|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کراچی|
29اکتوبر 2020 بروز جمعرات پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے کراچی یونیورسٹی میں یونٹ بنانے کا اعلان کیا گیا اس سلسلے میں کراچی یونیورسٹی کے Criminology ڈیپارٹمنٹ میں ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں طلبہ کی بھاری تعداد نے شرکت کی۔
پروگریسو یوتھ الائنس گزشتہ ایک مہینے سے کراچی یونیورسٹی میں مفت تعلیم کے لیے، طلبہ کو سہولیات دیے بغیر آن لائن کلاسوں کے خلاف، ہراسمنٹ اور طلبہ کے دیگر مسائل پر کمپئین جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کمپئین کے دوران یونیورسٹی میں لیف لیٹ تقسیم کئے گئے اور طلبہ کے ساتھ مختلف میٹنگز منعقد کی گئیں۔ اس ساری کمپئین کو طلبہ کی طرف سے بھرپور سراہا گیا اور طلبہ نے خود اس کمپئین میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ طلبہ نے پروگریسو یوتھ الائنس کی ممبرشپ بھی لی، جس کے بعد پروگریسو یوتھ الائنس نے کراچی یونیورسٹی میں اپنا ایک فعال یونٹ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا اور ایک بھرپور کمپئین کے بعد پروگریسو یوتھ الائنس نے کراچی یونیورسٹی میں یونٹ تشکیل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
تقریب کا آغاز انقلابی ترانوں سے ہوا نیز سٹیج سیکرٹری کے فرائض انگلش ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم کامریڈ دلیپ نے ادا کیے۔ پہلے مقرر پی وائی اے کراچی کے آرگنائزر امیر یعقوب تھے۔ امیر یعقوب نے پی وائی اے کے تعارف اور پورے پاکستان میں اس کے کام پر تفصیل سے بات کی۔ امیر یعقوب نے کہا کہ پروگریسو یوتھ الائنس کی بنیاد 2015 میں رکھی گئی۔ پی وائی اے پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کو مفت تعلیم، طلبہ یونین کی بحالی، طلبہ ہراسمنٹ کے خاتمے اور اس کے علاوہ دیگر طلبہ مطالبات کے گرد ملک گیر طلبہ تحریک کے ذریعے ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کی جدو جہد کر رہا ہے اور آج کی تقریب بھی اسی جدوجہد کا تسلسل ہے۔
دوسرے مقرر پی وائی اے کے نمائندہ عادل عزیز تھے۔ عادل عزیز نے کراچی یونیورسٹی میں پی وائی اے کا یونٹ بننے پر یونیورسٹی کے طلبہ کو مبارکباد دیتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کیا۔ عادل عزیز کا کہنا تھا کہ یہاں آن لائن کلاسوں کے نام پر طلبہ کے ساتھ فراڈ کیا گیا اور فیسیں بٹوری گئیں۔ کرونا وبا اور لاک ڈاؤن میں بحران کا تمام بوجھ محنت کشوں اور درمیانے طبقے پر ڈال دیا گیا ہے، اور سالہاسال سے تعلیم کا بجٹ کاٹا جا رہا ہے جس کے باعث تعلیم تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کے لیے ایک منافع بخش کاروبار اور عیاشی بن گئی ہے۔ عادل عزیز کا مزید کہنا تھا کہ آج ہم ایسے وقت میں یونٹ بنا رہے ہیں جب پاکستان میں طلبہ تحریک معیاری تبدیلیوں سے گزر رہی ہے، خود کراچی یونیورسٹی میں طلبہ مزاحمت کے لیے تیار ہیں لیکن بدقسمتی سے طلبہ کے لیے کوئی ایسی تنظیم موجود نہیں ہے جو ان تحریکوں کو انقلابی نظریات سے لیس کرے اور ملکی سطح پر طلبہ تحریک کو منظم کرے۔ لیکن پروگریسو یوتھ الائنس یہ اہم کام بخوبی سر انجام دے رہا ہے۔
