تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسمنٹ، حل کیا ہے؟

|تحریر: عرفان منصور|

گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس میں پاکستان 146 ویں نمبر پر موجود ہے۔ 2022ء کے اختتام پر کام کی جگہوں اور اداروں میں جنسی ہراسانی کے واقعات میں 93 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ ہے پاکستان کے عورت دشمن سماج کی ایک چھوٹی سی جھلک۔ اگر آپ معاملے کی شدت کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اپنے ارد گرد دیکھیں، آپکو اس سماج کی عورت دشمنی زندگی کے ہر ایک پہلو میں نظر آئے گی۔ مگر یہاں ہم صرف تعلیمی اداروں میں جاری ہراسمنٹ کی بات کروں گا جس کا ایک ہولناک اظہار ہمیں چند دن پہلے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں نظر آیا ہے کہ انتظامیہ کا منظم گروہ اس میں ملوث تھا۔

مگر یہاں معاملے کو اس کی تمام تر شدت کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اکثر لوگ اسے نہیں سمجھ رہے اور صرف اسلامیہ یونیورسٹی کو چند گالیاں نکال کر سمجھ رہے ہیں کہ گویا انہوں نے ہراسانی کے خلاف اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے۔ اور طلباء و طالبات بھی یہ سوچ رہے ہیں کہ اس کے خلاف لڑا بھی نہیں جاسکتا ہے اور ہراسانی کرنے والوں کے خلاف کچھ بھی نہیں ہوگا اور وہی دوبارہ یونیورسٹی آجائیں گے۔ جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ نہ صرف اس کے خلاف لڑا جا سکتا ہے بلکہ اس کا خاتمہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

کیسے لڑا جائے؟ اس پر بھی بات کرتے ہیں مگر اس سے پہلے میں آپ کو بتا دوں کہ اگر آپ اس معاملے کو صرف ایک یونیورسٹی تک محدود سمجھ رہے ہیں تو آپ انتہائی سطحی تجزیہ کررہے ہیں۔ ہاں، اسلامیہ یونیورسٹی میں یہ معاملہ ایک سکینڈل کی صورت میں ایکسپوز ہوا ہے مگر ایسی ہی تشویشناک حالت ہر ایک یونیورسٹی میں موجود ہے۔ پاکستان کی کونسی یونیورسٹی ہے کہ جہاں ہراسمنٹ نہیں ہو رہی ہے؟ اور اگر آپ تھوڑا سا کریدیں تو ہر جگہ ہی آپ کو انتظامیہ انتہائی منظم طریقے سے ملوث نظر آئے گی۔ اور یہ صرف تعلیمی اداروں تک بھی محدود نہیں ہے بلکہ کام کی جگہوں پر، فیکٹریوں میں، خدمات کے شعبوں میں بھی ہراسمنٹ ویسے ہی موجود ہے جیسے تعلیمی اداروں میں۔ ہمارے تعلیمی ادارے سماج کا عکس ہی تو ہیں تو جو سماج میں چل رہا ہوتا ہے اسی کا اظہار ان میں بھی ہوتا ہے۔

ہمارے تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسمنٹ انتہائی منظم شکل میں موجود ہے۔ جس کا آغاز داخلہ لیتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ جس میں انتظامیہ سے لے کر پروفیسر سب شامل ہوتے ہیں۔ پروفیسروں کے پاس ہر سبجیکٹ میں 20 سیشنل مارکس ہیں اور اسکے علاوہ باقی 80 مارکس میں بھی وہ من چاہی کمی یا زیادتی کرسکتا ہے۔ سٹوڈنٹ کو اپنی سی جی پی اے بھی اچھی رکھنی ہے اور اسکی شکایت کی خاص شنوائی بھی نہیں ہونی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسکی شکایت الٹا اسکے گلے پڑ جائے۔ اس طرح طلبہ، بالخصوص طالبات کے گرد گھیرا تنگ کیا جاتا ہے اور انہیں اپنی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے یا پھر ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے۔

