پشاور: اسلامیہ یونیورسٹی پشاور میں جنسی ہراسانی کیس کا فیصلہ، مزاحمت ہی مستقل حل کی ضمانت ہے!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، پشاور|

اسلامیہ یونیورسٹی، پشاور شہر کا بڑا اور تاریخی تعلیمی ادارہ ہے جو اس وقت ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کی طرح طالبات کیلئے اذیت ناک جگہ بنی ہوئی ہے۔ پچھلے سال 11 نومبر کو طلباء و طالبات کی طرف سے جنسی ہراسانی کے خلاف احتجاج کے بعد منظر عام پر آنے والی رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ یونیورسٹی میں طالبات ایک لمبے عرصے سے خطرناک جنسی ہراسانی کا سامنا کرتی آرہی ہیں۔ مگر ہزاروں جنسی ہراسانی کے کیسز سماجی دباؤ، تعلیمی کیرئیر کے ختم ہو جانے کے خوف، بدنامی اور دیگر مشکلات و رکاوٹوں کی وجہ سے سامنے نہیں آ پاتے۔

ان تمام سماجی رکاوٹوں اور بالخصوص تعلیمی اداروں میں طلبہ کی منظم نمائندگی یعنی طلبہ یونین نہ ہونے کی بدولت انتظامیہ کے اہلکار جنسی ہراسانی کرنے کے بعد دندناتے پھرتے ہیں۔ بہر حال برداشت کی بھی حد ہوتی ہے، اب وہ حد پار ہو چکی ہے اور اب آوازیں بلند ہونا شروع ہو رہی ہیں۔

پچھلے سال نومبر کے مہینے میں طلباء و طالبات نے اسلامیہ یونیورسٹی میں ہراسانی کے خلاف ایک مارچ منعقد کیا جس میں شریک کچھ طالبات نے بہت جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان مسائل پر کھل کر بات کی اور بتایا کہ انہوں نے ان مسائل کے حل کیلئے دیگر تمام ذرائع آزمائے ہیں۔ ان کے مطابق انتظامیہ کو درجنوں بار شکایات درج کروائی گئی ہیں جن پر کبھی بھی انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہوئی اور احتجاج ان کے پاس آخری راستہ بچا تھا۔ احتجاج کا رستہ انہوں نے تب اپنایا خاص طور پر جب انہیں اس بات کا احساس ہوا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کے تمام اہلکار اس میں نا صرف شامل ہیں بلکہ ایک دوسرے کی در پردہ حمایت بھی کرتے ہیں، لہٰذا انہیں اپیلیں کرنے کی بجائے اپنے زور بازو پر جدوجہد کرنا ہوگی۔

احتجاج کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے احتجاج میں شامل طلباء و طالبات کے خلاف انتقامی کاروائی کا آغاز ہوا (اس پر ہم نے ایک تفصیلی رپورٹ لکھی تھی)، اس مسئلے کو ٹھنڈا کرکے ختم کرنے کیلئے انتظامیہ کی طرف سے مصنوعی تفتیشی کمیٹیاں بنائی گئیں جن نے ملوث افراد کو بری الزمہ قرار دیتے ہوئے تمام ملبہ مثاثرہ طالبات پر ڈالنے کا فیصلہ صادر کیا گیا۔ طالبات کے خلاف سوشل میڈیا پر بلیک میلنگ کا آغاز کیا گیا اور دوسری طرف صوبائی گورنر نے بھی ”گورنر انویسٹی گیشن ٹیم“ تشکیل دی جس کی جانب سے کوئی ٹھوس فیصلہ سامنے نہیں آسکا۔

طلبہ کو ان تمام کمیٹیوں کی کارکردگی پر بھروسہ نہیں تھا۔ ان تفتیشی کمیٹیوں کی ڈرامہ بازیوں کے دوران طلبہ نے 19 دسمبر 2021ء کو ”صوبائی محتسب انسداد جنسی ہراسانی“ کو شکایات درج کروائیں۔

کچھ دن پہلے صوبائی محتسب کی طرف سے فیصلہ سنایا جا چکا ہے جس میں پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے چئیرمین پر ہراسانی کے الزامات ثابت ہونے پر اس کو برطرف کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ایسے جرائم میں ملوث انتظامی اہلکار اس قدر بے شرم ہوچکے ہیں کہ مزکورہ بالا شخص نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اپنے عہدے سے چمٹے رہنے کا کھلے عام اعلان کیا اور اس فیصلے کو چیلنج کر ڈالا۔

فرض کریں اس ایک شخص کو عہدے سے ہٹا بھی دیا جاتا ہے تو کیا اتنے بڑے جرم میں ملوث افراد کیلئے یہ کوئی مستحق سزا ہے جن پر معمولی نمبروں اور اسائمنٹس وغیرہ کیلئے کسی کی عزت سے کھیلنے کا جرم ثابت ہو؟ اور کیا ایک شخص کو اس کے عہدے سے ہٹانے سے اس نظام میں موجود اس گھناؤنی بیماری کی روک تھام ممکن ہو پائے گی؟

