|تحریر: ایسائس یاوری، ترجمہ: زینب سید |
ایران میں انقلابی بغاوت کو شروع ہوئے دو ہفتے گزر چکے ہیں، اور تحریک جاری ہے۔ ہر بڑے شہر میں نوجوانوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہو رہی ہیں، جبر بھی سخت ہوتا جا رہا ہے۔ اب تک 100 سے زیادہ مارے جا چکے ہیں اور بہت سے گرفتار ہو چکے ہیں۔ پیر کے روز، رد ِعمل میں طلبہ نے ہڑتال شروع کی، جو اب 100 سے زیادہ یونیورسٹیوں تک پھیل چکی ہے!
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
اس وقت بلوچستان (بلوچستان ایران کا ایک صوبہ ہے) کے شہروں خوزیستان اور زاہدان میں احتجاج جاری ہیں۔ اسلامی جمہوریہ کے ماتحت بلوچ ایک مظلوم قوم ہے اور اسی لیے حکومت نے ان کے احتجاج پر زیادہ سفاکیت برتی ہے۔ 86 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ زاہدان کے نوجوانوں نے سرکاری عمارتوں کو جلا دیا ہے۔ ایران بھر میں مزدوروں اور طلبہ کی تنظیموں نے بلوچ مظاہروں کے ساتھ یکجہتی اور بوسیدہ اسلامی جمہوریہ کے خلاف مشترکہ جدوجہد کے لیے بیانات جاری کیے ہیں۔
صوبہ خوزستان، اہوازمیں، نوجوان ”عورت، زندگی، آزادی“ کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اور یہ نعرہ لگا رہے ہیں کہ”اہوازیو، اپنی غیرت کا مظاہرہ کرو – سب کچھ بند کرو“۔ حکومت نے ان پر آنسو گیس برسائی، لیکن ڈرائیوروں نے ان بدمعاشوں کو نوجوانوں کا تعاقب کرنے سے روکنے کے لیے سڑکیں بند کر دیں۔ خوزستان کے دیگر شہروں سوساگرد، شش اور آبادان میں بھی مظاہروں کی اطلاعات ہیں لیکن تفصیلات بہت کم ہیں۔ خوزستان میں ایران کی تیل کی صنعت کا بڑا حصہ موجود ہے اور بڑے پیمانے پر اس صنعت سے وابستہ مزدور یہاں رہتے ہیں۔ ان واقعات کے دوران یہ مزدور تیزی سے ریڈیکلائز ہو رہے ہیں۔
حکومت اپنے وجود کی خاطر خوفزدہ ہو کر رات کو نوجوانوں کے مظاہروں کو روک رہی ہے۔ بھیڑپر کھلے عام گولیاں اور آنسو گیس کی فائرنگ کی جاتی ہے۔ اس کے باعث پرتشد تصادم میں اضافہ ہوا ہے، جن میں سب سے زیادہ خطرناک تہران، کرج، قم، شیراز، اصفہان، رشت، اور کرد شہروں جیسے سنند میں واقع ہوئے ہیں۔ مظاہروں کو روکنے کی کوشش میں حکومت نے انٹرنیٹ کو تقریباً مکمل طور پر بند کر دیا ہے اور یونیورسٹیوں کو بند کر دیا ہے۔
”عورت، زندگی اور آزادی“، ”مرگ بر آمریت“، اور ”توپ، ٹینک، پٹاخے، مولوی دفع ہوجاؤ“ کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ سکیورٹی فورسز کی دہشت گردی کے جواب میں عوام نے بھی نعرہ لگایا ہے ”بسیجی، سپاہی – تم ہمارے داعش ہو“۔ بہت سے واقعات میں نوجوانوں نے نعروں اور چیخ و پکار کے ساتھ سیکورٹی فورسز کا براہ راست مقابلہ کیا ہے،انہیں گولی نہ چلانے پر آمادہ کرتے ہوئے۔
طلبہ کی ہڑتالیں اور ریلیاں اس تحریک کا مرکز بن چکی ہیں، یونیورسٹیاں ان کا گڑھ بن چکی ہیں۔ بہت سے نوجوان جو طالب علم نہیں ہیں وہ بھی جوش و خروش سے ریلیوں میں شامل ہوئے ہیں۔ کئی یونیورسٹیوں میں حکومتی علامات کو توڑ دیا گیا ہے اور ان کی جگہ تحریک کے نعرے لگا دیے گئے ہیں۔ ایران بھر کے پروفیسروں نے حمایت میں بیانات دیے ہیں، کچھ نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا ہے، اور کچھ نے کھل کر ہڑتال اور ریلیوں میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ان میں سے بہت سی ریلیوں کا موڈ ناقابل یقین حد تک انقلابی ہے، جس میں نعرے لگائے جاتے ہیں، ”ہم لڑیں گے، ہم مریں گے، ہم پھر بھی ایران کو واپس لیں گے!“؛ اور، ”طلبہ ہار قبول کرنے کے بجائے مرنا پسند کریں گے!“ حکومت بجا طور پر صورتحال کی شدت سے خوفزدہ ہے، اور اس نے ان ریلیوں سے بڑے تصادم سے گریز کیا ہے۔
محنت کش اور نوجوان – متحد ہو جائیں!
