|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بہاولپور|
29 اور 30 جولائی کو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے طلبہ نے پورا شہر جام کرکے رکھ دیا اور آنلائن امتحانات کا مطالبہ کیا مگر انتظامیہ کی گماشتہ قیادت نے طلبہ کی جدوجہد کو ناکام کردیا۔
آنلائن و فزیکل تعلیم اور امتحانات نے پورے پاکستان کے طلبہ کے مستقبل کو داؤ پر لگا دیا جسکے نتیجے میں پورے پاکستان میں طلبہ تحریک نے جنم لیا ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے بھی یہی ڈرامہ رچائے رکھا۔ کبھی آنلائن اور کبھی فزیکل امتحانات کی بات کرتی رہی اور 28 جولائی کو نوٹیفکیشن جاری کردیا کہ 2 اگست سے امتحانات فیزیکل ہونگے جس پر طلبہ میں غصے کی لہر دوڑ گئی اور طلبہ نے 29 جولائی کو یونیورسٹی چوک، ڈی سی چوک اور رات کو ون یونٹ چوک بند کیا۔
بہاولپور کی تاریخ میں ایسا احتجاج پہلی بار دیکھا گیا۔ ایک طالب علم کا کہنا تھا کہ صرف چار سے پانچ لیکچر لیے گئے ہیں اور پورے نصاب کو امتحان میں شامل کردیا گیا۔ اساتذہ نے پڑھایا ہی نہیں اس لیے فزیکل امتحان نہیں لیے جانے چاہئیں۔ ایک اور طالبعلم کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کے ان سب ڈراموں نے ایک نفسیاتی دباؤ کی کیفیت طاری کردی ہے اور ہمارے اساتذہ آج ہی ہم کو وٹس ایپ گروپس میں نصاب بھیج رہے ہیں۔
یہ سراسر ناانصافی ہے۔ طلبہ نے اس احتجاج کو 30 جولائی کے روز بھی جاری رکھا، ایک لاکھ سے زیادہ ٹویٹس کیے اور ٹویٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بنایا اور وہ انتہائی ہمت اور جذبے کے ساتھ لڑ رہے تھے کہ انتظامیہ کی طرف سے لانچ کردہ قیادت نے انتظامیہ سے مذاکرات کر لیے۔ درحقیقت اس گماشتہ قیادت کو گزشتہ شام ہی لانچ کردیا گیا تھا جس میں انجمن طلبہ اسلام سے تعلق رکھنے والے عمار ججہ، محمد احمد کے علاوہ سٹیٹ یوتھ پارلیمنٹ کے ارکان اور جمعیت طلبہ اسلام کے کارکنان شامل تھے جن میں اکثریت یونیورسٹی طالبعلم ہی نہیں ہیں۔ اس گماشتہ قیادت نے آج انتظامیہ سے ساز باز کیا اور گریڈ پروٹیکشن پالیسی کے لالی پاپ پر احتجاج ختم کرنے کا اعلان کردیا۔
پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ کے احتجاج کا حصہ ہے اور طلبہ کو خبردار کرتا ہے کہ ان کالی بھیڑوں سے بچ کے رہیں کیونکہ یہ ہمیشہ انتظامیہ کی ہی دلالی کرتے رہے ہیں اور احتجاج کی کامیابی کے لیے خود کی کمیٹی تشکیل دیں جسکے نمائندے ہر ڈیپارٹمنٹ اور ہر کلاس میں موجود ہوں تاکہ فیصلے اکثریت کی مرضی سے ہوں اور جعلی قیادت اور یونیورسٹی انتظامیہ کے درمیان بند کمروں میں ہونے والے مذاکرات کا مکمل انکار کردیں۔ اگر مطالبات نہیں مانے جاتے تو پھر سے منظم ہو کر بھرپور احتجاج کیے جائیں کیونکہ جدوجہد ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے ہم اپنے مطالبات کو جیت سکتے ہیں اور انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