عادل عزیز کے بعد تقریب کی تیسری مقررہ سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی طالبہ زینب تھیں۔ زینب نے کراچی یونیورسٹی کے مسائل پر تفصیل سے بات رکھی۔ زینب کا کہنا تھا کہ کراچی یونیورسٹی میں بیالیس ہزار طلبہ کے لیے چند بسیں ہیں اور وہ بھی خستہ حالت میں، جس وجہ سے طلبہ اپنے لیے پرائیویٹ اور مہنگی ٹرانسپورٹ خریدنے پر مجبور ہیں، اسی طرح ہاسٹل، انفراسٹرکچر کے معاملات میں بھی انتظامیہ اور اساتذہ کی بدمعاشی چلتی ہے۔ زینب نے کیمپس میں ہونے والی ہراسمنٹ پر بھی تفصیلی بات کی۔ زینب کا کہنا تھا کہ کیمپس میں بڑھتے ہراسمنٹ کے واقعات کے باعث طالبات خود کو انتہائی خوفزدہ محسوس کرتی ہیں، آواز اٹھائی جائے تو انہیں مختلف طریقوں سے دھمکیاں دی جاتی ہیں، لیکن اب طالبات میں اس بھیانک عمل کے خلاف غم و غصہ بڑھتا چلا جا رہا ہے جو کبھی بھی لاوا بن کر پھٹ سکتا ہے۔ زینب کا کہنا تھا کہ ہم ہراسمنٹ سے صرف اور صرف طلبہ کی اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں کے ذریعے لڑ سکتے ہیں۔
آخری مقرر ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کے طالبعلم آنند تھے۔ آنند نے پورے ملک میں اور بالخصوص جامعہ کراچی میں طلبہ سیاست پر بات سے آغاز کیا۔ آنند کا کہنا تھا کہ روایتی طلبہ تنظیمیں نہ صرف طلبہ حقوق پر لڑنے سے قاصر ہیں بلکہ طلبہ تحریک کے آگے بڑھنے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اسی لیے طلبہ نے ان تنظیموں کو مسترد کر دیا ہے، لیکن ابھی تک طلبہ کے حقیقی سیاسی اظہار کا کوئی پلیٹ فارم نہیں ہے، پی وائی اے ہی وہ پلیٹ فارم ہے جہاں ہم بِنا کسی قومی، نسلی، زبانی، مذہبی و صنفی امتیاز کے لڑ سکتے ہیں۔ آنند نے طلبہ یونین کی تاریخ پر بھی تفصیل سے بات رکھی اور کہا کہ خود کراچی یونیورسٹی ہمیں تحفہ میں نہیں ملی ہے بلکہ ڈاؤ میڈیکل کالج اور ڈی جے سائنس کالج کے طلبہ کی قیادت میں سیاسی جدوجہد اور لڑائی کے نتیجے میں کراچی یونیورسٹی کا یہ حق حاصل کیا گیا تھا، جامعہ کراچی طلبہ کی قربانیوں کا ثمر ہے۔ آنند نے کہا کہ پاکستان میں طلبہ کی سیاست اور مزاحمت کا شاندار ماضی ہے جسے یہاں کے میڈیا، دانشوروں اور حکمرانوں نے تاریخ سے مٹا دیا ہے۔ آخر میں آنند نے حاضرینِ تقریب کو پی وائی اے میں شمولیت کی دعوت دی اور پی وائی اے کا ہفتہ وار سٹڈی سرکل شروع کرنے کا اعلان کیا اور ایک ہفتے بعد جامعہ کراچی میں ہراسمنٹ کے خلاف بھرپور کمپئین چلانے کا بھی اعلان کیا۔ آنند نے کہا کہ پی وائی اے ہی وہ قوت ہے جو کیمپس سے ظلم کا خاتمہ کرے گی۔
مقررین کے خطاب کے بعد امیر یعقوب نے پی وائی اے کراچی یونیورسٹی کی نو منتخب باڈی کا اعلان کیا اور باڈی سے حلف بھی لیا۔ نو منتخب باڈی میں ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کے طالبعلم آنند بطور صدر، سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی طالبہ زینب بطور جنرل سیکرٹری، ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے طالبعلم ہریش فنانس سیکرٹری، پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کی طالبہ بشری بطور پریس سیکرٹری اور پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کی طالبہ حمنہ کو بطور اسٹڈی سرکل انچارچ منتخب کیا گیا۔ تقریب کا اختتام انقلابی نعروں سے کیا گیا۔