اس تحریک کے آغاز سے لے کر، دبانے کی تمام کوششوں نے نوجوانوں کے انقلابی یقین اور غصے کو تیز کرنے کا کام کیا ہے۔ اب نوجوان اپنی جدوجہد کے تجربے سے تیزی سے اس درست نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایک عام ہڑتال ضروری ہے۔
حکومت کے ردعمل نے نہ صرف نوجوانوں کو بلکہ محنت کشوں کی تنظیموں کو بھی ریڈیکلائز کردیا ہے، کافی مزدور تنظیمیں ہڑتال کی دھمکی دے رہی ہیں۔ اس فہرست میں ٹرک ڈرائیورز، آئل کنٹریکٹ ورکرز کے احتجاج کو منظم کرنے والی کونسل، ہفت تپے فیکٹری کے محنت کش، تہران بس کمپنی کے محنت کش، اساتذہ کی رابطہ کمیٹی، اور دیگر شامل ہیں۔ یہ ٹریڈ یونینز 2018 ء سے بڑھتی ہوئی طبقاتی جدوجہد میں سب سے آگے ہیں، جس میں ہفت تپے کے محنت کش، اساتذہ کی رابطہ کمیٹی کے مقامی ملحقہ، اور کنٹریکٹ آئل ورکرز ملک بھر میں ہونے والے احتجاج میں شامل ہو رہے ہیں۔
لیکن ہڑتال کی کال عام طور پر ان لڑاکا محنت کشوں سے کہیں زیادہ ہے۔ پہلے ہی، بازاروں کی ہڑتالوں کی ایک نئی، چھٹپٹ لہر آئی ہے۔ سرکاری آئل ورکرز یونین نے بھی ہڑتال کی دھمکی دی ہے۔ اس پرت کو پہلے زیادہ لڑاکا معاہدہ کرنے والے تیل کے محنت کشوں سے الگ تھلگ کر دیا گیا تھا، لیکن اب اس نے بھی مؤخر الذکر کے جاری کرد ہ ریڈیکل بیانات کی تائید کی ہے۔
مزدور بنیادی طور پر بڑے پیمانے پر ہڑتال شروع کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ لیکن حکومت ریاستی جبر سے پیچھے نہیں ہٹے گی کیونکہ اس کی بقا خطرے میں ہے۔ ہڑتال کو تیزی سے ایک وسیع عام ہڑتال میں تبدیل ہونا چاہیے جس میں حکومت کے خاتمے کا کھل کر مطالبہ کیا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھول جائیں، یہ بالکل 1978 ء میں ایک ایسی عام ہڑتال تھی جس نے شاہ حکومت کی سکیورٹی فورسز کو مفلوج کر دیا تھا اور خود شاہ کو خوف زدہ ہو کر اپنے امریکی آقاؤں کی بانہوں میں بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔
انقلابی کمیٹیوں کی قیادت میں عام ہڑتال کی طرف بڑھو!