اسی طرح ہاسٹل میں تین لوگوں کے کمرے میں آٹھ آٹھ لوگ رہ رہے ہیں، کیونکہ زیادہ تر کمرے انتظامیہ کی پالتو نام نہاد طلبہ تنظیموں اور کونسلوں کے قبضے میں ہیں۔ اسی طرح ہاسٹل وارڈن اور انتظامیہ کے لوگ صاف ستھرے اور کھلے کمرے کیلئے بھی طلبہ کو ذلیل و رسوا کرتے ہیں اور ایک کمرے کیلئے طلبہ کو جنسی ہراسمنٹ کا شکار بنایا جاتا ہے۔ سکالرشپ سے لے کر فائنل سمیسٹر کے تھیسز تک متعدد مواقعوں پر انہیں نا صرف جنسی ہراسمنٹ کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ انکار کرنے والوں کے پورے مستقبل کو برباد کر دیا جاتا ہے۔ مثالیں اور بھی بہت موجود ہیں مگر انہی سے ہی یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس سسٹم نے ان پروفیسروں اور انتظامیہ کے لوگوں کو وہ اختیارات دے رکھے ہیں کہ جن کے بلبوتے پر یہ آسانی سے طلباء و طالبات کا جنسی و ذہنی استحصال کرتے ہیں۔ یعنی کہ یہ چند کالی بھیڑیں نہیں ہیں بلکہ ترتیب دیا گیا یہ سسٹم ہی ایسا ہے۔

مگر حل کیا ہے؟ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے واقعہ کے بعد دو سطحی حل ہرجگہ پیش کیے جارہے ہیں۔ ایک، بچیوں کو یونیورسٹی نہ بھیجنا اور دوسرا مخلوط نظامِ تعلیم کا خاتمہ۔ اس کے علاوہ نام نہاد عورت دشمن فیمینسٹ ٹائپ زومبیز مسئلے کوسمجھے بغیر سیکس کی تربیت یا آزادی کی سطحی اور عورت دشمن الٹیاں بھی مار رہے ہیں۔ لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنے یا مخلوط تعلیم سے دور رکھنے کے پیچھے ایک ہی سوچ موجود ہے کہ جب لڑکا لڑکی جدا ہوں گے تو ہراسمنٹ ختم ہوجائے گی۔ اس حل میں آپ تعلیم کو سماج سے کاٹ کر دیکھ رہے ہیں۔ کیا آپ سماج میں بھی عورت مرد کے لیے الگ الگ دنیا تعمیر کرسکتے ہیں کہ جس سے آپ وہاں بھی ہراسانی کا خاتمہ کرسکیں؟ کیا وہ ادارے جہاں الگ الگ تعلیم موجود ہے جیسا کہ وومن یونیورسٹیاں یا مدرسہ جات، وہاں ہراسامنٹ نہیں ہوتی ہے؟ درحقیقت یہ دونوں حل سطحیت اور وقتی اُبال کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ تعلیمی اداروں سے ہراسمنٹ کی روک تھام کیلئے انتظامیہ اور پروفیسروں کے پاس موجود لامتناہی اختیارات کو ختم کرنا ہوگا۔ یعنی کہ پروفیسروں سے سیشنل مارکس اور پیپر چیکنگ کا اختیار لے کر بورڈ کی طرز پر اداروں کو دیا جانا چاہیے اور موجودہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے پیپر چیکنگ کی وڈیو ریکارڈنگز بھی کی جانی چاہئیں اور براہ راست بھی نشر کیا جانا چاہیے۔ کلرکوں کی من مانیوں اور ٹیبل رول کے خاتمے کے لیے بھی لائحہ عمل ترتیب دیا جانا چاہیے اور بالخصوص یونیورسٹی کے مالی معاملات کی تفصیلات اس کی ویب سائٹ پر نشر کی جانی چاہئیں۔ دوسری طرف طلبہ کے جمہوری پلیٹ فارم، یعنی طلبہ یونین کو فی الفور بحال کرنا ہوگا۔ طلبہ یونین کی موجودگی میں طلبہ کے اتحاد اور یونیورسٹی کے فیصلہ جاتی امور میں شمولیت سے اس مسئلے کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔

