|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ڈی جی خان|
انڈس انسٹیٹیوٹ کے طلبہ گزشتہ کئی ماہ سے جعلی ڈگریاں دیے جانے کے خلاف سڑکوں پر ہیں اور اپنے حقوق کے لیے ہر قسم کی مشکلات برداشت کر رہے ہیں۔ ان طلبہ پر کئی بار پولیس تشدد کیا گیا ہے اور مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں۔ پچھلے ماہ ان طلبہ نے پل ڈاٹ روڈ پر احتجاج کیا تھا جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور مقدمہ درج کر کے کئی طلبہ کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ جس کے بعد طلبہ مایوسی و بدظنی کا شکار ہو گئے تھے ۔ 5 اکتوبر کو طلبہ نے ایک بار پھر جرأت اور عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹریفک چوک پر دھرنا دیا اور ایک بار پھر اس نا انصافی کو اجاگر کیا جو کہ جاری ہے۔ طلبہ صبح سے لے کر شام تک کیمپ میں موجود رہے اور انڈس انتظامیہ، انسٹیٹیوٹ کے مالک مولوی عبدالکریم(جس کو حالیہ کابینہ میں وفاقی وزیر بنا کر نوازا گیا ہے) اورتعلیم کے کاروبار کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان نے بھی طلبہ کے اس دھرنے میں شرکت کی اور طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیااور طلبہ میں پروگریسو یوتھ الائنس کالیف لیٹ بھی تقسیم کیا۔ پروگریسو یوتھ الائنس نے طلبہ کے سامنے اپنا موقف پیش کیا اور کہاکہ طلبہ کو اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے خود کو منظم کرنا ہوگا اور تعلیم کے کاروبار، مہنگی تعلیم جیسے مسائل کے ساتھ جعلی ڈگریوں کے مسئلے کو جوڑنا ہوگا۔ طلبہ کوملک کے دیگر شہروں میں موجود تعلیم کے کاروبار سے متاثرہ طلبہ کے ساتھ خود کو جوڑنا ہوگا اور حکمران طبقے کی پارٹیوں کی بجائے طلبہ کی طاقت پر اعتماد کرنا ہوگا۔ ایسے وقت میں جب ماضی کی تمام طلبہ تنظیمیں زوال پذیری کا شکار ہیں اور بھتہ خوری و غنڈہ گردی میں مصروف ہیں اور طلبہ کے مسائل سے لاتعلق ہیں، پروگریسو یوتھ الائنس وہ واحد پلیٹ فارم ہے جو کوئٹہ سے لے کر کشمیر تک طلبہ کو اس ظالمانہ نظام کے خلاف منظم کر رہا ہے۔ پروگریسو یوتھ انڈس کے متاثرہ طلبہ کے ساتھ ہے اور ملک بھر میں اس کے خلاف آواز اٹھائے گا۔
یاد رہے کہ انڈس انسٹیٹیوٹ 1500 سے زائد طلبہ کا مستقبل برباد کرچکا ہے اور طلبہ کے ساتھ گزشتہ کئی سالوں سے فراڈکر رہا ہے اور ابھی تک ایچ ای سی ،نیب سمیت کسی ادارے نے اس کے خلا ف کوئی کاروائی نہیں کی اور نہ ہی ابھی تک ادارے کو بند کرایا گیا ہے اور اس طرح مزید ہزاروں طلبہ کے مستقبل کے ساتھ بھی کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ انڈس انتظامیہ اور وفاقی وزیر حافظ عبدالکریم طلبہ کے اندر مایوسی و بد ظنی پھیلانے کے لیے تاخیری حربوں، پولیس تشدداور بلیک میلنگ کا استعمال کر رہا ہے۔ دوسری جانب حکمران طبقے کی مختلف پارٹیاں طلبہ کو مسئلے کا حل پیش کرنے کی بجائے 2018ء کے الیکشن کے پیش نظر علامتی یکجہتی کرنے پہنچ جاتی ہیں۔ طلبہ کو سمجھنا ہوگا حکمران طبقے کی پارٹیاں جو خود تعلیم اور علاج کی بہتی گنگا سے مستفید ہو رہی ہیں وہ اپنے ہی اس منافع بخش کاروبار کے خلاف کیسے ہو سکتی ہیں۔ طلبہ کا احتجاج اور ان کی اپنی قوت بڑی پارٹیوں کے بڑے ناموں سے زیادہ اہم ہے اور طلبہ کواپنی قوت پر بھروسہ رکھتے ہوئے جدوجہد کو جاری رکھنا چاہئے اور اپنی جدوجہد کو تعلیم کے کاروبار کے خلاف جدوجہد سے جوڑنا ہوگا۔