طبقاتی جدوجہد میں، سب سے زیادہ انقلابی پرتیں تقریباً ہمیشہ نوجوانوں میں پائی جاتی ہیں۔ ایران میں نوجوانوں نے عام ہڑتال کی ضرورت کو سمجھ لیا ہے اور کھلم کھلا کمپیئن کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ بند ہونے کے بعد، وہ پمفلیٹ تیار کر کے کار کی کھڑکیوں سے لوگوں میں بانٹ رہے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ ریڈیکلائز مختلف کمیونسٹ گروپوں میں منظم ہیں جو 1979 ء کے انقلاب کی قیادت کرنے والی تنظیموں سے متاثر ہیں۔
ایسا ہی ایک گروہ گیلان کے انقلابی کمیونسٹوں کا ہے، جو علاقہ رشت میں بہت مضبوط ہے۔ وہ عام ہڑتال کی ضرورت بلکہ اس سے پیدا ہونے والے مسائل کی صحیح وضاحت کرتے ہیں:
”سڑکوں پر احتجاج کے تسلسل کے ساتھ ساتھ اپنے تمام ساتھیوں کو عام ہڑتال کی کال دینا بھی بہت ضروری ہے۔ بدقسمتی سے، اس صورت حال میں، محض علامتی ہونے کی بجائے وسیع پیمانے پر ہڑتال کے مؤثر ہونے کے لیے عوام کے درمیان ایک کم سے کم سطح کی تنظیم کی ضرورت ہوگی، جو کہ معاشرے (ایران) میں، خاص طور پر ہمارے کارکنوں میں، حکومت کے وسیع پیمانے پر جبر کی وجہ سے موجود نہیں ہے۔ ایسے میں کوئی امید ہی کر سکتا ہے کہ ملک میں یہ اشتعال انگیز دن محنت کشوں کو حرکت میں لائیں گے۔“
وہ آگے چل کر وضاحت کرتے ہیں کہ کمیونسٹوں کا کام یہ ہے کہ:”ایک عام ہڑتال منظم کرنے کی کوشش کریں، مزدوروں سے اس انقلاب کی ضرورت کے بارے میں بات کریں،(اور) کہ ہم سب کو اس کی کامیابی کے لیے ایک عام ہڑتال کی ضرورت ہے“، اور ”کہ انقلاب کے بغیر باقی سب کچھ (معاشی جدوجہد) بیکار ہو جائے گا“۔
یہ بالکل آگے کا راستہ ہے، انقلابیوں کو گاڑی کی کھڑکیوں سے پمفلیٹ چھوڑنے کے بجائے آگے جانا چاہیے۔ انہیں معاشی اور سیاسی مطالبات کے انقلابی پروگرام کی بنیاد پر ریلیوں میں محنت کشوں کو جیتنا چاہیے اور عام ہڑتال کی بنیادیں استوار کرنا چاہئیں۔ پہلے ہی، ہفت تپے کے محنت کشوں نے خوزستان میں جمعے کے واقعات کے تناظر میں اس طرح کے پروگرام کے لیے نقطہ آغاز پیش کر دیا ہے:
”ہم مکمل آزادی اور اظہار رائے کی آزادی، ٹریڈ یونین اور سیاسی جماعتوں کی انجمن اور آزادانہ انتخابات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم فوری طور پر مفت تعلیم، مفت صحت کی دیکھ بھال، 23 ملین تومان ماہانہ کے مساوی کم از کم اجرت کے فی الفورفراہمی، مکمل انشورنس، پینشن جو معاشرے کے تمام مردوں اور عورتوں کے لیے موزوں ہیں، کے فوری فراہمی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن یہ ہمارے کم سے کم مطالبات ہیں۔
ہمیں فوری طور پر کام کی جگہوں میں آزاد کونسلوں کے قیام کے لیے کام کرنا چاہیے تاکہ تمام معاشی، سیاسی، سماجی معاملات میں براہ راست مداخلت کی جا سکے۔ ہم بنیادی اور معمولی معاشی اور سیاسی مسائل کے فیصلے اکثریتی ووٹ اور براہ راست اور کونسل جمہوریت کے ساتھ کریں گے اور ہم اپنی تقدیر پر مکمل کنٹرول کر لیں گے۔ یہ ہمارا ملک ہے، ظالموں اور استحصالیوں کا نہیں۔ مل کر، اور ہاتھ میں ہاتھ ملا کر، ہمیں اس ملک کی تعمیر کرنی چاہیے اور اپنی ہمت اور طاقت سے آزادی، خوشحالی اور مساوات قائم کرنی چاہیے۔“
ہم تمام مزدور دشمن معاہدوں کے خاتمے کے مطالبات بھی شامل کریں گے۔ 30 گھنٹے کام کرنے والا ہفتہ؛ تمام بڑی نجی کمپنیوں کی قومی تحویل میں لینا، اور تمام پرائیویٹائزڈ کمپنیوں اور بینکوں کو قومیانہ۔ مزید برآں ہمیں تمام جبر کے خاتمے کے لیے سیاسی مطالبات اٹھانے چاہئیں۔ اورصنفی تفریق، جنسیت اور قومیت سے قطع نظر ہونے کے اصول کے تحت مساوی حقوق کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ ان مطالبات میں ہمیں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ مورالٹی پولیس، بسیج اور پاسداران کے نیم فوجی گروپوں کا خاتمہ بھی شامل کرنا چاہیے۔ اور آئین ساز اسمبلی کا اجلاس۔
اس پروگرام کو نوجوانوں اور محنت کشوں کو خود ہی آگے بڑھانا چاہیے۔ تاہم ایسی بنیاد پر عام ہڑتال کی تیزی سے تیاری کی جا سکتی ہے۔ طلبہ کو چاہیے کہ وہ پہلے ہی یونیورسٹیوں میں ہڑتالی کمیٹیاں بنانا شروع کر دیں تاکہ جدوجہد کی قیادت کی جا سکے۔ ایک بار ہڑتالیں پھیل جانے کے بعد، ہر کام کی جگہ اور محلے میں ایسی ہی کمیٹیاں قائم کی جانی چاہئیں، اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف ملک گیر جدوجہدکے لیے جوڑ دی جانی چاہیے۔
مرگ بر اسلامی جمہوریہ!