مگر پاکستان کے حکمران طلبہ یونین پر پابندی کبھی بھی ختم نہیں کریں گے۔ درحقیقت یہ پابندی لگائی بھی اسی لیے گئی تھی تا کہ طلبہ کو سیاست سے دور کیا جائے اور اپنی حکمرانی کو برقرار رکھا جائے۔ اسی کا نتیجہ اب کیمپسز میں اسلامیہ یونیورسٹی جیسے واقعات کی صورت میں نکل رہا ہے۔ آج بھی یہ حکمران ایک سیاسی طور پر باشعور نوجوان نسل سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں یہ انکے مفادات اور لوٹ مار کے خلاف ہی نہ کھڑی ہوجائے۔ خاص طور پر موجودہ مہنگائی اور بیروزگاری کی صورت حال میں تو یہ خوف اور بھی زیادہ بڑھ گیا ہے۔ لہٰذا طلبہ یونین کو بحال کرانے کیلئے آج طلبہ کو ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز کرنا ہوگا جس کی قیادت کوئی مین سٹریم سیاسی پارٹی کی بجائے طلبہ کے اپنے جمہوری طور پر منتخب پلیٹ فارمز کریں۔ مگر جب تک طلبہ یونین بحال نہیں ہوتی تب تک ہراسمنٹ کی روک تھام کیلئے طلبہ کیا کریں؟ تب تک طلباء و طالبات کو مل کر ہر تعلیمی ادارے میں اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں کو منظم کرنا ہوگا۔ ہر ایک کلاس میں ڈسکشن کرکے اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کے نمائندوں کا چناؤ کرکے ڈیپارٹمنٹ اور فیکلٹی کی سطح تک اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں بنانی ہوں گی اور ان کمیٹیوں کے کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر یونیورسٹی کی سطح اور پھر دیگر یونیورسٹیوں کی اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں کو ملک گیر سطح پر آپس میں جوڑ کر پیش آنے والے کسی بھی ہراسمنٹ کے واقعے کے خلاف ایکشن لینا ہوگا۔ یہی واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے تعلیمی اداروں میں ہراسمنٹ کے خلاف لڑا جاسکتا ہے۔

مگر یہاں یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ ہراسمنٹ کا مسئلہ درحقیقت موجودہ پدر سری سماج کی وجہ سے موجود ہے جس میں عورت محکوم ہے۔ پدر سری نظام کا آغاز چند ہزار سال پہلے نجی ملکیت اور طبقاتی نظام کے آغاز کے ساتھ ہوا تھا۔ آج بھی یہ طبقاتی نظام اور نجی ملکیت موجود ہے۔ لہٰذا جب تک اس کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، تب تک پورے سماج سے مستقل طور پر جنسی ہراسمنٹ کا خاتمہ ممکن نہیں۔ یہ طبقاتی نظام آج سرمایہ داری کی صورت میں پوری دنیا میں موجود ہے۔ لہٰذا پوری دنیا سے سرمایہ داری کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ یہ خاتمہ ایک سوشلسٹ انقلاب کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ اس انقلاب کے بعد ہی نجی ملکیت اور طبقاتی نظام کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو جائے گا اور سماج میں ہر طرح کے جبر اور نا انصافی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ سوشلزم میں انسان کی عزت اس کی قابلیت کی بنیاد پر ہو گی نہ کہ جنس کی بنیاد پر۔ اسی طرح کوئی انسان کسی دوسرے انسان (مرد یا عورت) کا طاقت کی بنیاد پر استحصال نہیں کر سکے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.