لاہور: پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کی غنڈہ گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات؛ مقابلہ کیسے کیا جائے؟

ban-jamiat-2

|تحریر: صدام لونی|
پنجاب یونیورسٹی شعبۂ ابلاغیات کا ایک طالبِ علم، جس کا تعلق بلوچستان کے علاقے خانوزئی سے ہے، 15نومبر کو ہاسٹل ایریا میں اپنی کلاس فیلو کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اسی دوران وہاں پر طلبہ حقوق کی علمبردار نام نہاد اسلامی جمعیت طلبہ کے کچھ سرگرم غنڈے پہنچ گئے اور مذکورہ طالبعلم سے پولیس کی طرح پوچھ گچھ شروع کر دی، اس کے بعد جمعیت کے غنڈوں نے ان دونوں سے بدتمیزی شروع کر دی اور مذکورہ سٹوڈنٹ کو ڈنڈوں سے تشدد کا نشانہ بنایا یہاں تک کہ اس کا سر پھاڑ دیا۔ جس کے ردِ عمل میں طالبِ علم کے حق میں طلبہ کی ایک بہت بڑی تعداد STC جمع ہو گئی اور جمعیت کے غنڈوں کے خلاف نعرے بازی کی۔ اس کے بعد جمعیت کے ڈنڈا بردار غنڈوں کی مزید تعداد وہاں آ پہنچی اور احتجاج کرنے والے طلبہ جن میں پشتون طلباء کے ساتھ دیگر طلبہ بھی شامل تھے کو زد و کوب کرنے لگے۔ طلبہ نے خود بروقت زخمی طالبعلم کو شیخ زید ہسپتال منتقل کر کے اس کی زندگی بچائی۔ حسب معمول تشدد کے آدھے گھنٹے کے بعد پولیس آئی اور ایف آئی آر درج کرتے ہوئے احتجاج کرنے والے طلبہ کو یقین دلایا کہ وہ ذمہ داران کے خلاف سخت کاروائی کریں گے، لیکن تا حال پولیس کی طرف سے کسی قسم کی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف سے معصوم طلبہ پر تشدد کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ چند ہفتے قبل جمعیت کے غنڈوں نے ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ میں گھس کر توڑپھوڑ کی تھی جس میں کئی طلبہ زخمی بھی ہوئے۔ آئے روز جمعیت کے غنڈے پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ کو تشدد کا نشانہ بناتے رہتے ہیں جس کے خلاف پچھلے کچھ عرصے میں بھرپور مزاحمت بھی دیکھنے کو ملی ہے مگر ریاستی پشت پناہی اور کسی واضح متبادل نہ ہونے کے باعث جمعیت اپنی زوال پذیری کے باوجود طلبہ پر مسلط ہے۔
جمعیت کے غنڈے ماضی میں بھی ریاستی پشت پناہی کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ پر اپنی دھونس جمانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ لیکن یہاں جمعیت کے کردار پر بات کرنے کی بھی ضرورت ہے جہاں ایک طرف ہمیں طلبہ یونین پر پابندی نظر آتی ہے اور دوسری طرف جمعیت اور دوسری غنڈا گرد تنظیموں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس معمے کو سمجھنے کے لیے ماضی میں پاکستان میں طلبہ یونینوں کے کردار، نظریات، جدوجہد اور پسپائی پر ایک نظر ڈالنی ہو گی جب ہمیں پچاس، ساٹھ اور ستر کی دہائی میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کا انتہائی ترقی پسند اور انقلابی کردار نظر آتا ہے۔جس میں طلبہ مسلسل حکمران طبقے کو چیلنج کرتے نظر آتے ہیں۔ ان تحریکوں میں قابلِ ذکر 1968-69ء کی انقلابی تحریک ہے جس میں نہ صرف طلبہ بلکہ پورے ملک کے مزدور اور کسان بھی شامل تھے، میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ طلبہ تحریک کی واضح کامیابیوں میں کراچی یونیورسٹی کا قیام، مفت تعلیم کا حصول، یونین سازی کا حق، طلبہ کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں خصوصی رعایت، تعلیمی اداروں کے انتظامی معاملات میں طلبہ کی شراکت وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ مگر بات صرف طلبہ حقوق تک نہیں رکی ان طلبہ تنظیموں نے مزدوروں اور کسانوں کے ساتھ جڑت بناتے ہوئے لوٹ کھسوٹ اور استحصال پر مبنی اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بھی جدوجہد کی اور بعد میں ضیاالباطل کی آمریت کو بھی سخت مزاحمت دی۔ یہی وہ خطرات تھے جس کی وجہ سے اسی کی دہائی میں تحریک کی پسپائی کے دوران پاکستان کی تاریخ کے بدترین آمر ضیاء الحق نے 1984ء میں طلبہ یونینوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے اپنی منظورنظر غنڈہ گرد تنظیموں کو پروان چڑھایا اور طلبہ تحریک میں کلاشنکوف، غنڈہ گردی اور منشیات کو متعارف کروایا اور ان کو پوری طلبہ سیاست پر مسلط کر دیا۔ ان تنظیموں میں پنجاب میں جمعیت اور کراچی میں APMSO جو کہ MQM کا طلبہ ونگ تھا، قابلِ ذکر ہیں۔
لیکن آج کے با شعور نوجوان طلبہ اس بدمعاشی کے سامنے سرتسلیمِ خم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ لیکن طلبہ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جمعیت کی کاروائیوں کا منہ توڑ جواب دینے اور طلبہ حقوق کی جدوجہد کے لئے طلبہ تحریک اور سیاست کو پھر سے درست سائنسی بنیادوں پر زندہ کرنے کے لئے ماضی کی طرح ،انہیں خود منظم ہونا پڑے گا۔ جمعیت کی پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ میں کوئی بنیادیں موجود نہیں ہیں مگر صرف منظم ہونے کے باعث چند غنڈوں نے ہزاروں طلبہ کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ ریاستی ادارے جمعیت کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے بلکہ جمعیت کے غنڈوں کو طلبہ کے ردِ عمل سے بچانے کا کام کرتے ہیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس ملک بھر میں مفت تعلیم، روزگار سب کے لئے اور طلبہ یونین کی بحالی کے نعروں کے گرد طلبہ کو منظم کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ آئیے اس جدوجہد کا حصہ بنیں تاکہ جمعیت اور اس جیسی دیگر نام نہاد طلبہ تنظیموں کے مقابلہ کرتے ہوئے طلبہ کے حقیقی مسائل کی جدوجہد کو آگے بڑھایا جا سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.