار کرتا جاتا ہے۔ لہذا حکمران طبقے کی جانب سے جہاں بحران کا سارا بوجھ محنت کشوں پر ڈال دیا گیا ہے ٹھیک اسی جگہ مظلوم قومیتوں کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ کو بھی تیز کیا گیا ہے۔ جبکہ آواز اٹھانے پر جبری طور پرنوجوانوں کو لاپتہ کیا جاتا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ اور اس کا جواب عوامی مزاحمت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ طلبہ، نوجوانوں، کسانوں اور محنت کشوں کے اتحاد کے زریعے ان تمام مسائل کی جڑ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ سوشلسٹ انقلاب ہی واحد راہ نجات ہے، جس کی تاریخی مثال بالشویک انقلاب ہے جو نہ صرف یہاں کے نوجوانوں کیلئے مشعل راہ ہے بلکہ نجات کا بھی واحد طریقہ ہے۔ ہم سب کے لیے مارکسزم کے انقلابی نظریات کو سمجھنا اوران کی ترویج کرنا وقت کی ناگزیریت بن چکا ہے۔
اس کے بعد پروگریسو یوتھ الائنس، سندھ یونیورسٹی کی نو منتخب کابینہ کا اعلان کیا گیا اور کابینہ سے حلف لیا گیا۔
نو منتخب کابینہ کے نام اور ذمہ داریاں مندرجہ ذیل ہیں:
صدر: سہیل
جنرل سیکرٹری: سالار
فنانس سیکرٹری: سرفراز
انفارمیشن سیکرٹری: دلیپ کمار
سٹڈی سرکل انچارج: اسلم راہی
اختتامی کلمات کے لیے پروگریسو یوتھ الائنس، کراچی کے آرگنائزر آنند پرکاش کو مدعو کیا گیا۔ آنند نے نو منتخب کابینہ کو انقلابی ذمہ داریاں سنبھالنے پر مبارکباد پیش کی اورحال ہی میں سندھ کے انتہا پسند ملا اشرافیہ کی جانب سے موسیقی پر قدغن کے فتوے کی مذمت کرتے ہوئے واضح کیا کہ کس طرح ریاست کی ان ملاؤں کی پشت پناہی کی روایت اور غلیظ تاریخ رہی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ دراصل ریاست اور حکمران طبقہ عوام کے مسائل حل نہیں کر پا رہا اور اس فرسٹریشن میں کبھی مذہب کبھی قومیت کبھی لسانیت تو کبھی صنف و دیگر اشوز کو بنیاد بنا کر بحران سے محنت کش عوام کی توجہ ہٹانا چاہ رہا ہے۔ لیکن اب اس کو برداشت نہیں کیا جائیگا۔ انتہا پسندی سمیت حکمران طبقے کے ہر جبر کا مقابلہ طبقاتی بنیاد پر ہی منظم ہو کر کیا جا سکتا ہے۔ ریاست کے اس ہتھکنڈے کو ناکام بنانے کے لیے ادب، ثقافت، فن، تاریخ، فلسفے، معیشت، سیاست اور سائنسی نظریات پر زیادہ سے زیادہ پروگرامز کا انعقاد کیا جانا چاہیے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی بحران پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج ایران سے لیکر یورپ تک تحریکیں اس بات کی عکاسی کر رہی ہیں کہ انسانی معاشرے کے دروازے پر انقلابات دستک دے رہے ہیں۔ سوشلزم کے نظریات کا وقت آچکا ہے اور جن نظریات کا وقت آچکا ہو ان کو دنیا کی کوئی بھی طاقت نہیں روک سکتی۔ کنونشن میں آئے ہوے تمام طلبہ و نوجوانوں کو دعوت ہے کہ پروگریسو یوتھ الائنس کا حصہ بنیں اور پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب قائم کرنے اور سرمایہ داری کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکنے کی جدوجہد کو مظبوط کریں۔
پروگریسو یوتھ الائنس کا ممبر بننے کے لیے یہاں کلک کریں۔