حقیقت یہ ہے کہ ہولناک جبر کے باوجود حکومت بہت کمزور ہے اور ایک زخمی درندے کی طرح بد ترین جبر کر رہی ہے۔ بسیجی اورپاسداران نیم فوجی دستوں کے درمیان اس کی حمایت کا واحد اور اصل اڈہ ہے۔ لیکن یہ قوتیں بھی محدود ہیں۔ سیکورٹی فورسز نے یہاں تک کہ بچوں کو بھرتی کرنا شروع کر دیا ہے اور خطے میں اپنے غیر ملکی اتحادیوں سے مشاورت بھی شروع کر دی ہے۔ لیکن عوام پر جتنا ظالمانہ جبر ہوگا، اتنا ہی اس سے عوام کے درمیان غیر فعال حمایت کو سڑکوں پر زبردست ردعمل کی شکل دینے کا خطرہ ہے۔ عام ہڑتال کی بدولت سکیورٹی فورسز مکمل طور پر مغلوب ہو جائیں گی۔
حکومت کے اقتدار میں رہنے کی واحد وجہ قیادت اور واضح پروگرام کا فقدان ہے۔ یہ واحد نکتہ ہے جس نے عوام کو روک رکھا ہے، جیسا کہ یہ 2018 ء سے ہو رہا ہے۔ یہ 1979 ء کے انقلاب سے ایک معیاری فرق ہے، جب مختلف ملک گیر کمیونسٹ تنظیمیں موجود تھیں۔ پھر، آج کے برعکس، اس جیسی ہی جابرانہ شاہ حکومت کے باوجود، کمیونسٹ سیل تقریباً ہر صنعت میں موجود تھے، اور طلبہ تحریک پر مکمل طور پر غلبہ حاصل کر چکے تھے۔ ایسی تنظیموں کی کمی ایران میں پورے انقلابی عمل کو خاک میں ملا رہی ہے۔ انقلابیوں کا کام اس خلا کو پُر کرنا، محنت کشوں سے جوڑنا، عام ہڑتال کی تعمیر اور اسلامی جمہوریہ کا تختہ الٹنا ہے۔
لیکن اسلامی جمہوریہ کے زوال کے ساتھ بھی سرمایہ داری کی بنیاد پر عوام کے مطالبات پورے نہیں ہو سکتے۔ ایران کے مجرمانہ سرمایہ دار طبقے کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ سامراجیوں نے پہلے ہی محمد رضا پہلوی کے بیٹے رضا پہلوی کو متبادل کے طور پر پیش کیا ہے، لیکن ایرانی عوام نے بجا طور پر انہیں اس نعرے کے ساتھ مسترد کر دیا: ”ظالموں کو موت، خواہ وہ شاہ ہو یا رہبر (خامنہ ای)“۔ بورژوا جمہوریت عوام کے کسی بھی مسئلے کو حل نہیں کرے گی۔ اور سرمایہ دار طبقہ جو کبھی جمہوریت کا حلیف نہیں رہا، اسے نئی آمریت مسلط کرنے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔ ایرانی سرمایہ داری کے 100 سالہ ڈراؤنے خواب کو ختم کرنے کے لیے اسلامی جمہوریہ کی معزولی کو محنت کش طبقے کے اقتدار پر قبضے کے ساتھ ملنا چاہیے۔ اس موقع پر ایرانی مارکسسٹوں کو تحمل سے یہ وضاحت کرنی چاہیے کہ صرف اسی بنیاد پر سرمایہ داروں کے قبضے سے عوام کے جمہوری اور معاشی مطالبات کو پورا کیا جا سکتا ہے۔