اگر پچھلے ایک دو سال میں تعلیمی اداروں کے اندر ایسے واقعات کا سرسری جائزہ لیا جائے تو ان دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ تفتیشی کمیٹیوں میں سب وہی لوگ شامل ہوتے ہیں جو ہراسانی جیسے گھناؤنے عمل میں شریک ہوتے ہیں اور حکومتی سطح پر بنی ہوئی یا بننے والی خصوصی کمیٹیوں میں بھی مجرموں کی حمایت موجود ہوتی ہے اور وہ قطعاََ غیر جانبدار نہیں ہوتیں۔ ہاں یہ درست ہے کہ جب معاملات زیادہ شدت اختیار کر جائیں تو پھر ان کمیٹیوں کو مجبوراََ چند افراد کو قربانی کا بکرہ بناکر اس نظام کو بچانا پڑتا ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی میں آج سے دو سال پہلے جو جنسی سکینڈل سامنے آیا تھا اس مسئلے کو تقریباََ دس ماہ تک تفتیشی کمیٹیوں اور عدالتی کاروائیوں میں الجھانے کے بعد بالآخر ایک دو معمولی رینک کے ملازمین کو برطرف کرتے ہوئے سسٹم کے ساتھ ساتھ تمام بڑے ملوث اہلکاروں کو بھی بچایا گیا۔

لہٰذا عمومی طور پر بھی اور بالخصوص تعلیمی اداروں میں بھی جنسی ہراسانی کی روک تھام کیلئے کوئی واضح حل پیش کرنے سے پہلے ہمیں اس کی اصل وجوہات تلاش کرنی ہوں گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس گھناؤنے جرم کی وجوہات محض کچھ افراد کی بدکرداری اور برے اعمال نہیں ہیں۔ بے شک ان جرائم میں اکثر بد کردار اور بداعمال لوگ ملوث ہوتے ہیں مگر وہ بد کردار لوگ جس سسٹم پر پلتے ہیں، جس نظام میں ان کو طاقت اور اختیارات حاصل ہوتے ہیں، اس نظام کے سہارے ہی وہ یہ جرائم کرتے ہیں۔ اس برائی کی جڑیں موجودہ نظام کے اندر پیوست ہیں جو نظام دولت اور طاقت والوں کی مرضی و منشاء کے مطابق چلتا ہے۔ اور موجودہ تعلیمی نظام بھی اسی ترتیب پر استوار ہے جس کا مقصد جہاں ایک طرف غریب لوگوں کو تعلیم بیچ کر ان سے منافع کمانا ہے تو وہیں دوسری طرف اس سرمائے کے نظام کو چلانے کیلئے تابعدار اور تربیت یافتہ مزدور، کلرک اور مینیجر پیدا کرنا ہے۔ ایسے نظام میں طلبہ اور نوجوانوں کو جو تعلیم دی جاتی ہے اس میں ان کو بھیڑ بکریوں کی طرح تابعداری سکھائی جاتی ہے اور ان کو تعلیمی اداروں میں موجود مسائل پر بات کرنے سے سختی سے منع کیا جاتا ہے۔

اس پالیسی کے تحت ہی طلبہ کے حقوق کی جدوجہد کیلئے طلبہ یونین کی شکل میں موجود سیاسی پلیٹ پارم پر ماضی میں پابندی لگائی گئی تھی جو کہ ابھی تک جاری ہے۔ طلبہ یونین کو عملی طور پر ختم کیا گیا اور طلبہ اتحاد کو تقسیم کرنے کیلئے اس کی جگہ غنڈہ گرد تنظیموں، علاقائی اور نسلی گروہوں کو بڑھاوا دیا گیا۔ آج اس طرح کے ایک پلیٹ فارم کی کمی ہے جس کو طلبہ شدت سے محسوس کر رہے ہیں۔ اس بات کا اظہار اسلامیہ یونیورسٹی کے اس احتجاج میں شریک ایک طالبہ نے واضح الفاظ میں کیا کہ ”چونکہ ہمارے پاس ایک ایسا پلیٹ فارم نہیں ہے جس کے ذریعے ہم ایسے مسائل سامنے لائیں اس لئے ایسے مسائل پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔“

پروگریسو یوتھ الائنس شروع دن سے طلبہ یونین کی بحالی کیلئے اور طلبہ کو اپنے حقوق کی سیاسی جدوجہد کیلئے منظم و متحد کرنے کی جدوجہد کررہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ طلبہ کے دیگر تمام مسائل کا حل بھی اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ اپنے حقوق کیلئے سیاسی میدان میں داخل ہوں۔ طلبہ یونین کی بحالی کی جدوجہد کا آغاز کریں اور جب تک طلبہ یونین بحال نہیں ہو جاتی تمام تعلیمی اداروں میں اپنی کمیٹیاں تشکیل دیں۔ ان کمیٹیوں کی بدولت ہی وہ اپنی طاقت کا بھرپور استعمال کر پائیں گے۔ اس طرح وہ نا صرف جنسی ہراسانی کے مسئلے کا تدارک کر پائیں گے بلکہ انہیں درپیش دیگر مسائل بھی حل کرا پائیں گے۔ طلبہ کی یہی طاقت پھر مستقبل میں مزدوروں اور کسانوں کی تحریکوں کا حصہ بن کے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور سوشلزم کے قیام میں بھی اہم کردار ادا کرے گی اور تمام مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کرائے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.