اسلام آباد: قائداعظم یونیورسٹی کے بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی، ریاستی غنڈہ گردی مردہ باد!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، اسلام آباد|

مورخہ 25 جولائی 2023ء کی صبح 7 بجے اسلام آباد کے مضافاتی علاقے بھارہ کہو کے نجی ہاسٹل سے دو بلوچ طلباء جواد اقبال اور زید رسول کو جبری طور پہ لاپتہ کیا گیا۔ جواد اقبال قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ الیکٹرانکس کے طالبعلم ہیں اور زید رسول نے ORBIT کالج سے انٹرمیڈیٹ پاس کیا تھا اور قائداعظم یونیورسٹی میں داخلہ فارم جمع کروا رکھا تھا۔ یاد رہے کہ پاکستان میں یہ کوئی پہلا یا آخری واقعہ نہیں ہے۔
پاکستان میں اس وقت طلبہ سنگین مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ آپ پچھلے کچھ عرصے کے عداد و شمار ہی دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ پاکستانی ریاست نے کس قدر غیر انسانی اور غیر جمہوری ہتھکنڈوں کا استعمال کر کے ترقی پسند آوازوں کو کچلا ہے۔ پاکستان میں پچھلے ایک دو سال میں متعدد طلبہ، نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کیا گیا۔ گزشتہ سال ایریڈ یونیورسٹی سے فیروز بلوچ کو لاپتہ کیا گیا تھا جس کو آج تک منظر عام پر نہیں لایا گیا اور نہ ہی کسی عدالت میں پیش کیا گیا۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ پنجاب یونیورسٹی میں دیکھنے کو ملا جس میں بیبگر بلوچ نامی طالبعلم کو یونیورسٹی کے اندر سے انتہائی ذلت آمیز طریقے سے اٹھا لیا گیا۔ اس طرح کے بے شمار واقعات آپ اس ریاست کی تاریخ میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں تعلیمی نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ آبادی کی اکثریت تعلیم کے حصول سے محروم ہے اور جو خوش قسمت اس وقت زیرِ تعلیم ہیں، وہ بھی بے شمار مسائل سے دو چار ہیں۔ جن میں طلبہ کو ہراسمنٹ، پروفائلنگ، جبری گمشدگیوں، مہنگی تعلیم، ہاسٹلوں، ناقص ٹرانسپورٹ اور انتہائی گھٹیا معیارِ تعلیم جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
ریاستی اداروں کے ہاتھوں بلوچ اور دیگر مظلوم قومیتوں سے تعلق رکھنے والے طلباء کا اغوا ہونا ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔ ریاست اپنے سامراجی اور سرمایہ دارانہ تسلط کو قائم رکھنے کے لیے قومی جبر کا تاریخی بدترین ہتھیار استعمال کرتی آئی ہے جس کا نشانہ مظلوم قومیتوں کے محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے طلباء اور عام نوجوان بنتے آئے ہیں۔ قومی جبر اس سماج پر ایک لعنت ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کی بوسیدگی اور اس کے زوال کی ناگزیر پیداوار ہے۔ سرمایہ داری آج اپنے نامیاتی بحران کا شکار ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں انتشار، مہنگائی، جبر اور خانہ جنگیاں نظر آتی ہیں۔ جس کا شکار محنت کش و مظلوم بنتے ہیں جو پہلے ہی زندگی، تعلیم، روزگار سمیت بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ ایسے حالات میں محنت کش عوام ہمیشہ سے قومی جبر کا براہِ راست نشانہ بنتے آئے ہیں۔ یقینا یہ سب کچھ مکمل منصوبہ بندی سے کیا جاتا ہے جس کا مقصد مظلوموں و محکوموں کو ریاستی جبر سے دبائے رکھنا ہے۔ طلبہ سماج کا مستقبل ہوتے ہیں اور تمام مظالم و جبر کے خلاف صفِ اول پہ نظر آتے ہیں۔ اس طرح عام طلباء کو لاپتہ کرنے سے ریاست کا کھوکھلا پن اور خوف عیاں ہوتا ہے۔ ریاستِ پاکستان طلبہ سیاست پر پابندی عائد کر کے طلبہ کو ان کے جمہوری حقوق کی جدوجہد سے محروم رکھ کر اس خطے کی تاریخ کو، جو مزاحمت پر مبنی ہے، چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔
پروگریسو یوتھ الائنس تمام جبری گمشدگیوں کی بھرپور مذمت کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ تمام سیاسی قیدیوں کو فوراً رہا کیا جائے اور اگر وہ کسی جرم کے مرتکب ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ پروگریسو یوتھ الائنس زید اور جواد بلوچ سمیت تمام لاپتہ طلباء کے ساتھ مکمل یکجہتی کرتے ہوئے ان کی سیاسی جدوجہد میں شانہ بشانہ کھڑی رہے گی اور ہم پورے پاکستان کے طلبہ سے بھی ریاست کی جانب سے جبری طور پر گمشدہ کیے جانے والے تمام افراد کے حق میں آواز اٹھانے کی اپیل کرتے ہیں۔ طلبہ کی ان کے باقی تمام مسائل سے نظر ہٹانے اور اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے ریاست اس قسم کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے۔ مگرطلبہ کو اس تمام ظلم و جبر کے خلاف متحد ہونا ہو گا کیونکہ طلبہ کے تمام مسائل کا خاتمہ طلبہ یونین کی بحالی کے ذریعے بھرپور سیاسی جدوجہد کرتے ہوئے ہی ممکن ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.